سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل (قسط: 1)

اسلام کے دوسرے خلیفہ،مرادِ رسول، امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ⁦
نام:-عمر بن خطاب
لقب:- فاروق
کنیت:- ابو حفص
آپ کا لقب و کنیت دونوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔
شجرۂ نسب:- سیدنا عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہربن مالک۔
🔘 جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔
* آپ کا نسب نویں پشت میں کعب پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔۔
۔۔ [الفاروق علامہ شبلی نعمانی]
حضرت عمر کاخاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا، آپ کے جد اعلیٰ عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہواکرتے تھے اورقریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسل درنسل چلے آ رہے تھے،
ددھیال کی طرح عمرننھیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی والدہ ختمہ، ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کے لیے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔
[عقدالفرید باب فضائل العرب]
عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ اور ان کے دادا تینوں انساب کے بہت بڑے ماہر تھے۔۔
[کتاب البیان والتبین صفحہ 117] “
حضرت عمر بہادر،قوی، اور مضبوط پہلوانی جسم کے حامل تھے۔
“آپ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔
[علامہ بلاذری کی کتاب الاشراف]
💠قبول اسلام:- حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ قریش کے سربرآوردہ سرداروں میں شامل اور رعب و دبدبہ والی شخصیت تھے اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ عمر اسلام قبول کرلیں اس سے مسلمانوں کو ایک مضبوط حمایت حاصل ہوگی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔

“اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليك بابي جهل او بعمر بن الخطاب.”

اے اللہ ان دونوں یعنی ابو جہل اور عمر بن خطاب (رضی اللہ تعالی عنہ) میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو قوت دے. (سنن الترمذی٣٦٨١)
مسند احمد کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں
“فکان احبهما الى الله عمر بن الخطاب”
(مسند احمد٩٥/٢)
سنن کبرٰی للبیہقی کی اور مستدرک حاکم کی روایت کے الفاظ “اللهم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب خاصة”
اے اللہ خاص عمر بن خطاب کے ذریعے سے اسلام کو عزت و قوت عطا فرما۔۔۔۔(سیرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ از حافظ سیف اللہ خالد)

گزشتہ سے پیوستہ (قسط: 2)

مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہو گئے اورنماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ الحاقہ تلاوت فرمائی، میں کھڑا سنتارہا اورقرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا، دل میں کہا: جیسا قریش کہا کرتے ہیں، خدا کی قسم یہ شاعر ہے.
ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:

“اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo وَّمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍoقَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ‎ “

“یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت کم ایمان رکھتے ہو۔”
میں نے کہا یہ تو کاہن ہے، میرے دل کی بات جان گیا ہے، اس کے بعد ہی یہ آیت پڑھی:

“وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍoقَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَoتَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ‎ “

“یہ کاہن کا کلام بھی نہیں تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو، یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے”۔
آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا۔
[مسند ابن حنبل ج1 : 17]
اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود عمرکی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندرسے آواز آئی، اے جلیج ایک فصیح البیان کہتا ہے: لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ، اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ؛لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی، اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں۔۔ (باب بنیان الکعبہ باب اسلام عمر ؓ)
* اپنی فطرت سلیمہ کی بنا پر عمر ؓ کو اسلام سے ہمدردی پیدا ہوئی؛چنانچہ ان کی ہمشیرہ اور بہنوئی سعید بن زید نے اسلام قبول کیا تو اگرچہ وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تاہم لوگوں کو اسلام پر قائم رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے؛چنانچہ سعید بن زید نے اس واقعہ کو ایک موقع پر بیان کیا ہے۔” کان عمر بن الخطاب ؓ یقیم علی الاسلام اناواختہ ومااسلم “یعنی عمرمجھ کو اوراپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ وہ خود نہیں اسلام لاتے تھے”۔ [ سیرالصحابہ 326]
* نوٹ:- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے ارادے سے نکلنا،بہن اور بہنوئی پر تشدد کرنا وغیرہ۔۔۔ سنداً ثابت نہیں۔ (بحوالہ مشہور واقعات کی حقیقت از ابو عبدالرحمان الفوزی ص28_33)

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 3)

ان دنوں مسلمان ان کفار کے خوف سے سے دار ارقم میں چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔کفار کی ایذارسانی کی وجہ سے کھلے عام بیت اللہ میں نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے دارِ ارقم میں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی:

اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔

’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم)
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم :

لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘

یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘
(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔
مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:

’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘
(طبقات ابن سعد)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔

’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم،سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل)
اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے۔

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 4)

💠 ازواج و اولاد
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کیے، ان کے ازواج کی تفصیل یہ ہیں:
1:-زینب بنت مظعون۔ (ہمشیرہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ)
یہ مکہ میں مسلمان ہوکر فوت ہوئیں۔ان کے بطن سے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ ١:- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
٢:- سیدنا عبدالرحمن بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ
٣:- ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا(سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں حضرت حفصہ ؓ اس لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات میں داخل تھیں، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی کنیت بھی ان ہی کے نام پر رکھی تھی).
2:- جمیلہ بنت ثابت: اس کے بطن سے ایک بیٹا عاصم بن عمر پیدا ہوا۔
3:-ام کلثوم ملکیہ بنت جرول۔
ان کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔١:- زید بن عمر الاصغر
٢:- عبید اللہ بن عمر
اسلام قبول کرتے وقت ان کو طلاق دیدی #
4:- عاتکہ بنت زید، ان کا نکاح پہلے عبد اللہ بن ابی بکر ؓ سے ہوا تھا، پھر حضرت عمرؓ کے نکاح میں آئیں.
اس سے ایک بیٹا عیاض بن عمر پیدا ہوا.
(الطبقات٢٠١/٣)
5:-ام حکیم بنت حارث: ان سے ایک بیٹی فاطمہ پیدا ہوئی۔(الطبقات٢٠١/٣)
6:-ام کلثوم بنت علی رضی اللّٰہ عنہ۔
یہ حضرت فاطمہ ؓ کی بیٹی ہیں۔ امام ابن سعد لکھتے ہیں کہ ان سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا زید بن عمر اور ایک بیٹی رقیہ بنت عمر پیدا ہوئیں۔
(الطبقات لابن سعد٢٠١/٣ بحوالہ سیرت عمر فاروق از سیف اللہ خالد)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس نکاح پر اہل سنت اور رواف ض کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے
*دراصل صحابہ کرام کے مابین اختلافات کی مصنوعی کہانیوں کا دفاع کرتے ہوئے اس نکاح کا انکار کیا جاتا ہے جس پر مختلف مضحکہ خیز مؤقف سامنے آتے ہیں۔
1:-حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فاطمی اولاد میں ام کلثوم نام کی کوئی لڑکی نہیں تھی.
♦️⁩جیسا کہ صالحى شامى نےسبل الهدى و الرشاد میں لکھا ہے :

الثاني: في ولده – رضي الله تعالى عنهم – له من الولد الحسن والحسين ومحسن وزينب الكبرى من فاطمة – رضي الله تعالى عنهم – وله أولاد من غيرها كثيرون.

