سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:1)
🔸آپ کا اسمِ گرامی: حسینؓ
🔸کنیت: ابوعبداللہ
لقب: ’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ لسانِ نبوت سے ملے القاب ہیں۔
🔸 آپ کا شجرہ نسب:
’’حسین بن علي بن أبي طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم القرشي الہاشمي۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸/۱٦٠)
🔸آپ کی والدہ ماجدہ سیدۃ النساء فاطمہ بنت رسول اللہ
اور والد ماجد امیر المومنین خلیفہ راشد سیدنا علی ؓ بن ابی طالب ہیں۔
🔸آپ کی تاریخِ پیدائش میں مؤ رخین کے مختلف اقوال ہیں: تاریخ ابن کثیر میں ۳ ،٤ اور ٦ہجری کا قول درج ہے، جبکہ شاہ معین الدین ندویؒ نے ٤ ہجری اور مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ نے ۵ ہجری لکھا ہے۔
زبیر بن بکار سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سیدنا حسین بن علی 5 شعبان 4 ہجری کو پیدا ہوئے تھے۔
(سیدنا حسین ؓ ۔۔ از ڈاکٹر الصلابی ص:122)
سیدہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی گود جب سبطِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا ﷺ بنفسِ نفیس تشریف لائے، اپنے نومولود کو اپنے دست ِمبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعابِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام ’’حسین‘‘ رکھا۔ (ابن کثیر:۸/۱٦٠)۔
نیز رسولِ اکرم ﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔ (مستدر کِ حاکم، رقم:٤۸۲١۔ المعجم الکبیر: ۹۲٦)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپ کے سر کے بال ترشوائے اور اس کے ہم وزن چاندی صدقہ فرمائی۔ ساتویں روز دو مینڈے ذبح کر کے عقیقہ کیا اور ایک روایت کے مطابق اسی روز ان کا ختنہ بھی کرا دیا۔۔۔(ابو داؤد حدیث: 2841… سیدنا حسین ؓ از ادریس فاروقی ص:69)
مستدرک للحاکم میں مفصل روایت ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یکے بعد دیگرے اپنے تین بیٹوں کانام ’’حرب‘‘ رکھتے رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرماکر بالترتیب حسن، حسین اور محسّن رکھا اور فرمایا کہ میں نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے صاحبزادوں شبیر، شبر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم:٤٧٧٣۔ اسدالغابہ: ۱/٤٩٦)
حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: “میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سیدہ فاطمہ ؓ کے ہاں جناب حسین ؓ کے پیدا ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان کہی۔ (سنن ترمذی:١٥١٤)
سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:2)
* حلیۂ مبارک:
آپ کا بدن مبارک حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کے مشابہ تھا۔ (جامع الترمذی، رقم:۳۷۷۹۔ البدایۃ والنہایۃ، اسدالغابۃ)۔
مولانا محمد ادریس فاروقی رح اپنی تصنیف لطیف “سیدناحسین ؓ ” میں آپ کے سراپا کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں:
“جسم مبارک سینہ سے ٹخنوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا تھا۔ چہرہ خوبصورت تھا اور اس سے وجاہت ٹپکتی تھی۔ آنکھوں میں چمک تھی۔ نگاہ میں رعب تھا۔ پلکیں گھنی اور لمبی تھیں دانت مقطر، سفید اور چمکیلے تھے۔ دہن نہ زیادہ تنگ نہ زیادہ چوڑا، ہونٹ متوسط اور نیم گلابی، پیشانی کشادہ، ناک اونچی، بھویں ہلالی، کانوں پر باریک روئیں، گردن مضبوط، داڑھی بڑی اور گھنی، مونچھیں کتراتے تھے۔
لب و ریش کی وضع جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب وریش مبارک جیسی تھی۔ قد میانہ تھا۔ رنگ نہ تو بالکل گندمی تھا نہ بہت سفید۔ جوانی میں رخساروں پر سرخی جھلکتی تھی، لیکن بعد میں عمر کے لحاظ سے قدر کمی واقع ہو گئی، سر کے بال گاہے کترا دیتے تھے گاہے رکھ لیتے تھے، لیکن سنت طریقہ کے مطابق بال رکھتے۔ سینہ پر بال تھے مگر بہت گھنے نہ تھے شانے کشادہ اور موٹے۔ اعضائے بدن بہت متناسب اور گوشت سے گتھے ہوئے جن سے قوت، ہمت، جرات اور شجاعت نمودار ہوتی تھی۔ اپنے والد معظم رضی اللّٰہ عنہ کی طرح جھوم کر چلتے تھے۔ یہ رفتار عرب میں شریفانہ اور شجاعانہ سمجھی جاتی تھی۔ دست و پا میں مضبوطی اور پختگی تھی۔ آپ کو دیکھ کر دبدبہ پیدا ہوتا تھا”….. (صفحہ:153)
باغِ نبوت کے اس عظیم پھول سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت سے قبل ہی بذریعہ خواب پیدائش کی بشارت دے دی گئی تھی۔
مستدرک للحاکم (رقم الحدیث:٤٨١٨) میں ہے کہ
