ساس اور بہو سے متعلق پوسٹ پر بہنوں نے بہت اچھی آراء سے نوازا جس کیلئے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ ایک بہن نے اس تعلق کے ارتقاء پر بہت اچھوتا نکتہ پیش کیا۔ وہ کمنٹ اور اس پر ہمارا تبصرہ پیش خدمت ہے:
بہن کا تجزیہ:
دیکھئے جناب۔۔۔ میرے خیال میں عورت بحیثیت عورت بری نہیں ہوتی ہو گی۔۔ یہ جو ساس بہو کے رشتے میں مرد کو شئیر کرنے کا تنازعہ ہے نا یہ اس کی شخصیت کی اچھائیاں بھی کھا جاتا ہے اگر خوف خدا اور تقوی کی کمی ہو تو۔۔۔۔۔
باقی اچھی بری ساس بہو کا تناسب بھی زمانے اور علاقے کے رسوم و رواج سے بری یا اچھی طرح متاثر ہو کر بدلتا رہتا ہے۔۔ شہری علاقوں کا تناسب اور ہو گا دیہی علاقوں خصوصا برادری کے رسوم و رواج میں جکڑے ہوئے خاندانوں کا بالکل ہی مختلف ہو گا۔۔
میری رائے میں ہم سے پچھلی نسل کا دور ساسوں کا دور تھا۔ ساس کی حکمرانی، اس کی مرضی ہی گھر میں بہو کی حیثیت کا تعین کرتی تھی ۔۔۔ وجوہات کچھ بھی ہوں جیسے لڑکیوں کی تربیت، تعلیم کی کمی، جوائنٹ فیملی کی مضبوط قلعہ بندی، مرد کی فرمانبرداری وغیرہ وغیرہ۔۔ ہماری نسل جو عمر کی نصف صدی کے قریب قریب ہیں ان میں میں نے تو ساس بہو کے درمیان پنڈولم جھولتا ہی دیکھا یعنی ساس کے آہستہ آہستہ اختیارات کھونے کا دور اور بہو کا اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا دور۔۔ لیکن اب جو دور آیا ہے وہ بلا شرکت ایرے غیرے بلاشبہ بہوؤں کا دور ہے۔۔ وجوہات بھلے کچھ بھی ہوں جیسے مرد کی معاشی انحصاری، عورت کی معاشی مضبوطی، اپنے فرائض سے زیادہ حقوق کی آگاہی، تربیت کے پیمانے مختلف ہونا، جوائنٹ فیملی کا کمزور ہونا۔۔وغیرہ وغیرہ
رہ گئی ایک برائی تو میں نے شروع میں لکھ دی کہ تقوی کی کمی خوف خدا کی کمی۔۔ کیوں کہ گھرکی چاردیواری میں آپ ایک بندے کو کس طرح ذہنی و روحانی اذیت دیتے ہیں اس پر کوئی پولیس کا ضابطہ لاگو نہیں ہو سکتا ہاں صرف اللہ کا خوف ہے جو فریقین کو منفی حرکات سے باز رکھ سکتا ہے
ہمارا تبصرہ:
یہ ارتقائی مراحل بالکل درست لگتے ہیں اور اس معاملے میں افراط و تفریط کا مظہر ہیں۔ پہلے بری روایات کو مذہب کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اب فیمن ازم کا ردعمل آیا تو مذہب کو بھی بری روایت سمجھا جانے لگا ہے۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور بہن نے توجہ دلائی کہ اس میں مرد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ قوام ہے تو بطور قوام اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی والدہ اور بیوی میں توازن قائم رکھے اور اپنی گھریلو سلطنت کے حالات کو بگڑنے نہ دے
ہمارا تبصرہ:
جی ہم اس سے سو فیصد متفق ہیں اور یہی ہمیشہ سے ہماری رائے رہی ہے۔ لیکن برا ہو فیمن ازم کا کہ پہلے وہ مرد کی قوامیت سے انکار کر کے، اسکی اتھارٹی کو چیلنج کر کے اسے اختیارات سے محروم کر کے (یعنی بیوی پر شوہر کے اختیارات) گھر میں عدم توازن کی فضاء قائم کرتا ہے۔ یعنی بیوی کے اختیارات کو شوہر کے برابر کر کے عملی طور پر ساس کو بہو کے ماتحت کر دیتا ہے۔ اور جب ساس کی طرف سے ردعمل آتا ہے تو پھر ساس کو ظالم قرار دے کر شور مچایا جاتا ہے۔۔۔
خلاصہ کلام یہ کہ پہلے ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے گلی سڑی روایات کے زیر اثر بہو کو دبا کر رکھنے کا کلچر پروان چڑھا۔ اور اب پچھلی دو دہائیوں سے میڈیا کے زیر اثر اور فیمن ازم سے دانستہ یا نادانستہ طور پر متاثر ہو کر جب بہوؤں نے ردعمل دیا تو فساد کی نوعیت تو تبدیل ہو گئی لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ اور اب اس ردعمل کا ردعمل ساسوں کی طرف سے آ رہا ہے۔ یعنی ردعمل کی نفسیات کا ایک منحوس چکر ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اس ارتقائی سلسلے کا اگلا مرحلہ دلچسپ ہو گا، جب پندرہ بیس سال بعد ساسیں بھی فیمنسٹ ہوں گی اور بہویں بھی۔۔۔۔
خیر حل صرف ایک ہی ہے کہ زندگی کے ہر معاملے کی طرح اس اہم خانگی مسئلے کو بھی، جاہلانہ روایات اور جدید فیمنسٹ فلسفے، ہر دو کے شر سے بچا کر، شریعت کی رہنمائی میں حل کیا جائے۔ اور لامحالہ اس میں مرکزی کردار مرد کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ یعنی مرد کو واقعتاً مرد بننا ہو گا اور مردانگی کے تصور پر ازسر نو غور کرنا ہو گا۔

رضوان اسد خان