اولاد علي رضى الله عنه ،فاطمه زهرا سے ؛ حسن، حسين، محسن و زينب كبرى تھیں اور انکی مزید اولاد دوسری ازواج سے تھیں،
الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفي942هـ)، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 11، ص 288، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى، 1414هـ
2:- حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک لڑکی زینب نامی تھی جو عبداللہ بن جعفر کے نکاح میں تھیں اسی کو ام کلثوم کہا یا سمجھا جاتا ہے.
♦️⁩جیسا کہ رضى الدين حلى 8 صدی کے ش ی ع ہ عالم ہیں وہ سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کی اولاد کے بارے میں کہتے ہیں: “کان له ( عليه السلام ) سبعة وعشرون ذكرا وأنثى: الحسن، والحسين، وزينب الكبرى المكناة بأم كلثوم ۔۔۔۔”
حضرت علی رض کی 17 اولاد تھیں حسن حسین زینب کبری کہ انکی کنیت ام کلثوم ہے ۔۔۔۔۔
الحلي، رضى الدين على بن يوسف المطهر، (متوفاي705هـ)، العدد القوية لدفع المخاوف اليومية، ص242، تحقيق: السيد مهدى الرجائى، ناشر: مكتبة آية الله المرعشى ـ قم، الطبعة الأولى، 1408 ه
3:- حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بیت سے یہ رشتہ جبراً حاصل کیا تھا. جیساکہ شیخ کلینی نے لکھا:
♦️⁩ عن زرارة، عن أبي عبد الله (عليه السلام) في تزويج أم كلثوم فقال: إن ذلك فرج غصبناه.
“امام جعفر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے ام کلثوم (رضی اللہ تعالی عنھما) کے نکاح کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ شرمگاہ ہم سے زبردستی چھین لی گئ۔”
(کتاب فروع الكافي – الشيخ الكليني ج ٥ – الصفحة ٢٠٨)
💠جبکہ جانبین کے معتبر دلائل کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خاندان سے رشتۂ قرابت کو قائم رکھنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اس رشتہ کے لیے درخواست کی جسے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بخوشی قبول کر لیا اور 17ہجری میں چالیس ہزار درہم مہر کی رقم کے ساتھ یہ نکاح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دیا ان سے ایک بیٹا زید بن عمر اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
“صحیح بخاری میں ہے کہ سیدہ ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں” بخاري كتاب الجهاد والسير باب حمل النساء القرب…..٤٠٧١..٢٨٨١بحوالہ سیرت عمر فاروق از سیف اللہ خالد”
💠سیر اعلام النبلاء امام ذہبی رح ٤٣/٢ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ازواج کے تذکرہ میں لکھا:
وتزوّج أم كلثوم بنت فاطمة الزهراء وأصدقها أربعين ألفًا، فولدت له زيدًا ورقية.
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے ام کلثوم بنت فاطمة الزهراء سے نکاح کیا اور چالیس ہزار درہم مہر رکھا اس سے (ان کی اولاد) زید اور رقیہ پیدا ہوئے۔
یہی بات رحماء بینھم (مولانا محمد نافع) حصہ دوم میں بھی لکھی ہے۔
💠طوالت سے بچتے ہوئے ایک جامع حوالہ فریق مخالف کے گھر سے ملاحظہ فرمائیں۔
“کتاب تهذيب الأحكام الشيخ الطوسي ج ٩ الصفحة ٣٠٨ میں لکھا ہے۔
ترجمہ:امام جعفر (رضی اللہ تعالی عنہ) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا حضرت ام کلثوم بنت علی (رضی اللہ تعالی عنھما) اور ان کے بیٹے زید بن عمر بن خطاب ایک ہی لمحہ میں فوت ہوے۔ اور یہ پتہ نہ چل سکا کہ ان دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا تو اس صورت میں ایک دوسرے کا وارث نہ بنایا جا سکا اور ان دونوں پر اکٹھی نماز پڑھی گی۔

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 5)

* ہجرت:حضرت سیِّدُنا علی رضی اللّٰہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے سوا کسی نے اعلانیہ ہجرت نہیں کی۔
جب آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو تلوار لی، کمان کاندھے پر لٹکائی اور تیروں کا تَرکَش ہاتھ میں لےکر حَرَم روانہ ہوئے۔ خانہ کعبہ کے صحن میں قریش کا ایک گروہ موجود تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پورے اِطمینان سے طواف مکمل کیا اور سُکون سے نَماز ادا کی، پھر کفار کے ایک ایک حلقے کے پاس جاکر کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: تمہارے چہرے ذلیل ہوگئے ہیں، جس نے اپنی ماں کو نوحہ کرنے والی، بیوی کو بیوہ اور بچّوں کو یتیم کرنا ہو وہ حَرَم سے باہَر آکر مجھ سے دو دو ہاتھ کرسکتا ہے۔
(اسد الغابہ،ج 4،ص163،تاریخ الخلفاء: 79)
* ہجرت کے بیان میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب یہ قول معروف ہے مگر “سیرت سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل” اور
“سیرت عمر فاروق اعظم از سیف اللہ خالد” میں
مسند بزار، سیرت ابن ہشام، مستدرک حاکم وغیرہ کے حوالہ سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اپنا ایک قول منقول ہے جو اس سے مختلف ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کمال منصوبہ بندی اور اپنے مسلمان ساتھی کے لیے جذبۂ ایثار کی گواہی دیتا ہے اور زیادہ قوی ہے۔

“لما اجتمعنا للهجره اتعدت انا وعياش بن ابي ربیعة وهشام بن العاص الميضاة ميضاةبنی غفار فوق سرف وقلنا ايكم لم يصبح عندها فقد احتبس فحبس عنا هشام بن العاص۔۔۔ الخ”

جب ہم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو میں،عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن العاص نے وادی سرف (مکہ کی وادیوں میں سے ایک وادی) کی اونچائی پر میضاۃ بنی غفار (مکہ سے دس میل دوری پر واقع ہے) کے باغ میں آپس میں ملنے کا وعدہ کیا. ہم نے آپس میں طے کیا کہ جو صبح وہاں نہ پہنچے گویا وہ گرفتار ہو گیا ہے اس لیے دوسرے دونوں ساتھیوں کو چاہیے کہ (وہ اس کا انتظار نہ کریں) بلکہ آگے بڑھ جائیں تو ھشام بن عاص کو روک لیا گیا۔
(سیرت عمر فاروق رض از سیف اللہ خالد ص49 تا 55)۔

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 6)

موافقاتِ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
موافقات عمر رضی اللہ عنہ سے مراد وہ قرآنی آیات یا احکامات ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی دلی تمنا،مشورہ یا دعا کے نتیجے میں عمل میں آئے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ کسی معاملے میں آپ جو مشورہ دیتے یا رائے پیش کرتے ، قرآن کریم آپ کی رائے کے موافق نازل ہوتا ۔
حضرت عبداللہ بنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اگر (بعض امور میں) لوگوں کے رائے کچھ اور ہوتی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کچھ اور ، تو قرآن مجید حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوتا تھا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٧)
علماء نے ان مواقع کی تعداد 20 تک بیان کی ہے۔
خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّيْ فِيْ ثَلاَثٍ : فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ، وَ فِي الْحِجَابِ، وَ فِي أَسَارٰی بَدْرٍ.

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی، مقام ابراہیم میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں۔”
(تین کا ذکر شہرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ان آیات کی تعداد زیادہ ہے) ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ (أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الحديث رقم : 2399)(الطبرانی فی المعجم الاوسط، 6 / 92،93، الحديث رقم : 5896، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 586، الحديث رقم : 1276)
💠1:- یہودیوں کے حضرت جبریل علیہ السلام کو دشمن قرار دینے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت جبریل و میکائیل علیھما السلام کو پسندیدہ قرار دینا۔
ایک دفعہ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا، جبرائیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا،

مَنْ کَانَ عَدُوَّ لِلّٰہِ وَمَلاَ ئِکَتِہٖ وَرُسُلِہ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوُّ لِلْکٰفِرِیْن۔

ترجمہ: جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ (البقرۃ:٩٨)
بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیر ابن کثیر البقرۃ تفسیرآیت نمبر 98)
💠2:- مقام ابراہیم پر نفل ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کرنا۔
ایک بار آپ رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی،

وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی۔

لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالیں۔ (البقرۃ:١٢٥)۔ بخاری شریف کتاب التفسیر :4243)

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 7)

موافقاتِ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
💠3:- شراب کی حرمت کے متعلق خواہش کا اظہار اور دعا کرنا
حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق احکامات دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی،

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم کَبِیْر۔ (البقرۃ:٢١٩)۔

اس کے نازل ہونے کے بعد سیدنا عمر پھر وہی دعا کرتے رہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔

یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ۔(النساء:٤٣)

اسی سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ نے بار بار دعا کی، اے اللہ ! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ حتی کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔

اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس” مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ ۔ ۔ (المائدۃ:٩٠)

تو حضرت عمر نے کہا کہ ہم باز آگئے ہم باز آگئے۔ (ترمذی: 3039۔ نسائی شریف: 5049)
💠4:- ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کی راتوں میں بیوی سے قربت منع تھی۔ تمام صحابہ کرام اس پابندی سے رخصت کے طلب گار تھے مگر اس کا اظہار سب سے پہلے عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے کیا اور جس پر تمام صحابہ کرام کا مسئلہ بھی حل ہوا اور امت کو ایک رخصت مل گئی اور پھر شب ‏میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیا اور آیت نازل ہوئی۔

اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ۔البقرۃ 187)

تفسیر ابن کثیر تفسیر سورت البقرۃ آیت 187)
💠5:-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو دل وجان سے تسلیم کرنا۔
دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ ‏چلو سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کروائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ ‏ سے کہا، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں ‏آتا ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کردیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ‏اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمررضی اللہ تعالیٰ سے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ‏ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ اس منافق کے خون سے بری رہے۔ آیت یہ ہے۔

فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔ ( النساء 65)

یہ واقعہ یا شان نزول ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں علامہ زیلعی نے تخریج الکشاف، علامہ سیوطی نے لباب النقول اور علامہ شوکانی نے فتح القدیر میں نقل کیا ہے مگر اس کی صحت پر مفسرین کا اختلاف ہے۔

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 8)

موافقاتِ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
💠6:- بدری قیدیوں کے بارے میں موافقت:
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے جب غزوہ بدر ہوا اور اللہ نے مشرکوں کو شکست دے دی ان کے 70 آدمی قتل کر دیے گئے اور 70 قیدی بنا لیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنھم سے مشورہ طلب کیا۔
آپ نے مجھ سے کہا اے ابن خطاب: تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے کہا میری رائے ہے کہ فلاں آدمی (جو آپ کا قریبی تھا) کو میرے حوالے کر دیجیے میں اس کی گردن مار دوں۔ اور عقیل کو علی کے حوالے کر دیجئے وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو حمزہ کے حوالے کر دیجیے وہ اس کی گردن ماریں تاکہ اللہ تعالی جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے لیے کوئی محبت اور رواداری نہیں ہے یہ لوگ تو کافروں کے لیڈر اور سردار ہیں لیکن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے میری رائے کو پسند نہیں کیا اور ان سے فدیہ لے لیا۔ دوسرے دن میں علی الصبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ابو بکر دونوں بیٹھے رو رہے تھے میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ اور آپ کے دوست کیوں رو رہے ہیں اگر میں بجان سکوں تو میں بھی روؤں اگر رو نہ سکا تو آپ دونوں کو روتے دیکھ کر رونے کی کوشش کروں؟ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: والذي عرض علي اصحابك من الفداء ولقد عرض علي عذابکم ادنٰی من هذه الشجرة.
یعنی اس وجہ سے کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ لینے کا مشورہ دیا تمہارا عذاب میرے سامنے (قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس درخت سے بھی قریب کر کے دکھایا گیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔

مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(سورۃ الانفال٦٧)

“یہ بات کسی نبی کے شایانِ شان نہیں ہے کہ اُس کے پاس قیدی رہیں ، جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا) خون اچھی طرح نہ بہا چکا ہو (جس سے ان کا رُعب پوری طرح ٹوٹ جائے) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو، اور اﷲ (تمہارے لئے) آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے، اور اﷲ صاحبِ اقتدار بھی ہے، صاحبِ حکمت بھی”.

“لَوْلاَ کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم”

”‏(الانفال:٦٨‏)۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی”۔ صحیح مسلم 2399)
پھر آئندہ سال احد میں مسلمانوں میں سے 70 شہید ہوئے۔مسند احمد حدیث نمبر٢٢١، صحیح مسلم حدیث نمبر١٦٣ ماخوذ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ص٧٧)۔

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 9)

موافقاتِ سیدنا عمر ؓ
💠7:- رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا روکنا۔
جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو ان کے بیٹے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی۔ اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے عرض ‏کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا، آپ اُس کا جنازہ پڑھائیں گے مگر پھر بھی رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ ‏پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی،

وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ ( التوبہ 84، سلسلہ صحیحہ: 1130)

💠8:- سورت منافقون کی آیت 6 بھی اسی وقت یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کی تھی،

سَوَاء عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ (منافقون 6) (مجمع الزوائد جلد 9 /70)

💠9:- سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب آیت:

لَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنِ۔ (المؤمنون:١٢)

نازل ہوئی تو اِسے سن کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے بے ساختہ کہا،

فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔

”تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا”۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔ تفسیر ابن ابی حاتم تفسیر سورت مومنون آیت 12،13)⁦
نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :

وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ اِنَّهَا خَتَمَتْ بِالَّذِيْ تَكَلَّمْتَ يَا عُمَر ۔

یعنی اے عمر اس رب عَزَّ وَجَلَّ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے یہ آیت مبارکہ تو بعینہ انہی الفاظ پر ختم کردی گئی ہے جو الفاظ تمہاری زبان سے نکلےتھے ۔ (تفسیر درمنثور ، پ۱۸ ، المؤمنون : ١٤ ، ج٦ ،ص٩٢
💠 10:-حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ پر بہتان لگنے پر آپ نے فرمایا: “سبحانك هذا بہتان عظيم”
جب حضرت عائشہ صدیقہ پرمنافقوں نے جب بہتان لگایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کی طرح سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ سے بھی مشورہ فرمایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے میرے آقا! آپ نے اُن سے نکاح خود کیا تھا یا اللہ تعالیٰ کی مرضی سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ، اللہ کی مرضی سے۔
تو اس پر آپ نے کہا کہ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔

سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان” عَظِیْم” (النور:١٦)۔ ( ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ج10 ص518)

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 10)

موافقاتِ سیدنا عمر ؓ
💠11:-کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کا معاملہ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک روز سو رہے تھے کہ ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ نے دعا فرمائی۔
“اللھم حرم الدخول علینا فی وقت نومنا”اے اللہ(بلا اجازت گھروں میں) ہمارے سونے کے وقت میں کسی کی آمد کو حرام کردے۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا ۔(النور:٢٧،)۔

(بخاری شریف کتاب التفسیر ج 2 ص 706 حاشیہ 7،
سیدنا عمر بن خطاب رض از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ص77)
💠12:- امہات المومنین کے لئے پردے کا حکم دینے کا مشورہ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا :

اِنَّ نِسَاءَكَ يَدْخُلُ عَلَيْهِمُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ لَوْاَمَرْتَ اُمَّھَاتَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِالْحِجَابِ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !

آپ کے پاس نیک اور بد ہر قسم کے لوگ حاضر آتے ہیں ، پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم امہات المؤمنین کو حجاب میں رہنے کا حکم دیں ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت حجاب نازل ہوگئی :

(یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ (پ۲۲ ، الاحزاب: ۵۹) ۔

ترجمہ : اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب التفسیر ، باب قولہ لا تدخلوا۔۔..۔الخ ، ج۳ ، ٣٠٤ ،حدیث: ٤٧٩٠)
💠13:- بعض امہات المؤمنین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا علم ہونے پر مشورہ۔

عن انس قال قال عمر وافقت اللہ فی ثلاث او وافقنی ربی فی ثلاث ۔۔۔قال وبلغنی معاتبةالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعض نسائه فدخلت علیھن ان انتھیتن او لیبدلن اللہ رسوله خیراً منکن حتیٰ اتیت احدٰی نسائه قالت اما فی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما یعظ نسائه حتیٰ تعظھن انت فانزل اللہ “عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ۔۔۔ مُسْلِمٰتٍ “

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مجھے بعض ازواج مطہرات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا علم ہوا میں ان کے یہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ بعض آجاؤ ورنہ اللہ تعالی تم سے بہتر ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بدل دے گا آخر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔”

“عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓىٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىٕحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا”

اگر وہ (نبی) تمہیں طلاق دے دیں توقریب ہے کہ ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں بدل دے جو اطاعت والیاں ، ایمان والیاں ، ادب والیاں ، توبہ کرنے والیاں ،عبادت گزار،روزہ دار ، بیاہیاں اور کنواریاں ہوں (التحريم٥)
(صحیح بخاری کتاب التفسیر ج٢ ص ٦٤٤،٧٠٦۔۔
ماخوذ موافقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حافظ لیاقت علی شاہ نقشبندی مکتبہ غفوریہ کراچی،
احسن التفاسیر اردو ج ٧ص ١٧٩،تفسیر القرآن الکریم حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمۃ اللٌٰہ علیہ ٧٥٠/٤)۔

