1۔ کچھ اہلِ علم نے جب دیگر علماء کو اپنی تصنیفات کا حصہ بنایا تو اس کے ضمن میں اپنے والد کا بھی تذکرہ کیا جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے والد ’’اسماعیل رحمہ اللہ‘‘ کا، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنے والد ’’عمر‘‘ کا، علامہ شوکانی رحمہ اللہ اپنے والد ’’علی‘‘ کا، ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اپنے والد ’’ابو حاتم رازی رحمہ اللہ‘‘ کا، تاج الدین سبکی رحمہ اللہ نے اپنے والد ’’تقی الدین سبکی رحمہ اللہ‘‘ کا اور ابن ابی یعلی رحمہ اللہ نے اپنے والد ’’قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ‘‘ کا تذکرہ کیا ہے ۔ (صفحة : ٦)
2۔ اسی طرح بعض اہلِ علم نے اپنے والد گرامی کے حالاتِ زندگی پر مکمل تالیفات بھی لکھیں، جیسا کہ ابن القاضی عیاض نے اپنے والد قاضی عیاض رحمہ اللہ کی، احمد بن عبد الرحیم عراقی رحمہ اللہ نے اپنے والد عبد الرحیم عراقی رحمہ اللہ کی اور امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے صالح نے اپنے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی سیرت پر کتاب لکھی ۔
شیخ عبد المحسن القاسم حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اسی نہج پر چلتے ہوئے میں نے اپنے والد گرامی رحمہ اللہ سیرت لکھی۔‘‘ (صفحة : ٦)
3۔ شیخ محمد ابن قاسم رحمہ اللہ جب لکھنا پڑھنا سیکھ چکے اور ابتدائی مدرسے میں ہی تھے کہ ان کے والد شیخ عبد الرحمن رحمہ اللہ نے ہاتھ پکڑ کر انہیں وہاں سے یہ کہہ کر نکال لیا کہ میں آپ کو محض کاتب نہیں بلکہ عالم دیکھنا چاہتا ہوں ۔ (صفحة : ١٢)
4۔ آپ رحمہ اللہ جب چھ سال کی عمر میں علم کے حصول کے لیے شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کے پاس ان کے حلقۂ درس میں شامل ہونے کے لیے گئے تو انہوں نے پوچھا: ’’کیا آپ قرآن کے حافظ ہیں؟‘‘ جواب نفی میں پا کر فرمایا: ’’میرے درس میں شمولیت کے لیے قرآن مجید کا حافظ ہونا شرط ہے ۔‘‘ تو شیخ رحمہ اللہ نے صرف آٹھ ماہ میں قرآن حفظ کر لیا۔ (صفحة : ١٢)
5۔ شیخ محمد ابن قاسم رحمہ اللہ نے سات سال کی عمر میں آغاز کیا اور مسلسل سنتیس سال تک شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے کسبِ فیض کیا ۔ آپ نہایت زُود نویس تھے، درس میں جو کچھ بھی سنتے اسی طرح لکھتے جاتے ۔ (صفحة : ١٥ – ١٦)
6۔ دورانِ درس اپنے شیخ کی جو بات بھی سنتے بغیر کسی تبدیلی کے حرف بحرف لکھتے جاتے، لکھتے لکھتے اگر کاغذ ختم ہوجاتا تو اپنے بازوؤں پر لکھ لیا کرتے ۔ کئی کتب کی شروحات بار بار لکھتے رہے، ’’شرح واسطیہ‘‘ آٹھ مرتبہ، ’’شرح کشف الشبہات‘‘ چھ مرتبہ، ’’شرح اربعین نوویہ‘‘ چار مرتبہ، ’’شرح روض المربع‘‘ تین مرتبہ اور ’’شرح آداب المشی الی الصلاۃ‘‘ دو مرتبہ لکھی ۔ (صفحة : ١٧ – ١٨)
7۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے شرح کا کوئی حصہ چھوٹ جاتا تو خالی جگہ چھوڑ کر اپنا عذر لکھ دیتے، مثلا : درس میں چھوڑنے کے لیے کوئی گاڑی نہیں ملی، سیاہی ختم ہو گئی، چراغ بُجھ گیا، لیمپ بند ہو گیا، لائٹ چلی گئی ۔ (صفحة : ١٨)
8۔ آپ رحمہ اللہ مسلسل سنتیس سال تک اپنے شیخ کے درس میں روزانہ آٹھ گھنٹے شریک ہوتے رہے اور اُن کی شروحات مدون کرتے رہے، چار گھنٹے کے دورانیے میں بھی پورے درس کے دوران ایک ہی حالت میں بیٹھے رہتے۔ پندرہ سال تک تو صرف چراغ کی روشنی تلے لکھتے رہے پھر بجلی آئی تو شروع میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ (صفحة : ١٩ – ٢٠)
9۔ شیخ صالح ابن غصون، شیخ عبد اللہ ابن غدیان، شیخ عبد الرحمن براک وغیرہم رحمہم اللہ وحفظہم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کا علم شیخ محمد ابن القاسم رحمہ اللہ کے ذریعے محفوظ کر دیا ہے ۔ (صفحة : ٢٨)
10۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کو بھی اپنے اس شاگرد سے خصوصی لگاؤ تھا، دورانِ درس توقف کرتے تاکہ وہ آسانی سے لکھ لیں، اگر کبھی ضروری کام سے باہر جاتے تو ان کے واپس آنے پر شیخ رحمہ اللہ ان کی غیر موجودگی میں کی گئی شرح کو ایک مرتبہ پھر دہرا دیتے، بیمار ہوئے تو اپنے گھر لائبریری میں ٹھہرایا اور دیکھ بھال کے لیے بندہ مقرر کیا۔ (صفحة : ٢٩)
11۔ آپ رحمہ اللہ نے جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’تأسيس الجهمية‘‘ کی تحقیق مکمل کی تو طباعت کے سلسلے میں شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ انہیں اپنے ساتھ لے کر شاہ فیصل رحمہ اللہ کے پاس گئے اور انہوں نے اس کی طباعت کا پروانہ جاری کر دیا ۔ (صفحة : ٣٠)
12۔ جب شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے اپنے تمام شاگردوں کو مختلف مناصب پر مقرر کیا تو شیخ محمد ابن قاسم کو فرمایا کہ میں آپ کو بھولا نہیں بلکہ آپ کو ایسی جگہ مقرر کرنا چاہتا ہوں جو واقعی آپ کے لائق ہو۔ تو انہوں نے عرض کی کہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتاوی جمع کرنے میں اپنے والد گرامی کی مدد اور آپ کی شروحات کو شائع کرنے کے لیے اپنا سارا وقت مختص کرنا چاہتا ہوں ۔ (صفحة : ٣١)
13۔ آپ رحمہ اللہ اپنے استاذِ گرامی سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے، ایک دفعہ اُن کی رفاقت میں حج کے لیے نکلے، الگ گاڑی میں تھے، کسی جگہ لمبا انتظار کرنے پر بھی شیخ نہ پہنچے تو بیٹھ کر رونے لگے، جب شیخ رحمہ اللہ پہنچے تو لپک کر انہیں سلام کرنے گئے ۔ انہوں نے شاگرد کی آواز سے محسوس کر لیا کہ وہ رو رہے تھے ۔ (صفحة : ٣٢)
14۔ شیخ عبد المحسن حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں نے جب بھی والد گرامی کو خوش کرنا ہوتا تو عرض کرتا کہ اپنے استاد گرامی کے متعلق کچھ بتائیں تو وہ بہت جلد خوش ہو جاتے اور اُن کے متعلق باتیں کرنے لگتے۔‘‘ (صفحة : ٣٢)
15۔ آپ رحمہ اللہ اپنے استاذِ مکرم کے فتاوی کی طباعت کے سلسلے میں مسلسل آٹھ سال تک ہر ہفتے اٹھارہ سو کلو میٹر کا سفر طے کر کے ریاض شہر سے مکہ مکرمہ جاتے رہے ۔ (صفحة : ٣٣)
(جاری ہے ۔)

 حافظ محمد طاہر