سوال پوچھنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو سیکھنے کے لئے پوچھتے ہیں، کچھ اس لئے پوچھتے ہیں تاکہ اگلے کے علم کا جائزہ لیا جاسکے۔ بعض اپنا علم بتانے لئے پوچھتے ہیں، بعض علماء سوال کر کے اگلے کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
تو یہ جتنی قسموں کے لوگ ہیں، سب قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ سیکھنے والا یا سکھانے والا تو محبوب ہے شوخی مارنے والے کو بھی برداشت کیا جاسکتا ہے ولا حرج !
لیکن ہمارے سوشل میڈیا پر ایک قسم ایسی بھی پائی گئی ہے جس کو ملحدین یا سیکولر طبقہ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ سوال گھڑتے ہیں، مقصود ان سے صرف یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا چہرہ بگاڑ دیا جائے۔ مثلا : وہ سوال کریں گے کہ جہاد فرض کیوں کیا گیا؟ اب انہیں سمجھا دیں کہ جہاد مظلوم کی حمایت کا دوسرا نام ہے۔ اگلے دن پھر وہی سوال کسی دوسری جگہ پر دہرا رہے ہوں گے۔ اگر سامنے کوئی سادہ دل انسان ہوا تو اپنے چار پانچ مزید ساتھیوں کو بلوا کر مذاق اڑانے لگ جائیں گے۔
یہ پوچھیں گے جنت کا وجود تو ہے ہی نہیں، ہمیں کون سا نظر آتی ہے۔ تو اگر انہیں کوئی یوں سمجھائے کہ دیکھو ہر چیز کا نظر آنا ضروری نہیں ہوتا، ٹھٹھہ اڑائیں گے۔ اخے تم اندھے مقلد ہو، اب کوئی بھلا مانس پوچھ لے کہ نظر تو تمہارا کیڑا بھی نہیں آتا، تو گالم گلوچ کا طعنہ دینے لگیں گے۔

کہیں گے ہم جنت کو نہیں مانتے، کیوں کہ جنت میں حور کا تصور ہے۔ اب اگر بندہ الٹا ان سے پوچھ لے کہ آپ کو اس سے کیا لینا دینا، آپ نے کون سا جانا ہے۔ رونے بیٹھ جائیں گے۔ کہ تم تکفیری ہو یہ ہو وہ ہو

علمی جواب دیں اور کہیں کہ جنت کی چیزوں کے نام موجودہ چیزوں جیسے ضرور ہیں، مگر ہیں وہ ایسی کہ نہ کسی نے دیکھیں نہ کسی کے وہم و گمان میں گئیں، تو پھر پینترا بدل لیں گے۔ بندہ شریف ہوا تو چپ کر جائے گا یہ ہنسیں گے مولوی کو بھگا دیا، بندہ ذرا ان جیسا تیز ہوا تو اتنا کہہ کر نکل لے گا کہ بھائی وہ جنت ہے اس میں حور نہیں ہوگی تو کیا تیرے جیسا لنگور ہوگا۔ خیر یہ تفصیل طلب باتیں ہیں۔ ایسی مخلوق کا ایک ہی علاج ہے۔ ان کو جوارش پاپوش(لتروں کی بارش) کھلائی جائے۔ اور اپنے کام سے کام رکھا جائے۔ یہ ڈارون زادوں کی وہ قسم ہے جس سے بندر بھی پناہ مانگتے ہیں۔
البتہ ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات پر حتی المقدور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے علماء کو ایک سوشل میڈیا پینل ترتیب دینا چاہئے جو ہر وقت ایسے سوالوں کا تدارک کرنے لئے موجود ہوں۔

ابو الوفا محمد حماد اثری