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 11)

موافقاتِ سیدنا عمر ؓ
💠14:-سورت الانفال کی آیت نمبر 5، جس میں غزوہ بدر کیلئے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ سیدنا عمررضی اللہ تعالیٰ کا تھا تو قرآن مجید کے نزول نے بھی اس کی تائید کردی۔
ملک شام سے کفار کا ایک قافلہ سازوسامان کے ساتھ آرہا تھا ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اصحاب کے ساتھ اس قافلے سے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے ، ادھر جب کفار مکہ کو معلوم ہوا تو ابوجہل بھی قریش کا ایک بڑا لشکر لے کر ملک شام سے آنے والے قافلے کی مدد کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ لیکن جب اس قافلے کو معلوم ہوا کہ مسلمان ان کے مقابلے کے لیے آرہے ہیں تو انہوں نے وہ راستہ تبدیل کردیا اور سمندی راستے سےکسی اور راہ نکل گئے ۔ ابو جہل کو جب یہ معلوم ہوا تواس کے ساتھیوں نے کہا کہ قافلہ تو صحیح سلامت دوسرے راہ نکل گیا لہٰذا واپس مکہ مکرمہ چلتے ہیں لیکن اس نے واپس جانے سے انکار کردیا اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کےلیے مقام بدر کی طرف چل پڑا ۔ ادھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم ہوا تو آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا اور فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کُفّار کے دونوں گروہوں میں سے ایک پر مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا خواہ وہ ملک شام والا قافلہ ہو یا مکہ مکرمہ سے آنے والے کفار قریش کا لشکر ۔ قافلہ چونکہ نکل چکا تھا لہٰذا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدر کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : ہم باقاعدہ جنگ کی تیاری سے نہیں آئے تھے ، لہٰذا ابو جہل کے لشکر سے اعراض کر کے اسی ملک شام والے قافلے کا تعاقب کرنا چاہیے ۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! جیسا آپ کے ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو حکم فرمایا ہے ویسا ہی کیجئے یعنی بدر کی طرف تشریف لے چلیے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی :

كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ۪-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ ۔ (پ۹ ، الانفال: ۵) ۔

ترجمہ : جس طرح اے محبوب تمہیں تمہارے رب نے تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بے شک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔ ‘‘
(تفسیرالبیضاوی ، پ۹ ، الانفال : ۵ ، ج۳ ص۸۹ ،
تاریخ الخلفاء ص۹۷ ، الصواعق المحرقۃ ابوالعباس احمد بن محمد ابن حجر الھیثمی ، ص۱۰۰)

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 12)

موافقاتِ سیدنا عمر ؓ
💠15:-امت محمدیہ کی جنت میں تعداد کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رو پڑنا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی

“ثلة من الاولين وقليل من الاخرين”

‘پہلوں میں سے بہت اور پچھلوں میں سے تھوڑے”
تو یہ چیز صحابہ پر گراں گزری اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ‘ثلة من الاولين وثلهة من الاخرين”.
بہت سے پہلوں میں سے ہوں گے اور بہت سے پچھلوں میں سے ہوں گے۔
پس آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انتم ثلث اهل الجنه بل انتم نصف اهل الجنه وتقاسمونهم

النصف الباقي” تم لوگ تمام اہلِ جنت کا ثلث بلکہ نصف ہو گے اور نصف باقی میں وہ تمہارے شریک ہوں گے۔
(مسند احمد٨٨٣٧،ج٣ص٩٨،تفسير قرطبی١٣٧/٧)
حضرت عروہ بن ردیم کا قول ہے کہ جب اللہ تعالی نے آیت “ثلة من الاولين وقليل من الاخرين”نازل فرمائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ رو پڑے اور کہا یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اس کے باوجود جو لوگ ہم میں سے نجات پائیں گے وہ قلیل ہو گے اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ثلة من الاولين وثلة من الاخرين.
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
” رضینا عن ربنا ونصدق نبينا” ہم اپنے رب سے راضی ہوگئے اور ہم اپنے نبی کی تصدیق کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہم تک ثلث اور ہم سے لے کر قیامت تک ثلث اس عدد کو پورا کرنے کے لئے دو سیاہ فام شتربان ہوں گے جنہوں نے لا اله الا الله کہا ہوگا.
(اسباب نزول القران للواحدي النیسابوری ص٤٢٢،تفسیر ابنِ عباس اردو ج٢ص٣٢٣) ،(تاریخ الخلفاء ص 200)
ماخوذ موافقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مکتبہ غفوریہ کراچی)
💠16:-جنت کا عرض آسمان و زمین ہے ہے کہ بارے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا جواب
طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ ایک یہودی شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ کہتے ہیں۔

“وَسَارِعُواْ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ” (آل عمران١٣٣)

اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سماجائیں ۔ وہ اُن پرہیز گاروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
تو یہ فرمائیے کہ جہنم کہاں گئی؟؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے نے تمام صحابہ سے کہا کہ اس کا جواب دو کسی نے جواب نہ دیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا جب دن آتا ہے اور زمین و آسمان کو روشن کر دیتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے؟ اس(یہودی) نے کہا جہاں اللہ عزوجل چاہتا ہے
حضرت عمر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اسی طرح جہنم بھی ابھی جہاں اللہ عزوجل چاہے گا۔
یہودی نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں آپ کی جان ہے ہے جس طرح آپ نے کہا اسی طرح کتاب اللہ میں نازل ہوا تھا (یعنی تورات میں).
(ارشاد الساری ج١٠ ص٥١٩،تفسير طبري تفسير ابن كثير عربي ج١ص٥٢٦)۔

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 13)

موافقاتِ سیدنا عمر ؓ
💠17:-زمین کے بادشاہوں کے لیے بڑی تباہی ہے کہ بارے میں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استثناء۔
حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت عمر بن خطاب کے پاس تھے کہ کہاں ہاں اس کے بادشاہ کی طرف سے سے زمین کے بادشاہوں کے لیے بڑی تباہی ہے ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“الا من حاسب نفسه” مگر جس نے نے اپنے نفس کا محاسبہ کر لیا
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے بیشک آپ نے ضرور اس چیز کی اتباع کی جو کتاب اللہ میں ہے (یعنی تورات میں) ۔پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ سجدے ہمیں گر پڑے اللہ کے لیے لئے سجدہ کرنے والے۔
(ارشاد الساری ج١٠ ص٥١٩ ماخوذ موافقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ از مولانا حافظ لیاقت علی شاہ نقشبندی)
💠18:-اذان کے کلمات میں موافقت:
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : ’’مسلمان (ہجرت کے بعد) مدینہ پہنچے تو وہاں وہ نمازوں کے اوقات کا اندازہ لگا کر اکٹھا ہوتے تھے، اذان نہیں دی جاتی تھی۔ انھوں نے باہم مشورہ کیا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ناقوس بجایا جائے، جس طرح نصاریٰ کرتے ہیں۔ کسی نے کہا: سنکھ بجایا جائے، جس طرح یہود کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب بدء الاذان، حدیث:٦٠٤)
کسی نے مشورہ دیا کہ نماز کے وقت جھنڈا بلند کیا جائے، اسے دیکھ کر لوگوں کو علم ہوجائے گا۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب بدء الاذان، حدیث: ٤٩٨)
آں حضرت ﷺ کو کوئی مشورہ پسند نہیں آیا۔ (سنن ابی داؤد، حوالہ سابق، سنن ابن ماجہ، ابواب الاذان، باب بدء الاذان، حدیث:٧٠٦)
صحابہ اسی غور و فکر میں تھے کہ حضرت عبد اللہ بن زیدؓ نے خواب میں پوری اذان سنی۔ خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر انھوں نے اپنا خواب بیان کیا۔ آں حضرت ﷺ نے حکم دیا کہ وہ حضرت بلالؓ کو اذان سکھا دیں اور حضرت بلالؓ اذان دیں (کیوں کہ حضرت بلالؓ کی آواز بلند تھی)۔
حضرت عمر بن الخطابؓ نے آکر اطلاع دی:
والذی بعثک بالحق فقد رأیت مثل ما ارٰی۔
قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کیساتھ بھیجا ہے میں نے بھی اسی طرح خواب دیکھا ہے۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الحمدللہ (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں)
(مشکوٰۃ المصابیح عن ابی داؤد والدارمی وابن ماجہ والترمذی ص٦٤، موافقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مکتبہ غفوریہ کراچی)۔

