سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:1)

🔸آپ کا اسمِ گرامی: حسینؓ
🔸کنیت: ابوعبداللہ
لقب: ’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ لسانِ نبوت سے ملے القاب ہیں۔
🔸 آپ کا شجرہ نسب:
’’حسین بن علي بن أبي طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم القرشي الہاشمي۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸/۱٦٠)
🔸آپ کی والدہ ماجدہ سیدۃ النساء فاطمہ بنت رسول اللہ
اور والد ماجد امیر المومنین خلیفہ راشد سیدنا علی ؓ بن ابی طالب ہیں۔
🔸آپ کی تاریخِ پیدائش میں مؤ رخین کے مختلف اقوال ہیں: تاریخ ابن کثیر میں ۳ ،٤ اور ٦ہجری کا قول درج ہے، جبکہ شاہ معین الدین ندویؒ نے ٤ ہجری اور مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ نے ۵ ہجری لکھا ہے۔
زبیر بن بکار سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سیدنا حسین بن علی 5 شعبان 4 ہجری کو پیدا ہوئے تھے۔
(سیدنا حسین ؓ ۔۔ از ڈاکٹر الصلابی ص:122)
سیدہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی گود جب سبطِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا ﷺ بنفسِ نفیس تشریف لائے، اپنے نومولود کو اپنے دست ِمبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعابِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام ’’حسین‘‘ رکھا۔ (ابن کثیر:۸/۱٦٠)۔
نیز رسولِ اکرم ﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔ (مستدر کِ حاکم، رقم:٤۸۲١۔ المعجم الکبیر: ۹۲٦)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپ کے سر کے بال ترشوائے اور اس کے ہم وزن چاندی صدقہ فرمائی۔ ساتویں روز دو مینڈے ذبح کر کے عقیقہ کیا اور ایک روایت کے مطابق اسی روز ان کا ختنہ بھی کرا دیا۔۔۔(ابو داؤد حدیث: 2841… سیدنا حسین ؓ از ادریس فاروقی ص:69)
مستدرک للحاکم میں مفصل روایت ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یکے بعد دیگرے اپنے تین بیٹوں کانام ’’حرب‘‘ رکھتے رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرماکر بالترتیب حسن، حسین اور محسّن رکھا اور فرمایا کہ میں نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے صاحبزادوں شبیر، شبر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم:٤٧٧٣۔ اسدالغابہ: ۱/٤٩٦)
حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: “میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سیدہ فاطمہ ؓ کے ہاں جناب حسین ؓ کے پیدا ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان کہی۔ (سنن ترمذی:١٥١٤)

سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ (قسط:2)

* حلیۂ مبارک:
آپ کا بدن مبارک حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کے مشابہ تھا۔ (جامع الترمذی، رقم:۳۷۷۹۔ البدایۃ والنہایۃ، اسدالغابۃ)۔
مولانا محمد ادریس فاروقی رح اپنی تصنیف لطیف “سیدناحسین ؓ ” میں آپ کے سراپا کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں:
“جسم مبارک سینہ سے ٹخنوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا تھا۔ چہرہ خوبصورت تھا اور اس سے وجاہت ٹپکتی تھی۔ آنکھوں میں چمک تھی۔ نگاہ میں رعب تھا۔ پلکیں گھنی اور لمبی تھیں دانت مقطر، سفید اور چمکیلے تھے۔ دہن نہ زیادہ تنگ نہ زیادہ چوڑا، ہونٹ متوسط اور نیم گلابی، پیشانی کشادہ، ناک اونچی، بھویں ہلالی، کانوں پر باریک روئیں، گردن مضبوط، داڑھی بڑی اور گھنی، مونچھیں کتراتے تھے۔
لب و ریش کی وضع جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب وریش مبارک جیسی تھی۔ قد میانہ تھا۔ رنگ نہ تو بالکل گندمی تھا نہ بہت سفید۔ جوانی میں رخساروں پر سرخی جھلکتی تھی، لیکن بعد میں عمر کے لحاظ سے قدر کمی واقع ہو گئی، سر کے بال گاہے کترا دیتے تھے گاہے رکھ لیتے تھے، لیکن سنت طریقہ کے مطابق بال رکھتے۔ سینہ پر بال تھے مگر بہت گھنے نہ تھے شانے کشادہ اور موٹے۔ اعضائے بدن بہت متناسب اور گوشت سے گتھے ہوئے جن سے قوت، ہمت، جرات اور شجاعت نمودار ہوتی تھی۔ اپنے والد معظم رضی اللّٰہ عنہ کی طرح جھوم کر چلتے تھے۔ یہ رفتار عرب میں شریفانہ اور شجاعانہ سمجھی جاتی تھی۔ دست و پا میں مضبوطی اور پختگی تھی۔ آپ کو دیکھ کر دبدبہ پیدا ہوتا تھا”….. (صفحہ:153)
باغِ نبوت کے اس عظیم پھول سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت سے قبل ہی بذریعہ خواب پیدائش کی بشارت دے دی گئی تھی۔
مستدرک للحاکم (رقم الحدیث:٤٨١٨) میں ہے کہ
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت ام فضل سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ! رات میں نے عجیب خواب دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیسا خواب ہے؟
عرض کی: بہت سخت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہے وہ؟ عرض کی: میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے بدن کا کوئی ٹکڑا کٹ کر میری گود میں آگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر بیان فرمائی کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے، فاطمہ کے ہاں بچہ پیدا ہوگا، وہ تمہاری گود میں ہوگا (تم اُسے دودھ پلاؤ گی)،
چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، تو میری گود میں آئے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔

عبدالرحمن سعیدی

یہ بھی پڑھیں: واٹس ایپ استعمال کرنے کے چند آداب