عموماً میری یہ عادت ہے کہ سونے سے قبل کسی بڑے عالم کا آڈیو درس یا کوئی آڈیو کتاب آن کر دیتا ہوں تاکہ جتنا وقت نیند آنے میں لگے وہ بلا وجہ ضائع نہ ہو،چنانچہ آج رات علامہ حافظ محمد شریف حفظہ اللّٰہ کا نام یوٹیوب پر سرچ کیا تو عربی زبان میں ان کا ایک انٹرویو سامنے آیا جو بہت سارے علمی فوائد سے بھر پور ہے، ہر طالب علم کو ایک بار ضرور سننا چاہیے بعض باتیں بڑی تحقیقی ہیں جن تک پہنچنے کے لیے ایک مدت کی محنت مطلوب ہے۔(ویسے اصول حدیث اور اصول فقہ پر شیخ حفظہ اللّٰہ کے دروس بڑے علمی ہوتے ہیں الحمد للّٰہ میں اصول فقہ پر یوٹیوب میں موجود شیخ کے بیشتر دروس سن چکا ہوں اور کئی اخوان کو ان کی طرف رہنمائی بھی کیا ہوں)

شیخ نے اپنے اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے شیخ محمد امان الجامی رحمہ اللّٰہ سے علم حاصل کیا ہے، اور میں دو سال سے زیادہ عرصہ تک شیخ ربیع بن ہادی مدخلی حفظہ اللّٰہ وشفاہ وعافاہ کے ساتھ رہا اور خوب خوب استفادہ کیا ہوں، شیخ نے میری تربیت کی اور مجھے منہج، عملی طور پر تخریج حدیث کا طریقہ اور تراجم رواۃ لکھنے کا عملی طریقہ سکھایا، میں نے آپ کے ساتھ امام حاکم کی کتاب “المدخل إلى الصحيح” کی تحقیق میں کام کیا، آپ کے پاس دکتوراہ کے رسائل مناقشہ کے لیے آتے تھے تو آپ میری تعلیم وترتیب کے لیے مجھے وہ رسائل دے دیتے اور کہتے کہ انہیں پڑھو اور ان میں جو کمی کوتاہی اور اخطاء ہیں ان کو تلاش کرو تو میں ان رسائل کو پڑھتا اور ان پر بعض چیزیں لکھتا پھر جب شیخ مجلس مناقشہ میں بیٹھتے تو طالب علم پر بڑی سختی کرتے!!!
شیخ نے میری تربیت کی مجھے لکھنا سکھایا، تخریج حدیث کی عملی مشق کرائی، اور ہم نے شیخ سے عقیدہ منہج اور عمل کرنا سیکھا فجزاہ اللّٰہ خیراً۔
شیخ سے سوال کیا گیا کہ: کیا شبہ قارہ ہندیہ کے اہل حدیثوں اور دوسرے ممالک کے انصار السنہ المحمدیہ اور سلفیین میں کوئی فرق نہیں ہے؟
تو آپ نے فرمایا: بلاد عرب کے سلفیین، شبہ قارہ ہندیہ کے اہل حدیث اور مصر و سوڈان کے انصار السنہ المحمدیہ سبھی علمی اور عملی طور پر ایک ہی منہج واساس اور ایک ہی عقیدہ پر قائم ہیں، لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے:
پہلی چیز: شبہ قارہ ہندیہ میں اہل حدیث مختلف مراحل سے گزرے ہیں، چنانچہ وہاں جو دعوت اہل حدیث کے علماء تھے وہ اشاعرہ وماتریدیہ کے عقیدے پر تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ یہی اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے جو کہ سلف کا عقیدہ تھا، جیسا کہ شہرستانی نے “الملل والنحل” اور جرجانی نے “الفَرق بين الفِرق” کے اندر ذکر کیا ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ اہل السنہ والجماعہ کے دو فرقے ہیں: ایک فرقہ اہل التاویل کا ہے چنانچہ یہ لوگ اشاعرہ وماتریدیہ کے منہج پر قائم اہل التاویل کو اہل السنہ والجماعہ کہتے تھے، دوسرا اہل التفویض کا یعنی “تفویض معاني الأفاظ” (الفاظ کے معانی کو بھی اللّٰہ کے سپرد کر دینا اور یہ کہنا کہ ان الفاظ کے معانی سے بھی ہم واقف نہیں ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ اسماء و صفات کے باب میں مختلف فرقوں کے اقوال میں سے سب سے بدترین قول مفوضہ کا ہے) اور آپ جانتے ہیں کہ اہل التاویل اہل السنہ نہیں ہیں اور اہل التفویض یعنی مفوضہ بھی اہل السنہ نہیں ہیں، مفوضہ کہتے ہیں کہ ہم ان الفاظ کے معانی نہیں جانتے ہیں ان کا علم اللّٰہ کے پاس ہے اور جو معنی بظاہر معلوم ہوتا ہے وہ باطل ہے صحیح نہیں ہے، اور اہل التاویل کہتے ہیں کہ نصوص (صفات) سے جو ظاہری معانی معلوم ہوتے ہیں وہ کفر ہیں صحیح نہیں ہیں ان کے دوسرے معانی ہیں چنانچہ وہ تاویل کرتے ہیں، پس جب شاہ ولی اللّٰہ اور ان کے بیٹوں اور ان کے پوتے اسماعیل شہید کی کاوشوں کے نتیجے میں کتاب وسنت کی طرف رجوع اور اتباع نصوص کتاب وسنت کی تحریک زور پکڑی تو یہ تحریک فقط عملیات سے متعلق تھی جبکہ عقیدہ کے باب میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ اشاعرہ اہل السنہ والجماعہ ہیں، چنانچہ شروع شروع میں اہل حدیث انہیں لوگوں کو کہا جاتا تھا جو عبادات سے متعلق مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے تھے گرچہ عقائد میں اہل التاویل کے ساتھ تھے، کیونکہ انہوں نے یہی پڑھا اور سیکھا تھا اور اہل السنہ کا عقیدہ سمجھ کر اسے کتابوں میں لکھا اور مدون تھا لیکن جب یہ تحریک مضبوط ہو گئی اور اہل حدیثوں تک شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابیں پہنچیں اور انہوں نے ان کا مطالعہ کیا، نیز ہندوستانی علمائے اہل حدیث کا سعودی عرب کے سلفی علماء سے تعلقات وروابط استوار ہوئے تو اہل حدیث عقیدہ میں بھی ماتریدی منہج سے سلفی منہج کی طرف لوٹنے لگے، اور جب ایک عرصہ گزر گیا تو ایسا ہو گیا کہ الحمد للّٰہ اب اہل حدیث مدارس وجامعات میں صرف سلفی عقیدہ ہی پڑھایا جاتا ہے اور سلفی عقیدہ ہی کی نشر واشاعت کی جاتی ہے عین اسی منہج کے مطابق جو سعودی عرب کے سلفی علماء اور شیخ محمد بن عبد الوہاب شیخ البانی ابن باز اور ابن عثیمین رحمہم کے ہاں رائج ہے کیونکہ اساس ایک ہی ہے… لیکن چونکہ یہ تحریک رفتہ رفتہ مضبوط ہوئی ہے اس لیے اب بھی پہلے کے علمائے اہل حدیث کی کتابوں میں بعض تاویلات پائی جاتی ہیں کیونکہ یہی انہوں نے پڑھا اور سیکھا تھا لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ صحیح منہج کوئی اور ہے تو وہ اس کی طرف لوٹ آئے!!!