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 14)

* اولیاتِ عمر رضی اللہ عنہ
خلیفۂ راشد، امیر المؤمنین، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں بہت سے اچھے اور نیک کاموں کی ابتدا کی جن کو اولیات عمر کہا جاتا ہے یعنی وہ انقلابی اقدامات جو تاریخ میں پہلی بار آپ کے عہد میں شروع ہوئے۔
1 -سرکاری خطوط اور دستاویزات میں تاریخ نویسی کیلئے تاریخ اور سن ہجری کا آغاز کیا-
2 – عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کردیا –
3 – باقاعدہ بیت المال قائم کیا –
4 – فوج کامحکمہ قائم کیا اور رضاکار مجاہدین کی تنخواہیں مقرر کیں –
5 – کوفہ، بصرہ،موصل،فسطاس وغیرہ نئے شہر آباد کئے-
6 – مردم شماری کرائی –
7 – جرائم کے لیے جیل خانے بنائے –
8 – فوجی گھوڑوں کوچوری سے محفوظ رکھنےاور ان کاحساب کتاب رکھنے کے لیے ان پر نشان “جیش فی سبیل اللہ ” داغے گئے –
9 – امن و امان کے لیے پولیس کا محکمہ قائم کیا –
10 – مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مسافروں کے لیے سرائیں قائم کیں –
11 -نئی نہریں کھدوائیں اورآبپاشی کا بندوبست کیا –
12- ڈاک کا نظام قائم کیا اور ڈاک چوکیاں بنائیں –
13- لاوارث اور بےسہارا بچوں کے لیے وظیفے مقرر کیے –
14- چاندی کے سکے جاری کیے –
15- رات کو گشت کا طریقہ ایجاد کیا –
16- عشور یعنی مال تجارت پر 1/10محصول مقرر کیا –
17- قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے دینی مدارس قائم کیے اور ان میں تنخواہ دار معلمین مقرر کیے
18- شراب نوشی کی حد 80کوڑے مقرر کی۔نماز
19- امام اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں –
20- مساجد میں وعظ کا طریقہ شروع کیا –
21-نماز تراویح کاباجماعت اہتمام کیا –
22- فجر کی آذان میں “الصلوۃ خیرمن النوم “کا اضافہ فرمایا –
* اولیاتِ عمر کا ذکر کرتے ہوئے بہت سے مصنفین اور مضامین نگار حضرات نے ایک غلطی یا تجاہل عارفانہ کا ارتکاب کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اذان فجر میں “الصلاۃ خیر من النوم” کا اضافہ فرمایا.
جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اس کا نقصان یہ ہوا ہوا کہ روا ف ض کو “حي على خير العمل” کہنے کا جواز میسر آگیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے ان کی زبانوں پر “دین میں اضافہ”کے الفاظ جاری ہوئے۔
اذان فجر میں الصلاه خير من النوم کے الفاظ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو سکھائے تھے اور وہ اذان اسی طرح پڑھتے رہے
دراصل اس روایت میں ترجیع والی اذان یعنی “دوہری اذان” کا ذکر ہے جو ایک مخصوص مکتبۂ فکر کے ہاں درست نہیں اس لیے اس روایت کو پیش ہی نہیں کیا جاتا اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اذان میں یہ کلمات حضرت عمر رضی اللہ نے جا ری کیے تھے۔

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 15)

اولیاتِ سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ
سنن ابی داؤد اور مسند احمد وغیرہ میں وہ روایت موجود ہے:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِیْ سُنَّۃَ الْأَذَانِ فَمَسَحَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِیْ وَقَالَ: ((قُلْ: اَللّٰہُ أکْبَرُ، اللّٰہُ أکْبَرْ تَرْفَعُ بِہَا صَوْتَکَ، ثُمَّ تَـقُوْلُ أَشْہَدُ أنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، أشْہَدُ أنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، مَرَّتَیْنِ تَخْفِضُ بِہَا صَوْتَکَ، ثُمَّ تَرْفَعُ صَوْتَکَ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، مَرَّتَیْنِ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، مَرَّتَیْنِِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ، مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ کَانَ صَلَاۃُ الصُّبْحِ قَلْتَ: اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، اَللّٰہُ أَکْبَر اَللّٰہُ أَکْبَر لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، (زَادَفِی رِوَایَۃٍ) قَالَ وَالْإِ قَامَۃُ مَثْنٰی مَثْنٰی لَا یُرَجِّعُ۔
(مسند احمد: .١٥٤٥٣)

سیّدنا ابو محذورہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اذان کا طریقہ سکھائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سر کے اگلے حصہ پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: بلند آواز سے اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہہ، پھر أَشْھَدُ أنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، أَشْھَدُ أنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ دو دو مرتبہ آہستہ آواز کے ساتھ کہہ، پھر اپنی آواز بلند کر کے دو دفعہ أَشْھَدُ أنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ اور دو دفعہ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، پھر دو دو مرتبہ ہی کہہ: حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ۔ اگر صبح کی نماز ہو تو اَلصَّلَاۃُخَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَا اللّٰہُ کہہ۔ ایک روایت میں مزید فرمایا: اقامت بغیر ترجیع کے دو دو کلمے کہے گا۔

♦️⁩دوسری روایت اس طرح ہے:

عَنْ أَبِی مَحْذُورَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ کُنْتُ اُاَذِّنُ فِیْ زَمَنِ النَّبِییً ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فیِ صَلَاۃِ الصُّبْحِ فَاِذَا قُلْتُ حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ قُلْتُ اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ الْأَ ذَانَ الْأَوَّلَ۔ (مسند احمد۔ ١٥٤٥٢)

سیّدنا ابو محذورہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں صبح کی نماز کے لیے اذان کہا کرتا تھا، جب میں حَيَّ عَلَی الْفَـلَاحِ کہتا تو اَلصَّلَاۃُخَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہتا، یہ پہلی اذان کی بات ہے۔
* اسی طرح بعض نے اولیات عمر رض میں لکھا ہے کہ “آپ نے بیس رکعت نماز تراویح باجماعت جاری کیں”
اس دعویٰ کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ ہم اپنی اپنی فقہ اور سوچ کو فوقیت دینے کی کوشش میں کس طرح دروغ گوئی کا ارتکاب اور حقیقت کو جھٹلانے کی سعی کر رہے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

عن محمد بن يوسف عن السائب بن يزيد رضي الله عنه أنَّه قال: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ رضي الله عنهم أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ: وَقَدْ «كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ»

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم الداری رضی اللہ عنھم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قاری سو سو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا۔ حتی کہ ہم طویل قیام کی وجہ سے لکڑی کے سہارے کھڑے ہوتے تھے اور فجر کے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔
[موطأ امام مالك ١١٥/١ ت فواد عبد الباقي ]
یہ روایت بالکل صحیح اور تمام راوی ثقہ ہیں
یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے الگ الگ نماز تراویح ادا کرنے والوں کو حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہما کی امامت میں گیارہ رکعات نماز تراویح پڑھانے کا اہتمام کیا تھا۔
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
بندۂ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 16)

