تعارف حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

حضرت امیر معاویہ کا نام ’’معاویہ‘‘ اور کنیت ’’عبدالرحمان‘‘ ہے۔ آپ کا نسب اپنے والد کی طرف سے پانچویں پشت میں حضور نبی کریم ؐ سے مل جاتا ہے۔ حضرت معاویہ (ابو عبدالرحمان) بن صخر (ابو سفیان) بن جرب بن امیہ بن شمس بن عبد مناف اور والدہ کی طرف سے بھی آپ کا نسب پانچویں پشت میں رسولِ کریم ؐسے مل جاتا ہے۔
لہٰذا امیر معاویہؓ نسبی لحاظ سے حضور نبی کریم ؐکے قریبی اہل قرابت میں سے ہیں۔حضرت امیر معاویہ ؓنبی محمد مصطفی کے سسرالی رشتہ دار بھی ہیں۔ ان کی ہمشیرہ اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہؓ آپؐ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ یہ حضرت امیر معاویہؓ کی بہن ہیں۔ لہٰذا امیر معاویہؓ کا رسولِ کریمؐ سے دوہرا رشتہ ہے۔ نسبی اور سسرالی۔
حضرت امیر معاویہؓ اعلانِ نبوت سے ۸ سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ صلح حدیبیہ کے دن ۷ھ میں اِسلام لائے۔ غزوہ حنین میں وہ شریک تھے اور حضور اکرم ﷺ نے انہیں مال غنیمت سے ایک سو اُونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی عطا فرمائی۔حضرت ابو بکر ؓ کے دورِ خلافت میں ملک شام کی طرف لشکر روانہ ہوا۔ بعد ازیں حضرت امیر معاویہؓ کے بھائی یزید بن ابو سفیان کو ملک شام کا حاکم بنایا۔ امیر معاویہ اپنے بھائی یزید کے ساتھ ملک شام چلے گئے۔ جب یزید بن ابو سفیان فوت ہونے لگے تو اُنہوں نے اپنی جگہ امیر معاویہ کو حاکم مقرر کر دیا۔ یہ تقرر حضرت عمر فاروقؓ کے دَور میں ہوا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے اِس تقرر کو برقرار رکھا۔ حضرت امیر معاویہ خلافتِ فاروق اعظم اور خلافت حضرت عثمانؓ میں اِسی گورنری کے عہدے پر فائز رہے اور بیس سال تک زمام حکومت سنبھالے رکھا۔
حضرت امیر معاویہ نہایت دیانتدار‘ سخی‘ سیاستدان‘ قابل حکمران اور صحابی تھے۔ دونوں خلفائے راشدین حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ ان سے خوش رہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے اُنہوں نے اپنی ذمہ داری اور خوش اَسلوبی سے اَدا کی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ‘ حضرت ابو سعید خدریؓ‘ حضرت جریرؓ‘ حضرت نعمان بن بشیرؓ‘ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت ابن زبیرؓ اور تابعین میں سے حضرت ابو سلمہ اور حمید عبدالرحمان کے بیٹے‘ عروہ‘ سالم‘ علقمہ بن وقاص‘ ابن سیرین اور قاسم بن محمد نے حضرت امیر معاویہؓ کا زمانہ پایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت عثمان غنی ؓ کے خون بدلہ میں نزاع پیدا ہو گیا۔ یہ نزاع خلافت و امارت سے نہ تھا بلکہ اس کا سبب یہ ہوا حضرت امیر معاویہؓ کی رائے تھی کہ حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں کو جلد سزا دی جائے تاکہ اُن کا فتنہ ختم ہو۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک فی الفور اُن کی گرفت کرنے میں زیادہ فتنے کا اِحتمال تھا۔ اِس لئے آپ کے نزدیک اِس معاملہ میں تاخیر بہتر تھی۔ اِس کے بعد حضرت امیر معاویہ شام کے مستقل امیر بن گئے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد پانچویں خلیفۂ راشد حضرت امام حسنؓ خلیفہ بنے مگر چھ ماہ بعد امام حسن کی دست برداری کے بعد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھم نے صلح کر لی۔
حضرت امیر معاویہ کاتب وحی اور کاتب خطوط بھی تھے۔ حضور جو پیغامات سلاطین کو ارسال فرماتے تھے وہ امیر معاویہ سے لکھواتے تھے۔ حضرت معاویہ رسولِ کریمؐ کے اَمین تھے۔
صحیح بخاری کتاب الجہاد میں کئی جگہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ حضرت اُمّ حرام بن ملحان ؓ (جو حضرت انس ؓ کی خالہ لگتی ہیں) کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے وہ آپؐ کو کھانا کھلاتیں۔ ایک مرتبہ رسول کریم ؓ اُن کے پاس تشریف لے گئے اُنہوں نے آپ کو کھانا کھلایا۔بعد ازیں آپؐ آرام فرمانے کے لئے لیٹ گئے اور کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے جاگے۔ حضرت اُم حرام ؓ فرماتی ہیں‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ آپ ؐ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا: میں نے خواب میں اپنی اُمّت کے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے وہ سمندر میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اِس طرح سوار ہیں گویا بادشاہ ہیں تختوں پر یا جیسے بادشاہ تخت پر سوار ہوتے ہیں۔
حضرت اُمّ حرامؓ ہی فرماتی ہیں‘ میں نے رسولِ کریم ؐسے سنا آپ ؐفرماتے تھے ’’ میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر پر سوار ہو کر جہاد کرے گا اُس پر جنت واجب ہو گئی‘‘۔ حضرت اُم حرامؓ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا میں بھی اُن میں شامل ہوں گی؟ تو آپ ؓنے فرمایا: ہاں! تو بھی اُن میں ہوگی۔ یہ جہاد ۲۸ھ؁ کو حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ہوا جس کے امیر حضرت معاویہؓ تھے۔ یہ جہاد جزیرہ قبرص کو فتح کرنے کے لئے ہوا۔ اِس میں اُمّ حرامؓ شامل تھیں۔ اِس لشکر کے لئے آپ ؓ نے جنتی ہونے کی بشارت دی۔
حضرت عبداللہ بن مبارک (جو دین کے سرداروں اور فقہاء اُمّت میں سے ہیں) ان سے پوچھا گیا حضرت امیر معاویہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز تو آپ نے جواب دیا‘ وہ غبار جو حضور ؐ کے ساتھ حضرت امیر معاویہ کے گھوڑے کے ناک میں داخل ہوا وہ کئی درجے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے افضل ہے۔
حضرت امیر معاویہ ۲۲ رجب المرجب ۶۰ ہجری میں ۷۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔
اے اللہ! جہاں بھی تیرے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ عظیم صحابی استراحت فرما ہیں ان کی تربت پہ کروڑوں رحمتیں نازل فرما۔
آمین ثم آمین یارب العالمین

(خادم القرآن قاری محمد عبداللہ عزام)

یہ بھی پڑھیں: قاری عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ کا تعارف