سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
نام: عبداللہ
کنیت: ابو بکر
والد: عثمان
والد کی کنیت: ابو قحافہ
آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں مرہ بن کعب پہ جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے ایمان لانے والے اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
الالقاب: صدیق، عتیق اور الاتقی
صدیق:
واقع اسراء و معراج کی تصدیق کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق کے لقب سے نوازا تھا۔
“وَالَّذِىۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَصَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ” [سورة الزمر: 33]
«اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ بچنے والے ہیں»
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
“الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيۡقًا” [سورة النساء: 69]
«جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں»
عتیق:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنَ النَّارِ فَيَوْمَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا.”
تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیا گیا۔ [سنن الترمذي: 3679]
الاتقی:
“وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ ۞ الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰىۚ” [سورة الليل: 17,18]
«اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔ جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔»
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام:
آپ رضی اللہ عنہ مردوں میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے ، مندرجہ ذیل آیت کے اول ترین مصداق تھے۔
“وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ” [سورة التوبة: 100]
«اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے»
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل:
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں۔
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا” [سورة التوبة: 40]
اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
(2) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
”أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا فَتَبِعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَضَرَبَهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ” (سنن الترمذي: 4651)
«نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے پھر آپ کے پیچھے ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم بھی چڑھے، تو وہ ان کے ساتھ ہلنے لگا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے مارا اور فرمایا: ٹھہر جا اے احد ! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں»
(3) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا لِأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلَّا وَقَدْ كَافَيْنَاهُ مَا خَلَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِيهِ اللَّهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا أَلَا وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ.
کسی کا ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جسے میں نے چکا نہ دیا ہو سوائے ابوبکر کے، کیونکہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیں اللہ ہی دے گا، کسی کے مال سے کبھی بھی مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے، اگر میں کسی کو خلیل “گہرا دوست” بنانے والا ہوتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا، سن لو تمہارا یہ ساتھی “یعنی خود” اللہ کا خلیل ہے۔ [سنن الترمذي: 3661]
(4) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غیر موجودگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کے ایمان کے حق میں گواہی دینا:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
“بَيْنَمَا رَاعٍ فِي غَنَمِهِ عَدَا عَلَيْهِ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً فَطَلَبَهُ الرَّاعِي فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ: مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِي، وَبَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً قَدْ حَمَلَ عَلَيْهَا فَالْتَفَتَتْ إِلَيْهِ فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَتْ: إِنِّي لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا وَلَكِنِّي خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ، قَالَ: النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِذَلِكَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا” [صحيح البخاري: 3663]
«ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ بھیڑیا آگیا اور ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کرلے جانے لگا۔ چرواہے نے اس سے بکری چھڑانی چاہی تو بھیڑیا بول پڑا۔ درندوں والے دن میں اس کی رکھوالی کرنے والا کون ہوگا جس دن میرے سوا اور کوئی چرواہا نہ ہوگا۔ اسی طرح ایک شخص بیل کو اس پر سوار ہو کرلیے جا رہا تھا، بیل اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ میری پیدائش اس کے لیے نہیں ہوئی ہے۔ میں تو کھیتی باڑی کے کاموں کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ وہ شخص بول پڑا۔ سبحان اللہ! (جانور اور انسانوں کی طرح باتیں کرے) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں ان واقعات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بن خطاب بھی»
(5) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے بلانا:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا، قَالَ: نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ.
جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہوگا اسے باب الريان سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر ؓ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ [صحيح البخاري: 1897]
(6) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آسمان سے اصلاح:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسطح کو روزمرہ کا خرچہ دیتے تھے ۔ جب سیدنا مسطح واقع افک میں شامل ہوگئے تو ابوبکر کا دل دکھا پھر سیدنا ابوبکر صدیق نے یہ فیصلہ کیا کہ آج کہ بعد مسطح کا خرچہ بند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے وحی اتار کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اصلاح فرمائی ہے۔ اے ابوبکر ! آپ نے مسطح کی کفالت نہیں چھوڑنی ہے۔
وَلَا يَاۡتَلِ اُولُوا الۡـفَضۡلِ مِنۡكُمۡ وَالسَّعَةِ اَنۡ يُّؤۡتُوۡۤا اُولِى الۡقُرۡبٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ۖ وَلۡيَـعۡفُوۡا وَلۡيَـصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَـكُمۡ ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ. [سورة النور: 22]
اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخشے اور اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
(7) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب:
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَعَدَّ رِجَالًا” [صحيح البخاري: 3662]
“نبی کریم ﷺ نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا (عمرو ؓ نے بیان کیا کہ) پھر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ سے میں نے پوچھا، اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے۔ میں نے پوچھا، اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب سے۔ اس طرح آپ ﷺ نے کئی آدمیوں کے نام لیے”
(8) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کسی بھی کام کے لیے اپنے ساتھ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کا نام لینا :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“لِأَنِّي كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: كُنْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَفَعَلْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ” [صحيح البخاري: 3677]
“میں اکثر رسول اللہ ﷺ کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکر اور عمر تھے ، میں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا ، میں اور ابوبکر اور عمر گئے”
