کل رات کو ایک بڑے لیکن متنازعہ ندوی صاحب کی Reel دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ ندوی صاحب فلسطینی مظلومین کے لئے ائمہ حرمین اور ان کی دعاؤں کا بڑے بھونڈے انداز میں مذاق اڑا رہے تھے کہ امام دعا کرتا ہے کہ اے اللہ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کر تو اللہ کا جواب آتا ہے کہ میں تمہاری دعا نہیں قبول کروں گا تم پہلے اپنے حکمرانوں سے کہو کہ دشمن کے خلاف اپنی توپیں کھول دیں ۔۔۔۔۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ یہ ائمہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو ان کا ٹھکانہ جیل خانہ ہوگا وغیرہ۔
ندوی صاحب اور ان کے اخوانی اور خارجی منھج کو دنیا خوب جانتی ہے۔ اس لئے اس پر کچھ لکھنا تضییع اوقات ہے لیکن موجودہ جذباتی ماحول میں عوام وخواص کے لئے ایک وضاحت نہایت ضروری ہے۔ اور اس دھوکہ اور فریب کو واضح کرنا بہت ضروری ہے۔
ستاون اسلامی ملکوں میں اکثر ملکوں میں ائمہ کرام غزہ کے مسلمانوں کے لئے دعائیں کر رہے ہیں لیکن ندوی صاحب کو صرف سعودی عرب، ان کے أئمہ اور علماء ہی نظر آتے ہیں۔ کیا قرآن وحدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ دعا صرف حرمین شریفین میں قبول ہوتی ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تو پھر صرف سعودیہ پر یہ اعتراض کیوں ہے؟ سعودیہ کا مذاق کیوں اڑایا جاتا ہے؟ اس کو کوسا کیوں جاتا ہے؟ اس پر لعنت وملامت کیوں کی جاتی ہے؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے اس کو سمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک لمحہ کے لئے ندوی صاحب کی بات مان لیتے ہیں کہ ان کے بقول سعودی عرب فزیکلی میدان جنگ میں اتر کر فلسطینوں کے لئے کچھ نہیں کر رہا ہے تو ہمارا ان سے سوال ہے کہ آپ کے چہیتے ممالک مثلا ایران، ترکی وغیرہ پر آپ کا یہی سوال کیوں نہیں ہے؟ میں آپ کو بتاؤں عالمی تحقیق اور تجزیہ کے مطابق جو پانچ فوجی ہائی رینکنگ رکھنے والے اسلامی ممالک ہیں ان میں سعودیہ کا نمبر نہیں ہے۔ اور ظاہر بات ہے ان پانچ ہائی رینکنگ فوج رکھنے والے اسلامی ممالک کو عالمی فوج رینکنگ میں بھی سعودی عرب سے برتری حاصل ہے۔
عالمی فوجی طاقت کی رینکنگ میں اسلامی ممالک میں پہلا نمبر پاکستان کا بتایا گیا ہے جسکی عالمی فوجی رینکنگ 7 ہے۔ دوسرے نمبر پر ترکیہ ہے جس کی عالمی رینکنگ 11 ہے۔ تیسرے نمبر پر انڈونیشیا ہے جس کی عالمی رینکنگ 13 ہے۔ چوتھے نمبر پر مصر ہے جس کی عالمی رینکنگ 14 ہے۔ پانچویں نمبر پر ایران ہے جس کی عالمی رینکنگ 17 ہے۔
جبکہ سعودیہ کا اسلامی ممالک میں چھٹا نمبر ہے اور عالمی رینکنگ 22 ہے۔ ندوی صاحب کا پہلے پانچ طاقتور اسلامی ممالک کو چھوڑ کر چھٹے نمبر والے اسلامی ملک سعودی عرب کو بار بار لتھاڑنا، طعنہ دینا، کوسنا دراصل اس کی وجہ وہ نہیں ہے جس کو وہ بتلا رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ اس کا قرآن وحدیث سے سب سے زیادہ قریب ہونا ہے۔ اگرچہ  حالیہ سالوں میں وہاں کچھ نئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کی ہم کھلے الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ان کی اصلاح کے لئے دعا کرتے ہیں۔ حالیہ تبدیلیوں کے باوجود دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں سعودی عرب اب بھی قرآن وحدیث اور منھج صحابہ کی پیروی میں سب سے زیادہ آگے ہے۔ سعودی عرب کی حکومت، اس کے ائمہ اور علماء قرآن وحدیث کی تعلیمات ہی کو مقدم رکھ کر فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلسطین کے مسئلہ کو حل کرنے میں سعودی عرب نے جتنی محنت اور کوششیں کی ہے اس کی مثال نہیں ہے۔ پچھلے مہینوں میں بھی سعودی ولیعہد پرنس محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں دنیا کو خوشخبری سنائی تھی کہ عنقریب فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ مل جائے گا اور 1964 کی اس کی سرحدوں کے مطابق اسرائیل کو واپس جانا ہوگا اور وہ ساری زمینات فلسطینیوں کو واپس کرنی ہوں گی۔ اسی شرط پر ہم اسرائیل کو قبول کریں گے۔ ولی عہد نے بعد میں اپنے بیان میں اس کی تفصیلات بتائیں جو آن دی ریکارڈ ہے۔ موجودہ سیناریو میں دو ریاستی فارمولہ ہی اس مسئلہ کا حل ہے۔ حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر غیر متوقع حملہ کرکے فلسطینی مسئلہ کے حل اور سعودیہ کے امن منصوبہ پر پانی پھیر دیا ہے۔ (اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد تھے وہ عنداللہ جوابدہ ہیں۔) اس کے علاوہ دنیا شاہد ہے کہ اس حملہ کا نقصان کس قدر بھاری ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ اس سے قبل 2014 میں بھی حماس نے شاہ عبداللہ مرحوم کی ثالثی میں حرم کعبہ میں معاہدہ کرنے کے بعد بد عہدی کی تھی۔ یہ بات آن دی ریکارڈ موجود ہے۔ اگر اس کی تفصیلات جاننا چاہتے ہوں تو یوٹیوب پر امیر بندر بن سلطان کا تفصیلی انٹرویو سن لیجئے۔
تو معلوم یہ ہوا کہ ندوی صاحب اور ان کے حواریوں کا سعودیہ سے اختلاف اسرائیل کے خلاف توپیں چلانے اور نہ چلانے کے مسئلہ میں نہیں ہے بلکہ ان کا اصل اختلاف سعودیہ کے عقیدہ سے ہے، ان کی توحید اور ان کے کتاب وسنت پر عمل کرنے سے ہے۔ ندوی صاحب اور ان کے حواریوں کو صحابہ کرام کو گالی دینے والوں سے محبت ہے جس کی وجہ سے وہ نہ ایران کو توپیں چلانے کا مشورہ دیتے ہیں اور نہ ترکیہ اور پاکستان کو ۔
ہم سارے اسلامی ممالک کی خیر خواہی چاہتے ہیں بلکہ ہم تو دنیا کے سارے ممالک کی خیرخواہی چاہتے ہیں۔ سب پر امن رہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ خوش رہیں۔ لیکن دین کی بنیاد پر سعودی عرب سے ہمیں زیادہ محبت ہے کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ ہم سعودیہ اور ان کے معاون ملکوں کے لئے دعا کرتے ہیں اللہ تعالی لاکھ رکاوٹوں کے باوجود انہیں فلسطین کے مسئلہ کو حل کرنے میں کامیاب بنادے اور ہمارے فلسطینی بھائیوں کی مشکلات کو ختم فرمادے آمین۔

شیرخان جمیل احمد عمری