صیہونیت کا آکسیجن مسلسل جنگ کرنے میں ہے اور یہ کبھی بھی جنگ کو روکنا نہیں چاہتے انکے نزدیک جنگ کا جاری رہنا ہی ہماری بقاء کا پاسباں ہے۔
اسرائیل کے حکمرانوں میں سے جس نے بھی فلسطین کیساتھ امن معاہدات میں پیش رفت کی اسے عوام نے مسترد کیا.نتین یاہو کا سیاسی ایجنڈا بھی اسی پر ہے کہ ہمیشہ جنگ ہو اور اسرائیل اقدامی جنگ کرتا رہے پھر ہی جاکر ہمیں دفاع حاصل ہوگا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ امریکہ یا مغربی پشت پناہی کرنے والے زیادہ دیر تک سپر میسی پر نہیں رہیں گے انکی جگہ اور قوتیں لے رہی ہیں اس لیے وہ اب یتیم بن کر ہمیشہ کیطرح انکے سہارے نہیں رہنا چاہتا.
دوسرا صیہونیت کیونکہ عقلی طور پر کبھی بھی کسی چیز کا جواز نہیں رکھتی اور اسے ہمیشہ ہی علمی میدان میں شکست کھانا پڑی ہے تو یہ بزور دست جنگ کے ذریعے ہی مسلط کی گئی اور اسکی بقاء بھی یہی ہے. تمام صیہونیوں کی یہی سائیکی ہے کہ وہ اس چیز کو کیسے دیکھتے ہیں۔
الجزیرہ نے اپنے آفیشل چینل پر ایک ویڈیو شئیر کی جس میں وہ دکھا رہے تھے کہ اسرائیلی ٹک ٹاکرز کیسے فلسطینی بچوں اور عورتوں کے قتل کی نقلیں اتار رہے تھے اور انکا مذاق بنا رہے تھے۔
ان کے اندر سب سے زیادہ قومی تعصب ہے حتیٰ کہ مذہبی طور پر بھی.آج کے غیر صیہونی یھودی پھر بھی برے نہیں جتنے یہ صیہونی برے ہیں اور انکے عزائم کتنے ہی معصوم لوگوں کی جانیں کا نظرانہ پیش کرنے کا مطالبہ رکھتے ہیں۔
مثلاً اس دفعہ حملہ کرنے کا مقصد انکے ہاں حماس کو ختم کرنا تھا اور سرنگوں کو ختم کرنا تھا لیکن کر کیا رہے ہیں؟ زیرِ زمین سرنگوں پر حملے کا ارادہ کرکے آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ مار دیئے گئے جس میں ساڑھے تین ہزار بچّے ہیں۔
جو انکے نزدیک اصل دشمن ہے،اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے۔اس سے بڑی بیوقوفی کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے یرغمال شہری سب ان ہی سرنگوں میں موجود ہیں مگر پھر بھی ان ہی پر حملہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اب نا اہلی ہے یا کھلم کھلی دہشت گردی ہے کہ اپنے ایک شہری کو ان جنگی مشقوں سے چھڑوا نہ سکے، اتنے دنوں کے باوجود اندر گھس نہیں سکے اور معصوم جن کے پاس بچاؤ کے لیے ہتھیار بھی نہیں ان کو مستقل مارے جارہے ہیں؟
آج ہی اسرائیل نے ویسٹ بینک پر بھی حملہ کردیا ہے چاہے مقصد جتنا بھی قابل فہم ہو! حالانکہ وہاں “الفتح” اور “پی ایل او” کی حکومت ہے جو اس مسئلہ کو ہمیشہ سے مذاکرات کی صورت حل کرنا چاہتے ہیں.لبنان پر بھی حزب اللہ کا بہانہ بنا کر فضائی حملہ کیا اور غزہ پر ایک طرف سے مکمل طور پر کھنڈرات میں تبدیل کر رہے ہیں. انکا مقصد اپنی ٹیریٹری بڑھانا ہے یہ صرف بہانے ہیں جو سیاسی بیانیہ ہی کی صورت میڈیا پر نظر آتے ہیں.ابھی تک جو نقصان ہوا ہے اس جنگ میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی اموات میں 9:1 کا تناسب ہے.جو بہت زیادہ فلسطینیوں کا نقصان ظاہر کرتا ہے.
یہ سارے فساد کی جڑ صیہونیت ہی ہے ہمارے لوگ اسکو یھودیت سے جوڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ بات سچ نہیں ہے لاکھوں کی تعداد میں ایسے یھودی بھی ہیں جو امریکہ وغیرہ میں اسرائیل کیخلاف احتجاج کرتے ہیں. جو اصل جڑ ہے اسے ہی نشانہ بنایا جائے وگرنہ یہودیت کیخلاف پروپیگنڈہ دیکھ کر صیہونی مزید اپنی سوفٹ پاور حاصل کرتے ہیں اور اسکو وکٹمائز کرتے ہیں کہ:
“دیکھو، ہم ہی مسیحا ہیں ورنہ یہ سب تمہارے خون کے پیاسے ہیں تم کو ختم کرچکے ہوتے۔ ”
ان کے باقاعدہ چینل ان موضوعات پر ہیں اور صیہونیت کے جذبات اسی “ڈر” کو پھیلا کر مزید بھڑکائے جاتے ہیں.
مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے زیادہ یہودیوں کو پشت پناہی انہوں نے ہی دی۔یہ صدیوں مسلمانوں کےساتھ رہے۔ایک یہودی مؤرخ پروفیسر ڈیوڈ ویسرٹائن کے مطابق اگر اسلام نہیں ہوتا تو آج یہودیت ختم ہوچکی ہوتی.عثمانی سلطنت میں غیر مسلموں میں سب سے زیادہ عزت یہودیوں کی ہی تھی۔ یہ صلیبیوں کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مل کر بھی لڑے ہیں۔ یہ مسئلہ یہودیوں کی مخالفت کا نہیں ہے، یہ مسئلہ ایک سیکولر نیشنسٹ نظریہ کی مخالفت کا ہے جو صیہونیت ہے…!

عمیر رمضان