سوال (4265)
بندہ اگر کسی کو پیسے دے اور کہے کہ پیسہ میرا ہوگا، کاروبار آپ نے کرنا ہے اور اس کاروبار کے نفعے میں سے 10 پرسنٹ میرا ہوگا تو کیا یہ صحیح ہے۔
جواب
آپ کا سوال سرمایہ کاری اور مضاربہ (شراکت داری) کے ایک مخصوص معاملے سے متعلق ہے، اور اس کی شرعی حیثیت اہم ہے۔ آپ نے کہا:
“پیسہ میرا ہوگا، کاروبار آپ نے کرنا ہے، اور نفع میں سے 10 فیصد میرا ہوگا”
یہ دراصل “مضاربت” کی ایک شکل ہے، جس میں:
ایک فریق (آپ) سرمایہ فراہم کرتا ہے = رب المال
دوسرا فریق (کاروبار کرنے والا) محنت و وقت لگاتا ہے = عامل / مضارب
شرعی اصول برائے مضاربت:
نفع کی تقسیم: نفع کی تقسیم ہمیشہ فی صد (percentage) کے اعتبار سے ہونا چاہیے، رقمِ طے شدہ (fixed amount) کی بنیاد پر نہیں۔ مثلاً: نفع کا 10% آپ کو، 90% کاروباری کو – یہ جائز ہے۔ نفع کی یہ شرح نفع سے ہو، نہ کہ اصل مال سے یعنی: آپ یہ کہیں کہ “نفع جو بھی ہوگا، اس میں سے 10% میرا ہوگا” → یہ جائز ہے
لیکن یہ کہیں کہ “میری 10,000 کی سرمایہ کاری ہے، مجھے ہر مہینے 1000 ملے گا” یہ جائز نہیں، کیونکہ یہ ربا (سود) میں داخل ہو سکتا ہے۔
آپ کے سوال کے مطابق نفع کا 10% واقعی نفع میں سے ہو، نہ کہ مال یا مہینہ مقرر ہواگر نقصان ہو تو رب المال (سرمایہ دار) ہی نقصان برداشت کرے گا، اور عامل صرف اپنی محنت ضائع کرے گا (یہ مضاربت کا اصول ہے) یہ تمام چیزیں معاہدے میں پہلے سے طے ہوں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سائد بن ساہل اور دیگر صحابہ کو مضاربہ پر مقرر فرمایا اور نفع میں سے مخصوص حصے کی شرط لگائی۔ قال ابن المنذر: “وأجمعوا على أن القراض (المضاربة) جائز”
(الإجماع، ص: 121)
“اور اس بات پر اجماع (امت کا اتفاق) ہے کہ قراض (یعنی مضاربت) جائز ہے۔”
(کتاب: الإجماع، صفحہ: 121)
میں اس پر ایک کتاب ترتیب دے رہا ہوں جس میں کرنسی کے مکمل معاملات ہوں گے اس میں مختلف علماء کے فتاوی بھی ہیں۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