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت ام فضل سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ! رات میں نے عجیب خواب دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیسا خواب ہے؟
عرض کی: بہت سخت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہے وہ؟ عرض کی: میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے بدن کا کوئی ٹکڑا کٹ کر میری گود میں آگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر بیان فرمائی کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے، فاطمہ کے ہاں بچہ پیدا ہوگا، وہ تمہاری گود میں ہوگا (تم اُسے دودھ پلاؤ گی)،
چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، تو میری گود میں آئے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔
سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:3)
ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حسینؓ کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گو د میں ڈال دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے رواں تھیں۔ حضرت امِ فضل رضی اللہ علیہ عنہا نے عرض کی: اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کو کیا ہوا ہے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے خبردی کہ میری اُمت میرے اس بیٹے کو شہید کردے گی۔ میں نے عرض کی: کیا یہ بات ہے؟ آپؓ نے فرمایا: ہاں! اور وہ میرے پاس اس کی (خون آلود) سرخ مٹی کا کچھ حصہ بھی لائے ہیں۔‘‘۔
آپ رضی اللہ عنہ خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول تھے، جس ماحول میں آپؓ نے پرورش پائی، اس سے پاکیزہ اور اچھے ماحول کا تصور ممکن ہی نہیں ہے، چنانچہ آپؓ اخلاق، اعمال، صوم و صلاۃ، حج و زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، اُمورِ خیر اور عبادات،
وقار، شائستگی، تواضع اور استقلالِ رائے میں اپنی مثال آپ تھے۔ اخلاقی عظمت کے اعتبار سے اسی بلند درجہ پر فائز تھے جو آپ کے شایان شان تھا۔
* چنانچہ نامور تذکرہ نگار ابن الاثیر نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے عمومی اخلاق و عادات اور خصائل کی طرف اجمالی طور پر یوں اشارہ کیا ہے : وکان الحسین رضی الله عنه فاضلا کثیر الصوم والصلوة والحج والصدقة و افعال الخیر جمیعا ۔ (ابن الاثیر، اسدالغابہ، 2: 23)
’’حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بڑی فضیلت کے مالک، کثرت سے روزہ، نماز، حج ادا کرنے والے، صدقہ دینے والے اور تمام افعال خیر سرانجام دینے والے تھے‘‘۔پہل کرنے والا جنت میں پہلے جانے والا ہوگا)‘‘۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ حضرت سیدنا حسن اور حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہما دونوں بھائیوں کے درمیان باہمی کوئی جھگڑا اور بات چیت بند ہے تو میں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگ تم دونوں بھائیوں کو اپنا مقتدا سمجھتے ہیں اور تم آپس میں قطعی تعلقی کرکے بیٹھے ہو لہذا آپ اٹھیے اور اپنے بھائی کے پاس جاکر ان سے بات چیت کیجئے کیونکہ آپ ان سے عمر میں چھوٹے ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی کہ السابق السابق الی الجنۃ (بول چال میں سبقت کرنے والا جنت میں بھی سبقت لینے والا ہوگا) تو میں ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا مگر میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ میں ان سے پہلے جنت میں داخل ہوں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے یہ مخلصانہ جذبات سن کر میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور انہیں مذکورہ بات چیت سے آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا: صدق اخی (میرے بھائی نے سچ کہا) اس کے بعد کھڑے ہوگئے اور اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے گفتگو کی اور یوں دونوں بھائیوں کے درمیان صلح ہوگئی۔(محب الدین الطبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی)۔
سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:4)
تفقہ فی الدین:
سیدنا حسین ؓ علوم الٰہیہ و نبویہ میں جو بلند مقام رکھتے تھے اس کے لیے صرف یہی لکھ دینا کافی ہے کہ جس ہستی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت حاصل کی ہو جس کو وہ ابوبکر ؓصدیق، عمر فاروق ؓ، عثمان ذوالنورین ؓ اور علی مرتضٰی ؓ نے تعلیم دی ہو۔۔۔اور جس نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی فاضلہ عالمہ سے استفادہ کیا ہو وہ ہستی دینی اور دنیاوی علوم میں کیونکر تشنہ رہ سکتی تھی۔ آپ یقیناً علم و عرفان کے گہوارہ تھے بعض لوگ علم و عرفان پر ناز کرتے ہیں مگر علم عرفان کو آپ پر ناز تھا۔