(9) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ عَاصِبٌ رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ، فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ مِنْ أَبِي بكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنْ خُلَّةُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ سُدُّوا عَنِّي، كُلَّ خَوْخَةٍ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرَ خَوْخَةِ أَبِي بَكْرٍ” [صحيح البخاري: 467]
«رسول اللہ ﷺ اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے۔ سر پہ پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ منبر پر بیٹھے، اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا، کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس نے ابوبکر بن ابوقحافہ سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو اور اگر میں کسی کو انسانوں میں سے جانی دوست بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا۔ لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے۔ دیکھو ابوبکر ؓ کی کھڑکی چھوڑ کر اس مسجد کی تمام کھڑکیاں بند کردی جائیں»
(10) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انفاق فی سبیل اور توکل علی اللہ:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ عِنْدِي مَالًا، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، قَالَ: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ ، قُلْتُ: مِثْلَهُ، وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟ قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَسْبِقُهُ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا” [سنن الترمذي: 3675]
«رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میں) کہا: اگر میں ابوبکر ؓ سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر ؓ وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا: ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے (اپنے جی میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا»
(11) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اعمال میں سبقت:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
“مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مِسْكِينًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْكُمْ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ” [صحيح مسلم: 1028]
’’آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟‘‘ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں، آپ نے پوچھا: ’’آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟‘‘ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: میں نے، آپﷺ نے پوچھا:” تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟‘‘ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
سیدنا ابو بکر کے خاندان کے فضائل:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی چار نسلیں صحابیت کے شرف سے بہراور ہیں۔ اس طرح کا کوئی اور صحابی جس کی چار نسلیں صحابیت کے شرف سے بہراور ہوں تاریخ میں صحیح سند کے ساتھ نہیں ملتا ہے ۔ ابوبکر کے والد بھی صحابی، ابوبکر خود بھی صحابی، بیٹا بھی صحابی اور پوتا بھی صحابی ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان کے بارے میں سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو کہا تھا۔
”فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ لِعَائِشَةَ: جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ ذَلِكِ لَكِ وَلِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ خَيْرًا” [صحيح البخاري: 336]
«سیدنا اسید بن حضیر نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کو اللہ بہترین بدلہ دے۔ واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فرما دی»
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول:
(1) سیدنا جبیر بن مطعم فرماتے ہیں۔
“أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ، فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ، كَأَنَّهَا تُرِيدُ الْمَوْتَ، قَالَ: إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ” (صحيح البخاري: 7220)
«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خاتون آئیں اور کسی معاملہ میں آپ سے گفتگو کی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ وہ دوبارہ آپ کے پاس آئیں۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو پھر آپ کیا فرماتے ہیں؟ جیسے ان کا اشارہ وفات کی طرف ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر کے پاس آئیو»
(2) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
“رَأَيْتُ النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ فِي صَعِيدٍ فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِي بَعْضِ نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ ثُمَّ أَخَذَهَا عُمَرُ فَاسْتَحَالَتْ بِيَدِهِ غَرْبًا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا فِي النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ، وَقَالَ هَمَّامٌ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَعَ أَبُو بَكْرٍ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ” (صحیح البخاری: 3634)
«میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک میدان میں جمع ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ابوبکر ؓ اٹھے اور ایک کنویں سے انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی بھر کر نکالا، پانی نکالنے میں ان میں کچھ کمزوری معلوم ہوتی تھی اور اللہ ان کو بخشے۔ پھر وہ ڈول عمر رضی اللہ عنہ نے سنبھالا۔ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی وہ ایک بڑا ڈول ہوگیا میں نے لوگوں میں ان جیسا شہ زور پہلوان اور بہادر انسان ان کی طرح کام کرنے والا نہیں دیکھا انہوں نے اتنے ڈول کھینچے کہ لوگ اپنے اونٹوں کو بھی پلا پلا کر ان کے ٹھکانوں میں لے گئے۔ اور ہمام نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے بیان کر رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دو ڈول کھینچے»
اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی مدت تھوڑی ہوگئی ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت زیادہ ہوگئی اور اسلام تیزی سے پھیلے گا۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمادیا تھا کہ اللہ اور مؤمن ابوبکر کے علاوہ کسی کو خلیفہ نہیں مانیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
”لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ وَأَعْهَدَ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ يَتَمَنَّى الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ يَأْبَى اللَّهُ وَيَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ يَدْفَعُ اللَّهُ وَيَأْبَى الْمُؤْمِنُونَ” (صحیح البخاری: 5666)
«میرا ارادہ ہوتا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں خلافت کی وصیت کر دوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں کہ خلافت ہمارا حق ہے یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں کہ ہم خلیفہ ہوجائیں پھر میں نے اپنے جی میں کہا اس کی ضرورت ہی کیا ہے خود اللہ تعالیٰ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کو خلیفہ نہ ہونے دے گا نہ مسلمان اور کسی کی خلافت ہی قبول کریں گے»
(4) محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں کہ
قُلْتُ لِأَبِي أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ، قَالَ: ثُمَّ خَشِيتُ أَنْ أَقُولَ: ثُمَّ مَنْ؟ فَيَقُولَ: عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ يَا أَبَةِ، قَالَ: مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ. [سنن ابي داؤد: 4629]
«میں نے اپنے والد علی بن ابی طالب ؓ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون تھا؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ؓ، میں نے کہا: پھر کون؟ پھر عمر ؓ، پھر مجھے اس بات سے ڈر ہوا کہ میں کہوں پھر کون؟ اور وہ کہیں عثمان ؓ عنہ، چناچہ میں نے کہا: پھر آپ؟ اے ابا جان! وہ بولے: میں تو مسلمانوں میں کا صرف ایک فرد ہوں»
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
“اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ” [سنن الترمذي: 3662]
«اقتداء کرو ان دونوں کی جو میرے بعد ہوں گے، یعنی ابوبکر و عمر کی »
تحریر: افضل ظہیر جمالی