قارئین کرام! سیدنا عمر ؓ فاروق جو کہ 22 لاکھ مربع میل کی ایک وسیع سلطنت کے حکمران تھے۔
* (وکیپیڈیا کے مطابق پاکستان کا کل رقبہ تین لاکھ چالیس ہزار پانچ سو نو (340,509) مربع میل ہے) ۔۔۔اس دور کی سپر طاقتیں روم اور ایران جن کے نام سے کانپتی تھیں۔
جس نے ایران کو فتح کر کے کسرٰی کا تاج اور شان و شوکت مسجد نبوی کے صحن میں لا کر رکھ دیا۔ کسرٰی کے سونے کے بڑے بڑے کنگن سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں پہنائے۔۔۔ اس عظیم حکمران کے رہنے سہنے کے انداز اور ٹھاٹھ باٹھ بھی شاہانہ اور امیرانہ ہونے چاہئیں چاہئے مگر یہاں تو خوف خدا کے زیور کے علاوہ دنیاوی کروفر اور شان و شوکت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
روکھی سوکھی کھا کر ننگی زمین پر اپنا کوڑا سر کے نیچے رکھ کر سو جاتے۔ رومی سفیر یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:
“عدلت فأمنت فنمت یا عمر” اے عمر! تو نے عدل کیا تو تجھے امن و سکون نصیب ہوا۔ اور تو چین کی نیند سویا۔ راتوں کو رعایا کی خبر گیری کے لئے گشت کرتے یا مصلے پر اپنے رب سے رازونیاز کرتے۔
🔷 دنیا میں ایسا بھی حکمران نہ دیکھا ہو گا جسے خطبہ دیتے وقت اس لیے ٹوک دیا جاتا ہے کہ مال غنیمت سے حاصل ہونے والے کپڑے سے ہماری قمیض پوری نہیں بن سکی۔ آپ نے اسی کپڑے کی قمیض پہن رکھی ہے۔
پہلے اس کا جواب چاہئیے۔وقت کا عظیم حکمران ماتھے پر شکن ڈالے بغیر اپنے بیٹے سے اس کا جواب دلواتا ہے۔
♦️⁩اسلام کا یہ عظیم حکمران بیت المقدس کی فتح کے لئے مدینہ سے ایک غلام اور صرف ایک سواری لیے، پیوند لگے کپڑے پہنے باری باری سواری کی نکیل پکڑے ہوئے جا رہا ہے۔نہ خدمت گار، نہ باڈی گارڈ، نہ شاہی سواری، نہ شاہی پروٹوکول، محض اللہ پر توکل، خوف خدا اور خدمت انسانیت کے حصار میں طویل سفر کرکے بیت المقدس کے فاتح بن کر واپس آتے ہیں۔
آپ کےلباس کی طرح غذا بھی سادہ ہوا کرتی تھی ۔ عام طور پر گیہوں کی روٹی اور زیتون کا تیل کھایا کرتے تھے۔ قحط کے ایام میں جَو کی روٹی پر قناعت کرتے ۔ کبھی کبھی گوشت ،ترکاری یا سرکہ بھی معمولی خوراک کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر ہوا کرتا ۔ طرزِ معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ تھی ۔ سفر،حضر، جلوت، خلوت،مکان اور بازار میں کوئی شخص آپ کو کسی علامت سے نہیں پہچان سکتا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ ہی خلیفۂ وقت اور امیر المؤمنین ہیں۔ قیصروکسریٰ کے ایلچی اور قاصد مسجد نبوی میں آکر ڈھونڈتے اور پوچھتے تھے کہ خلیفۂ وقت کہاں ہیں؟حالانکہ آپؓ پھٹے پرانے پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے وہیں بیٹھے ہوتے تھے۔
⁦♦️⁩مصر کی فتح کی خوش خبری سننے کیلئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ عالم بے تابی میں کئی کوس دور چلے جاتے آخر ایک روز ایک اونٹنی سوار کو دور سے دیکھا آپ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس گئے دریافت کیا کہ کہاں سے آرہے ہو اس نے کہا کہ مصر سے آرہا ہوں اور حضرت امیر المؤمنین کو فتح کی بشارت دینے جا رہا ہوں آپ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تک اس اونٹنی سوار کے پیچھے دوڑنے لگے اونٹنی سوار نے لوگوں سے امیر المؤمنین کا پتہ پوچھا لوگوں نے کہا امیر المؤمنین وہی تو ہیں جو آپ کے پیچھے دوڑتے چلے آرہے ہیں۔

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط: 17)

🔷 امہات المؤمنین کا احترام:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس نو پیالے تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی عمدہ چیز یا کوئی پھل وغیرہ استعمال کرنے کی خواہش ہوتی تو پہلے ان پیالوں میں ازواج مطہرات کا حصہ لگاتے لیکن اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کا سب سے آخر میں ان کے پاس روانہ کرتے “فان كان نقصان كان فی حقھا” اگر کچھ نقصان ہوتا تو اپنی صاحبزادی ہی کے حصے میں وہ نقصان ہوتا دوسری امہات المومنین کے حصوں میں نقصان نہ ہونے دیتے (سیرت عمر رضی اللہ عنہ ص66 بحوالہ سلف صالحین کے سنہرے واقعات)
💠تواضع و انکساری:
حضرت عباس رضی اللہ عنہ عم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکان مسجد نبوی سے متصل واقع تھا اور اس کا پرنالہ مسجد میں گرتا تھا اور بعض اوقات اس میں سے پانی آتا تو نمازیوں کو تکلیف ہوتی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں مسجد کے احترام اور نمازیوں کے آرام کی خاطر پرنالے کو اکھڑوا دیا۔ حضرت عباس اتفاقاً اس وقت موجود نہیں تھے۔ حضرت عباسؓ باہر سے واپس آئے تو یہ جبر دیکھ کر نہایت غصہ ہوئے اور فوراً قاضیٔ شہر کے ہاں خلیفۂ وقت پر دعویٰ دائر کر دیا اس پر حضرت سیدا لانصار حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دنیا کے سب سے بڑے حکمران کے نام فرمان جاری کر دیا کہ آپ کے خلاف حضرت عباس بن عبدالمطلب نے مقدمہ دائر کیا ہے اور انصاف چاہا ہے آپ رضی اللہ عنہ حاضر ہو کر مقدمے کی پیروی کریں۔
حضرت عباسؓ: بات یہ ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے خود اپنی چھڑی مبارک سے زمین پر نشانات قائم کیے اور میں نے انہی نشانات پر اپنا مکان بنایا جب مکان بن چکا تو یہ پرنالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حکم سے یہاں رکھوایا اور فرمایامیرے کندھوں پر کھڑے ہو جاؤ اور پرنالہ یہیں لگا دو ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیچے کھڑے ہو گئے اور میں نے حضور صلی اللہ علیہ سلم کے ارشاد مبارک کی تعمیل کرتے ہوئے حضورﷺ کے کندھے پر چڑھ کر یہ پرنالہ یہاں لگا دیا جہاں سے اب امیر المؤمنین نے اسے اکھاڑ دیا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا حکمران جو اب تک نگاہیں نیچی کرکے کھڑا تھا آگے بڑھا اور حضرت عباسؓ سے کہنے لگا،اے ابوالفضل! خدا کے لئے میر اقصور معاف فرمادیجئے،مجھے ہرگز علم نہ تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ نے خودپرنالہ یہاں لگوا یا تھا ورنہ بھول کر بھی مجھ سے یہ فعل سرزد نہ ہوتا۔ جو کچھ ہوالاعلمی میں ہوا اور اب اس کی تلافی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آپ میرے کندھوں پر چڑھ کر پرنالہ کو اپنی جگہ پرلگا دیں۔ تھوڑی دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ قیصروکسریٰ جیسے بادشاہوں کو شکست دینے والا جرنیل نہایت مسکینی کے ساتھ دیوار کے نیچے کھڑا ہے اور حضرت عباس ؓ ان کندھوں پر چڑھ کر پرنالہ اسی جگہ لگا رہے ہیں۔
جب پرنالہ وہاں نصب ہوچکا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کے عدل و انصاف کی بدولت مجھے اپنا حق مجھے مل گیا ہے میں اپنا مکان اللہ کی رضا کے لئے وقف کرتا ہوں۔
دنیا بھر کی تاریخ ٹٹول ڈالیے اطاعت ومحبت ،انصاف وعدل اور مساوات کی ایسی مثال ملنا محال ہے۔
(مسند احمد١٧٩٠, طبقات ابنِ سعد 1113/4,)۔

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط نمبر 18)

