جدید سائنس کے تصورِ علم میں حقیقت کی تلاش اور شناخت کا ایک ہی حتمی ذریعہ ہے اور وہ ہے تجربہ (Experiment)۔ اس سے قبل اندازے (Assumptions)، مفروضے (Hypotheses) اور خام مواد تو ہوتا ہے لیکن کسی حقیقت میں ڈھلنا تجربے کی تصدیق کا محتاج ہوتا ہے۔ تجربے کے لیے لازم ہے کہ وہ چیز تجربے کے لیے دستیاب بھی ہوا گر وہ دستیاب نہ ہو تو اس کو بس نظریہ سازی(Theorization) تک محدود رکھا جا سکتا اس کو حقیقت تسلیم کرنا سائنسی تصویر علم میں ممکن نہیں۔ طبعی کائنات تک اگر یہ اصولِ علم محدود رہتا تو شاید علمی تصادم کی صورت حال پیدا نہ ہوتی مگر مغرب نے اس اصولِ علم کو آفاقی اور ابدی اصولِ علم باور کر کے جب اس کا اطلاق دینیات، اخلاقیات اور تاریخ و سماجیات پر بھی کیا تو ان علوم کی شناخت اور بقا ہی معرض خطر میں آگئی۔ لیکن بہت دل چسپ بات یہ ہے کہ مذہب و اخلاق کو اعتقاد (Dogmas) میں گرفتار قرار دینے والی سائنس خود ایک عقیدے کے طور پر تسلیم کرنے اور کروانے لگی کہ “حقیقت صرف تجربی ہوتی ہے”۔ حالانکہ ضروری تھا ( اور ہے ) کہ تجربہ کی حقیقت و ماہیت، وسعت و محدودیت اور اس کی آفاقیت و حتمیت خود زیر بحث لاکر پہلے اس کو اپنی اساسیات کے اعتبار سے اسے آفاقی و حتمی اصول علم ثابت کیا جاتا۔ اصولِ تجربہ پر اگر غور کیا جائے تو درج ذیل امور عقلاً اس کی حتمیت و آفاقیت کو رد کر دیتے ہیں : ا۔ تجربہ کے لیے دستیاب اشیا زمانہ حاضر سے تعلق رکھتی ہوں گی۔ ماضی کی تمام اشیاء کا استقرا اور تجربہ ممکن نہیں۔ جب ماضی کی اشیا کا تجربہ ممکن نہیں تو موجود پر غیر موجود کا قیاس اور موجود کو غیر موجود کا تسلسل قرار دینا تجربی نہیں عقلی مسئلہ ہے۔ اس لیے ماضی کے بارے میں سائنس کی کوئی بھی بات تھیوری ہی رہے گی کبھی تجربی حقیقت نہیں بن سکتی۔
۲۔ تجربہ کے لیے دستیاب اشیا سے ماخوذ معلومات کو مستقبل کے لیے قابل اطلاق ماننا بھی عقلی استدلالی اساس پر ممکن ہے نہ کہ تجربی اساس پر۔ تجربہ موجود کا ہے اور اجراء آنے والے اشیا پر کرنا یہ عقلی جہت سے تو مانا جا سکتا ہے لیکن تجربی جہت سے قابل تسلیم نہیں۔ مثلاً ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے بننے والا پانی مستقبل میں ایسا ہی بنتار ہے گا یہ قیاسی واستدلالی بات تو ہو سکتی ہے تجربی نہیں۔ زمان و مکان کی تبدیلی سے قوانین فطرت میں تبدیلی نہیں ہوتی یہ سائنسی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ تجربہ اس پر کیسے گواہ ہو سکتا ہے جہاں تک رسائی نہیں ہوئی۔ ۔ پانی کی صرف ایک نوع ہے اور مستقبل میں بھی یہی نوع جاری رہے گی۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن کے خاص مالیکیولز کا ملاپ مستقبل میں بھی ایسے ہی پانی تشکیل دیتا رہے گا۔ اس کو پیشین گوئی کہہ سکتے ہیں، مستقبل بینی کہہ سکتے ہیں ، دستیاب معلومات کی بنیاد پر کسی فطری قانون کے اجرا کا قوی امکان کہہ سکتے ہیں لیکن بہر حال یہ تجربہ نہیں ہے۔ اس لیے مستقبل کا کوئی دعوی تجربی یا سائنسی“حقیقت نہیں ہے۔