جب بھی کوئی مشکل اور پیچیدہ مسئلہ آپ کے سامنے آتا تو صحابہ کرام کی طرح آپ کو اس کو کلام الہی کی رہنمائی میں حل کرتے یا حدیث و سنت سے مدد لیتے ہیں آپ اعلی درجے کے صاحب عقل و فہم و عقل تھے۔بلا کی ذکاوت و ذہانت رکھتے تھے اس لیے کسی عقدے اور کسی مسئلے کی تہہ تک پہنچنے اور شریعت کے بحر زخار کی غواصی کرنے میں آپ کو زیادہ دیر نہ لگتی تھی فوراً دماغ کی صلاحیتیں الجھی ہوئی گتھی کو سلجھا دیتی تھیں۔
“مؤرخ فریدی لکھتے ہیں: حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے تفقہ کا یہ حال ہے کہ جونہی ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا آپ اس کو قرآن عظیم سے معلوم کرتے۔ اگر نہ ملتا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے اگر پھر بھی کامیابی نہ ہوتی تو صحابہ کرام کے اثار، اقوال اور قضایا سے تلاش فرماتے”
(سیدنا حسین ۔۔۔۔از مولانا ادریس فاروقی رح ص:125)
*جود و سخا:
سیدنا حسین ؓ بھی اپنے نانا جان اور اپنے والد اور اپنی والدہ اور صحابہ کرام کی طرح بہت مخیر، جواد اور سخی تھے۔محتاجوں کے لیے آپ کا دست کرم بہت کھلا رہتا تھا۔ کسی سوالی کو خالی لوٹانا برا سمجھتے تھے۔ ضرورت مندوں کو ان کی حاجت سے زیادہ دیتے تھے۔ بھوکوں کو روٹی بے لباسوں کو کپڑا ناداروں کو روپیہ دینے میں انہیں خاص لطف آتا تھا۔ کوئی قرضدار ہوتا تھا تو آپ اس کا قرض ادا کر دیتے۔ یتیموں اور مسکینوں کی پرورش فرماتے، ضعیفوں اور بیواؤں کی مدد کرتے اور جس وقت آپ کو کوئی رقم وغیرہ ملتی وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر کے قرار پاتے۔
بقولِ سعدی
جواں مرد و خوش خلق بخشندہ باش
چوں حق برتو پاشد تو بر خلق پاش
“جوانمرد اور خوش خلق، سخاوت کرنے والے بنو۔
جس طرح اللہ نے تم پر اپنی نعمتیں نچھاور کی ہیں، تم بھی لوگوں پر نچھاور کرو۔”
ایک دفعہ کسی سفر میں ایک غریب عورت نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کی خاطر بکری کا گوشت بھون کر آپ کی خدمت میں پیش کیا پھر جب وہ مدت کے بعد کسی کام سے مدینہ منورہ آئی تو حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے ایک ہزار درہم اور ایک ہزار بکریاں عطا فرما دیں”.(بحوالہ: حسین۔۔ سب کا ص:104/صواعق محرقہ)
* شجاعت بہادری:
سیدنا حسین ؓ فاتح خیبر کے نورِ نظر تھے کہ جس کی ہیبت سے نامی گرامی پہلوان اور بڑے بڑے بہادر لرز جاتے تھے آپ اپنے والد گرامی کے اوصاف و کمالات کا پرتو تھے۔ آپ نے جن جنگوں میں شرکت کی اللہ تعالی نے اسلام اور مجاہدین اسلام کو ان میں فتح و نصرت عطا فرمائی۔ سیدنا حسین ؓ نہایت جری اور حوصلہ مند تھے، بڑے نڈر تھے دل میں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں رکھتے تھے۔
سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:5)
فضائل و مناقب:
سیدنا حسین ؓ کی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ آپ نواسۂ رسول، جگر گوشہ سیدۃ نساء اھل الجنۃ اور شیرِخدا رضی اللہ عنہ کے لختِ جگر اور رتبۂ صحابیت پر فائز ہیں، جو اس حسب و نسب کی فضیلت کو باعثِ نجاتِ اُخروی بنادیتا ہے۔
سیدنا حسین ؓ شہیدِ کربلا رضی اللہ عنہ اپنے نانا حضرت محبوب ِ رب العالمین کی محبتوں، شفقتوں اور توجہات کے محور و مرکز رہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ان لاڈلوں سے اُلفت و موانست اور لاڈ وپیار بے مثال ہے۔
* حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد مبارک فرمایا:
’’الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الجَنَّۃِ۔‘‘
(سنن الترمذی: ۳۷٤٨)
ترجمہ: ’’ حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
* نیز ارشاد ِ نبوی ہے:
ترجمہ: ’’ابن ابی نعیمؒ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا، ایک شخص نے آپ ؓ سے مچھر کے خون کے بارے میں دریافت کیا (کہ اگر محرم کے لباس کو لگ جائے تو کیا حکم ہے؟) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ: اہلِ عراق میں سے ہوں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس شخص کو دیکھو! یہ مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھ رہا ہے، حالانکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے (نواسے) کو شہید کرڈالا، میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: یہ (حسن و حسین) دونوں میرے دنیا کے پھول ہیں۔‘‘
(صحیح البخاری، رقم: ٣٧٥٣)
* حضرت حسین رضی اللہ عنہ ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں کہ آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیتِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔ (اسدالغابہ:٤٩٦/١)