🔸خوفِ خدا: خشیت الہی ہیں اور محاسبہ نفس کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے تھے اگر دریائے فرات کے ساحل پر بکری کا ایک بچہ بھی مر گیا تو مجھے ڈر ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالی عمر سے محاسبہ کرے گا
(مناقب عمر صفحہ 160-161،
سیدنا عمر بن خطاب للصلابی ص210)
محاسبہ نفس کے بارے میں کہا کرتے تھے:
“حاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا، وزنوها قبل أن توزنوا، فإن أهون عليكم في الحساب غداً أن تحاسبوا أنفسكم اليوم، وتزينوا للعرض الأكبر۔”
اپنے نفس کا خود محاسبہ کیا کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنی قدر و قیمت کو تو لو اس سے پہلے کہ تم چلے جاؤ اور بڑی پیشی یعنی روزے جزا کے لئے تیار رہو۔

یَوْمَىٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِیَةٌ(الحاقة ۱۸)

“اس دن تم سب اس حال میں پیش کئے جاؤ گے کہ تم میں سے کسی کی کوئی پوشیدہ حالت چھپ نہ سکے گی”
🔘 آپ نے اپنی انگوٹھی پر یہ عبارت نقش کروا رکھی تھی: کفٰی بالموت واعظاً۔۔نصیحت کیلئے موت ہی کافی ہے۔ (تاریخ الخلفاء ص 136)
⁦♦️⁩ایک عربی سائل نے اپنے سوال کے ساتھ آخرت کے سوال و جواب کے بارے میں شعر پڑھے:

والله انها لي لتسألنه يوم تكون الاعطیات منه

“اللہ کی قسم تم سے میری حالت کے متعلق پوچھا جائے گا پھر وہاں اور بھی بہت سے سوالات ہوں گے”

والواقف المسؤل بينهنه اما الى نار واما جنة

“ذمہ دار کھڑا ہو کر ان سوالوں کا جواب دے گا پھر ٹھکانا یا تو جہنم ہوگا یا جنت.
یہ سن کر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رو پڑے یہاں تک کہ آنسوؤں سے آپ کی داڑھی بھیگ گئی پھر خادم کو مخاطب کرکے فرمایا اے غلام اس دن (یعنی روز آخرت) کے محاسبہ سے بچنے کے لئے اسے میری قمیض دے دو. واللہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسری قمیض نہیں ہے۔ (تاریخ بغداد٣١٢/٤، بحوالہ سیدنا عمر بن خطاب رض ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ص٢٠٧)
🔹سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک باغ میں داخل ہوئے میرے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل تھی۔میں نے اس وقت عمر رض کو خود سے خطاب کرتے ہوئے سنا: “اے عمر بن خطاب تو امیرالمؤمنین ہے خطاب کا معمولی بیٹا ہے تو اللہ سے ڈر ورنہ وہ تجھے عذاب کرے گا”…. (مؤطا امام مالک٩٩٢/٢،بحوالہ۔ ایضاً)

⁩شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط نمبر 19)

بعد ازاں زخمی حالت میں حضرت عمر فاروقؓ کو اُنکے گھر منتقل کیا گیا۔ہم بھی آپؓ کے ساتھ ساتھ آئے۔ (یہ اتنا المناک دن تھا) ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگوں پر اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں۔پھر نبیذ لائی گئی،سیدنا عمر فاروقؓ نے وہ نبیذ پی لی لیکن ساری نبیذ پیٹ کے زخموں سے باہر نکل آئی، پھر دودھ لایا گیا وہ بھی آپؓ نے پہ لیا لیکن وہ بھی پیٹ کے زخموں کے راستے نکل گیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ امیرالمومنینؓ کی شہادت یقینی ہے۔اسی دوران ایک نوجوان آکر عرض کرنے لگا اے امیر المؤمنینؓ ! آپؓ کو اللہ تعالی کیطرف سے خوشخبری ہو کہ آپؓ کو رسول اللہﷺکی رفاقت حاصل رہی اور آپؓ نے ابتدائی دور میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا۔جو آپؓ کو معلوم ہے پھر آپؓ خلیفہ بنائے گئے اور آپؓ نے پورے انصاف کیساتھ حکومت کی اور (آپؓ کو شہادت نصیب ہوئی)
سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر بھی خوش ہوں کہ ان تمام باتوں کیوجہ سے میرا معاملہ برابری پر ہی ختم ہو جائے۔ پھر وہ نوجوان واپس ہوا تو اسکا تہہ بند زمین پر گھسٹ رہا تھا،آپؓ نے فرمایا،اس نوجوان کو واپس بلاؤ۔ جب وہ آیا تو آپؓ نے فرمایا؛ میرے بھتیجے! اپنا تہہ بند اوپر اٹھاؤ۔ اس سے کپڑا صاف رہے گا اور یہ عمل اللہ کے ہاں تقوی کا باعث بھی ہو گا۔ پھر فرمایا ؛ اے عبداللہ ابن عمرؓ ! دیکھو بیٹے میرے ذمے کتنا قرض ہے۔۔؟حساب لگا گیا تو کل قرضہ تقریباً چھیاسی ہزار (ہزار) تھا ۔ تو حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ ابن عمرؓ کو قرض کی ادائیگی کاحکم دیا اور فرمایا کہ تم اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس جاؤ اور اُنہیں کہناکہ عمرؓ نےآپؓ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے،اُن سے عرض کرنا کہ عمر بن خطابؓ اپنے دو ساتھیوں کیساتھ(حجرے میں) دفن ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔
حضرت عبداللہ ؓ ابن عمرؓ نے اُم المؤمنینؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا اور اجازت لیکر حجرہ شریف میں داخل ہو گئے،دیکھا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ رو رہی ہیں،حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ نے عرض کی۔عمر بن خطابؓ آپؓ کو سلام کہتے ہیں اور اُنہوں نےاپنےدوساتھیوں کیساتھ (آپؓ کے حجرے میں)دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے ۔
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نےفرمایا میں نے یہ جگہ اپنے لئے خاص کر رکھی تھی مگر آج میں انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔حضرت عبداللہؓ ابن عمرؓ نے واپس آ کر امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ سے عرض کیا کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے میرے لئے سب سے اہم معاملہ یہی تھا۔دیکھو ! جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور ایک بارپھراُن سے(اُن کےحجرہ شریف میں)مجھے دفن کرنے کی درخواست کرنا، اگر اجازت مل جائے تو حجرہ اقدس میں دفن کر دینا اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔
بخاری شریف میں روایت ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کی رحلت کے بعد حضرت ابن عمرؓ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے دوسری بار اجازت لیکر امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کو روضہ اقدسﷺ میں ان کے دونوں ساتھیوں (حضور نبی کریمﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ ) کے ساتھ دفن کر دیا۔۔۔
حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ پر حملہ ہوا تو میں نے انکی زبان سے تلاوت سنی،آپؓ قرآن مجید کی یہ والی آیت مبارکہ پڑھ رہے تھے۔

سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا

(ترجمہ). اور اللہ کا حکم ہمیشہ سے اندازے کے مطابق ہے،جو طے کیا ہوا ہے۔ سورت الاحزاب[38]
(سیدناعمرؓ بن خطاب از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ص814)
سیدنا جریر بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا انہوں نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت اپ 63 سال کے تھے جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو وہ 63 سال کے تھے اور جب عمر رضی اللہ تعالی عنہ شہید کیے گئے تو اس وقت ان کی عمر بھی 63 سال تھی۔
(صحیح مسلم ٢٣٥٢بحوالہ سیدناعمرؓ از ڈاکٹر الصلابی)

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط نمبر 20)