۵۔ نیوٹن کے دریافت کرده قوانین ، آئین سٹائن کے دریافت کردہ قوانین اور جدید الیکٹرو ڈائنامکس کے قوانین نے ثابت کر دیا کہ سائنس جن قوانین کو حتمی و آفاقی قرار دیا کرتی تھی ان کی حتمیت و آفاقیت کی اس نے خود تردید کر دی۔ صدیوں ”مادہ فنا نہیں ہوتا“ کا دعوی کرنے والی سائنس، اب کہتی ہے کہ نہیں، انرجی میں بدل جاتا ہے“۔ کمال ہے ”مادہ کی ازلیت و اہدیت یعنی خدائی کادعوی کیا اور صدیوں مذہب سے محاذ آرائی کی اور پھر ایک دم ”حقیقت بدل گئی۔ لیکن پھر بھی دعویٰ سائنس کی حتمیت کا۔ ۶۔ نیوٹن نے قانون تجاذب یا کشش ثقل (Law of Gravity) جب دریافت کیا تو کیا وہ پہلے سے اس کائنات میں جاری وساری اور موجود تھا یا مین اسی وقت یک لخت پیدا ہوا جب نیوٹن نے دریافت کیا ؟ یقیناً پہلے سے موجود تھا اور نیوٹن نے اسے دریافت کیانہ کہ تخلیق کیا۔ اب سوال یہ ہے قانون تجاذب اپنے معلوم ہونے سے پہلے ”نامعلوم حقیقت تھا یا غیر موجود “؟ اگر غیر موجود تھا تو دریافت ہونے کا کیا مطلب؟ اور اگر موجود تھا لیکن نا معلوم تھا تو ثابت ہوا کہ سائنس کی معلومات سے باہر تو نہ جانے طبیعاتی کائنات کی کتنی حقیقتیں ابھی باقی ہیں اور مابعد الطبیعاتی حقیقتوں تک تو اس کی رسائی کا امکان ہی نہیں۔ یہی حال تمام سائنسی دریافتوں کا ہے۔ جیسے اہل سائنس یا تو یہ دعوی کریں کہ بیکٹیریا پہلے موجود نہیں ہوتے تھے جب ہم نے خوردبین سے دیکھا تو پھر ”حقیقت“ بنے ، ورنہ وہ موجود ہی نہیں تھے۔ اول تو اہل سائنس یہ احمقانہ دعوی کریں گے نہیں اور کریں گے تو مانے کا کون ؟ نامعلوم حقیقوں کو غیر موجود کہہ کر انکار کا رویہ غیر عقلی ہے۔ ہم اہل مذہب کہتے ہیں کہ ہمیں کم و بیش ایک لاکھ چوالیس ہزار بچے لوگوں کے ذریعے تسلسل کے ساتھ یہ یقینی خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے فرشتوں کو دیکھا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں سائنس کہتی ہے کہ چوں کہ ہم نے نہیں دیکھا اس لیے ہم نہیں مانتے۔ کیا شان دار دلیل ہے۔ گویا سائنس کسی چیز تک رسائی نہ ہونا، کسی چیز کو دیکھ نہ پانا، کسی چیز کے بارے میں معلومات نہ ہونا، اس کا بات کا ثبوت ہے کہ وہ وجود ہی نہیں رکھتی؟
اہل علم جدید سائنس کے تجربی اصول حقیقت کو موضوع بحث بنائیں اور اس کو استدلال و برہان پر پرکھیں۔ مذہب اور سائنس کی مطابقت کے پیراڈائم کا از سر نو جائزہ لیں اور ان دونوں کی اساسیات سے باہم موازنہ کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچیں نہ کہ بعض جزوی اور ظاہری مشابہتوں کو مرکزی حیثیت دے کر ان دونوں کو ایک اصل سے جڑے ہوئے سمجھیں۔ اور اس کا بھی جائزہ لیا جائے کہ مذہب اور سائنس کے مابین مطابقت قائم کرنا کیا واقعی علمی ضرورت ہے یادونوں مختلف دائرہ ہائے کار میں اپنے اپنے اصولوں پر بلا تصادم اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر عثمان احمد