* حضرت ابوہریرہ ؓروایت فرماتے ہیں کہ:
’’جناب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے باہم کشتی کا کھیل کھیل رہے تھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: حسن! شاباش! جلدی کرو۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عرض کرنے لگیں: آپ حسن کو ہی کیوں شاباشیاں دے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: حسین کو جبریل امین کہہ رہے ہیں کہ شاباش حسین! جلدی کرو۔‘‘ ۔‘
* (جامع الترمذی میں ہے کہ ’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے کسی کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ نے کچھ اوڑھا ہوا تھا، معلوم نہیں کیا تھا، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو میں نے عرض کیا کہ: یہ کیا ہے جو آپ نے اُٹھا رکھا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہٹایا تو حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ کی پشت مبارک پر تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، ا ے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں، پس تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرما جو اِن دونوں سے محبت رکھے۔
سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:6)
فضائل و مناقب:
* حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
’’رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: حسن و حسین سے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہt کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔‘‘ (ترمذی: ۳۷۷۲)
* حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ: اچانک حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سرخ قمیصوں میں ملبوس گرتے پڑتے آرہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اُترے، دونوں حضرات کو اُٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ’’إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ۔‘‘ (تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہے) میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے ہوئے آرہے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں گیا، حتیٰ کہ میں نے اپنی گفتگو روک کر اُنہیں اٹھایا۔‘‘ (جامع ترمذی: ۳۷۷۴)
* یعلیٰؓ بن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں (لہٰذاحسین سے محبت مجھ سے محبت ہے اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے) اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی: ۳۷۷۵)
* “ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر یا عصر کی نماز کے لیے تشریف لائے اور آپ نے اپنے لاڈلوں حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنہما میں سے کسی کو اٹھایا ہوا تھا، آپ امامت کے لیے آگے بڑھے تو دائیں پاؤں کی جانب نواسے کو بٹھادیا، پھر سجدہ کیا اور لمبا سجدہ کیا۔ حضرت شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے سر اوپر کیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سجدے میں ہیں اور بچہ آپ کی پشت پر سوار ہے، میں دوبارہ سجدے میں لوٹ گیا، آپ نے (نماز سے فارغ ہوکر) رخ پیچھے موڑا تو لوگوں نے عرض کی کہ: یارسول اللہ! آپ نے اپنی نماز میں آج جیسا سجدہ کیا ایسا سجدہ پہلے کبھی نہیں فرمایا، کیا کسی چیز کا حکم ہوا ہے یا کوئی وحی نازل ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، لیکن میرا بیٹا مجھ پر سوار تھا تو میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ اُسے جلدی اُتار دوں۔‘‘ (المستدرک للحاکم، رقم:٤٧٧٥)
* حضرت یعلٰی عامری ؓ سے مروی ہے کہ:
’’ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوتِ طعام پر گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے ، آپ نے دیکھا کہ حسین بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑناچاہا تو وہ ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (اُن کو پکڑنے کے لیے دوڑ کر) خوش طبعی کرنے لگے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ اُن کی گدی پر رکھا اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور ان کے دہنِ طیب پر اپنا دہن مبارک رکھ کر چومنے لگے اور فرمایا کہ: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرے۔‘‘( سیدنا حسین ؓ از ڈاکٹر الصلابی ص:19 ۔۔۔فضائل الصحابہ امام احمد ٢/٧٧٢، المستدرک للحاکم، رقم:٤۸۲۰) ۔
عبدالرحمن سعیدی