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ابو لؤلو فیروز سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا مجوسی غلام تھا اور آٹا تیار کرنے والی چکی کا کاریگر تھا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے تھے ابو لؤلو عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا اے امیر المومنین مغیرہ نے مجھ پر محصول کافی گراں کر دیا ہے اپ ان سے کہیں کہ کم کر دیں۔
ابن سعد نے امام زہری تک بسند صحیح اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے اس مجوسی سے کہا میں نے سنا ہے کہ تم ایسی چکی بنانے کا دعوی کر رہے ہو جو ہوا سے چلے گی مجوسی ترش رو ہو کر اپ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:”میں اپ کے لیے ایسی چکی بناؤں گا جس کا چرچا ہر جگہ ہوگا”.
اس کی بات سن کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا اس غلام نے مجھے دھمکی دی ہے بلاشبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی ظلم نہ کیا تھا صحیح بخاری میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر حملہ ہوا تو آپ نے کہا اے ابن عباس دیکھو میرا قاتل کون ہے وہ ادھر ادھر کچھ دیر گھومتے اور خبر لیتے رہے پھر واپس لوٹے اور اپ کو بتایا کہ مغیرہ کا غلام اپ نے پوچھا کیا وہی کاریگر انہوں نے کہا ہاں اپ نے فرمایا اللہ تعالی اس کو ہلاک کرے میں نے اس کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا تھا شکر ہے اللہ تعالی کا کہ اس نے کسی کلمہ گو کے ہاتھوں مجھے موت نہیں دی۔
ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی لکھتے ہیں:
“اسی ابو لؤلو فیروز مجوسی قاتل کے لیے اعدائے اسلام نے ایران میں گمنام فوجی کے طرز پر ایک یادگار مزار بنایا ہے۔
نجف کے عالم سید حسین موسوی لکھتے ہیں کہ: ایران کے شہر کاشان میں باغی فین کے علاقہ میں ایک گمنام فوجی کے طرز پر مزار پایا جاتا ہے اس میں خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قاتل ابو لؤلو فیروز فارسی مجوسی کی وہمی قبر ہے اس کو بابا شجاع الدین کا مزار کہا جاتا ہے وہ لوگ ابو لؤلو مجوسی کو بابا شجاع الدین کا لقب دیتے ہیں اس لیے کہ اس نے عمر بن خطاب کو قتل کیا تھا اس مزار کی دیواروں پر فارسی زبان میں لکھا ہوا ہے مرگ پر ابوبکر مرگ بر عمر مرگ بر عثمان.
یہ مزار ایرانی شیعوں کی ایک اہم زیارت گاہ ہے وہاں روپیوں پیسوں کے نذرانے چڑھائے جاتے ہیں میں نے اس مزار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ایرانی وزارت مذہبی امور نے حکومتی خرچ پر اس میں تجدید و توسیع کی ہے مزید براں اس مزار کی تصویر پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا ہے”
(سیرتِ عمر بن خطاب از ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ص829)
اسی طرح انگوٹھی میں پہننے والے فیروزہ پتھر کو سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے قاتل ابولؤلؤ فیروز کے نام کی نسبت سے دیو مالائی قصے اور فضائل بیان کر کے اسے جرات و بہادری کا استعارہ بنا دیا گیا اور اہل سنت عوام بھی غیر شعوری طور پر اسے پہننا رنج و الم سے نجات اور خیر و برکت کا ذریعہ سمجھنے لگے۔
حالانکہ پتھروں سے متعلق کسی قسم کا عقیدہ وابستہ کرنے کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کا مشہور فرمان کافی ہے جو انہوں نے حجر اسود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: “انک حجر لا تنفع ولا تضر”
اے حجر اسود تو صرف ایک پتھر ہے نہ تو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان میں تو پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت پر تجھے بوسہ دے رہا ہوں۔

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط نمبر: 21.آخری)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
“اس عظیم انسان کو صحابی کہا جاتا ہے جسے ایمان کی حالت میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات و زیارت کا شرف حاصل ہوا ہو اور حالت ایمان میں وفات پائی ہو”
ایک عام صحابی کی شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس طرح بیان ہوئی :
2:-حضر ت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،حدیث اس طرح سے ہے:
’’لاتسبُّو اصحا بی، فلوان اَحدَ کم انفق مثل اُحُدٍذھَبًا مَا بَلَغ مُدَّاَحد ھم ولا نصیفَہ‘‘
“میرے اصحاب کو برا مت کہو۔اگر کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برا بر بھی سونا(اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مُد کے غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ آدھامد کے برابر “( بخاری)
* سیدنا عمر فاروق ؓ تو وہ عظیم صحابی ہیں۔
♦️ جسے دوسرے خلیفہ راشد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
♦️ جس کا سلسلہ نسب 9 ویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے
♦️جو ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں
♦️جن کا اسلام قبول کرنے میں 40 واں نمبر ہے
♦️ جن کے بارے میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” لو کان بعدی نبی لکان عمر”
اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمر نبی ہوتا ♦️جس کے قبول اسلام کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کیں
اللھم اعز الاسلام بعمر ابن الخطاب او۔۔۔
اے اللہ عمر بن خطاب کے( قبول اسلام) ذریعے اسلام کو عزت دے
♦️جن کے قبول اسلام کے بعد کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز پڑھنا ممکن ہوا
♦️جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر وقلبه وھو الفاروق فرق اللّٰہ به بین الحق والباطل ( طبقات ابن سعد) بیشک اللہ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری کر دیا ہے اور وہ فاروق ہیں جس کے ذریعے اللہ نے حق اور باطل کے مابین فرق کر دیا ہے
♦️جو 22 لاکھ مربع میل کا حکمران ہونے کے باوجود پیوند لگے کپڑے پہن لیتے
♦️جس نے روم اور ایران کی طاقتوں کو پاش پاش کیا قیصر و کسریٰ کے غرور کو خاک میں ملا دیا
♦️جو کھلے میدان میں سر کے نیچے اینٹ رکھ کر ننگی زمین پر بے خوف و خطر سوجائے اور غیر مسلم سفیر دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے *عدلت فامنت فنمت یا عمر” اے عمر تو نے عدل وانصاف قائم کیا تو تجھے امن نصیب ہوا اور بے خوف و خطر سکون کی نیند سویا
♦️جسے زبان نبوت سے جنت کی خوشخبریاں ملیں
♦️جو مدینے کی گلیوں میں رات کو اس نیت سے گشت کرے کہ کوئی مصیبت زدہ یا بھوکا نہ سوئے
♦️زبان نبوت سے شہادت کی خوشخبری ملے
♦️جسے آدھی دنیا کا حکمران ہونے کے باوجود یہ فکر دامن گیر ہو کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری بھوکی پیاسی مر جائے تو مجھ سے اس کی باز پرس ہوگی
♦️جس نے ایک سواری پر ایک غلام کے ساتھ باری باری سواری کر کے مدینہ سے یروشلم تک طویل سفر کرکے بیت المقدس کو آزاد کروایا
♦️جس کی رائے کو اللہ تعالی نے پسند فرما کر آیات نازل کر کے احکام بنادیے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’إِذَا رَأَیْتُمُ الَّذِیْنَ یَسُبُّوْنَ أَصْحَابِيْؓ فَقُوْلُوْا: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ۔‘‘ (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵)

’’ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو: خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں (یعنی صحابہؓ اور تم) میں سے بدتر ہیں۔‘‘
ظاہرہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو اُن کو برا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابیؓ کو برا کہنے والا مستحقِ لعنت قرار دیا گیا ہے۔
♦️قارئین کرام:شرفِ صحابیت وھبی ہے کسبی نہیں یعنی کوئی شخص عبادت اور ریاضت کے بل بوتے پر صحابی نہیں بن سکتا یہ اللہ تعالی کی عطا ہے
جن خوش نصیب ہستیوں کو یہ سعادت نصیب ہوئی وہ باقی لوگوں سے ممتاز ہو گئے۔یہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ جماعت ہے جنہیں دنیا میں ہی جنت اور رضوان الٰہی کی خوشخبریاں نصیب ہوئیں۔
صحابہ کرام کو تنقیص اور تنقید کا نشانہ بنانے سے منع فرما دیا گیا ہے۔ بتقاضائے بشریت اگر ان سے خطائیں سرزد ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے “رضی اللّٰہ عنھم ورضوا عنه” کے اعزاز سے بھی نواز دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں رضا و رحمت کے سرٹیفکیٹ جاری کردئیے ہیں اس لئے ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے کسی ادنٰی سے صحابی کے بارے میں بھی اپنے ذہن کے کسی نہاں خانے میں بغض اور تنقیص کا نظریہ رکھیں صحابہ کرام سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دعا ہےکہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام کی محبت میں زندہ رکھے اور روزِ قیامت ان کا ساتھ نصیب فرما دے۔ آمین ثم آمین.

✍️⁩ عبد الرحمان سعیدی

یہ بھی پڑھیں: ⁦ سیدنا عمر فاروق ؓ ایک اجمالی تعارفی خاکہ