دوسری چیز یہ ہے کہ شبہ قارہ ہندیہ کے ملکوں کے معاشروں کے احوال و ظروف سعودی عرب کے معاشروں کے احوال و ظروف سے بالکل مختلف ہیں، چنانچہ شبہ قارہ ہندیہ میں یہ دعوت جلسوں کانفرنسوں اور دعوت وتبلیغ کے پروگراموں کے ذریعے پھیلی ہے اور مدارس وجامعات تدریس کا حصہ اس میں بہت کم ہے، جبکہ یہاں سعودیہ میں دعوت کی اساس ہی سلفی منہج وعقیدہ کی تدریس پر رہی ہے لہٰذا ان امور کی معرفت ضروری ہے….!!! جب ہم ان چیزوں کو جان لیں گے اور ان علماء کی کاوشوں سے واقف ہو جائیں اور یہ جان لیں گے کہ کیسے وہ ان عقائد وتعلیمات سے سلفی عقائد کی طرف لوٹے اور ان مراحل سے آگاہ ہو جائیں گے جن وہ گزرے تو ضرور ہم ان کی تعظیم و تکریم کریں گے ان کی کاوشوں کو سراہیں گے اور ان کا عذر قبول کریں گے۔

لہٰذا یہ انتہائی سطحی اور غیر علمی رویہ ہے کہ احوال و ظروف اور تحریک اہل حدیث کے مراحل کی رعایت کئے بغیر آج کوئی فاسد العقل شخص اٹھے اور ان کبار علمائے اہل حدیث کی غلطیوں کا سہارا لے کر تاویلات کو جائز قرار دے یا تاویلات پر رد کرنے والوں کے خلاف ان علماء کے اقوال وکتابات کے ذریعے حجت قائم کرے، نیز یہ بھی ظلم اور جہالت ہے کہ کوئی ان علمی لغزشوں کی وجہ سے ان علمائے اہل حدیث کو سلفیت سے خارج اور بدعتی قرار دے، کیونکہ ان سے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہ لاعلمی اور حسن ظن کی وجہ سے سرزد ہوئی ہیں وہ یہی سب پڑھتے پڑھاتے تھے اور ان عقائد ہی کو سلف صالحین کا عقیدہ سمجھتے تھے ان کا مقصد فقط اتباع سنت تھا اس لیے جب رفتہ رفتہ انہیں یہ معلوم ہو گیا کہ اشعری وماتریدی عقیدہ سلفی عقیدہ نہیں ہے تو وہ اس سے دستبردار ہو گئے اور حق کی طرف لوٹ آئے۔

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی