شادی بیاہ نہایت ضروری اور نازک معاملہ iے یہ بچوں کا کھیل نہیں، جسے جب چاہا بنایا اور جب چاہا ختم کر دیا۔ اس کے لیے تجربے کاروں کے تجربے سے فایدہ اٹھانا ناگزیر ہے، تاکہ آگے چل کر پچھتانا نہ پڑے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے ماں باپ اور مخلص اساتذہ وغیرہ اس بابت سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں،لیکن ہمارے زمانے میں پیار محبت کو کچھ اس انداز سے لوگوں کے ذہنوں تک پہنچایا گیا ہے کہ اللہ کی پناہ!
ایک تو مختلف حربوں سے نوجوانوں کے جذبات برانگیختہ کیے گئے، پھر ان کی تکمیل کے جائز و ناجائز طریقوں کو اس انداز سے پیش کیا گیا کہ وقت سے پہلے اس کے حصول کے لیے وہ بے تاب ہو جائیں اور شادی کو محض تمتع اور جسمانی حظ اٹھانے کا وسیلہ بتایا گیا۔یہ ایک المیہ ہے کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں عریانیت، فحاشی، جسمانی بے راہ روی جیسے سیکڑوں مسائل کے آنکھوں کے سامنے ہونے کے باجود ہم ان سے آنکھیں ملانے تک کے لیے تیار نہیں۔ سنیما اور ٹی وی والے جو بات جس طرح چاہتے ہیں ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں تک منتقل کرتے ہیں اور ہمارے پاس نوجوانوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے گویا چند اختلافی مسائل کے سوا کچھ ھے ہی نہیں…. اسی کا نتیجہ ھے کہ موجودہ نوجوان نسل ایک ایسی ڈگر پر چل نکلی ہے، جس میں اسے اپنی نفسانی خواہشوں کے سامنے اپنے مخلصین کا پیار بھی ہیچ لگنے لگتا ہے۔
سرپرستوں کی صواب دید اور ان کی مرضی کے خلاف محض اپنی پسند سے وہ شادی رچانا جو شرعی حدود وقیود کے مخالف ہو وہ عموماً سفلی جذبات سے مغلوب ہونے ، حیوانی تقاضوں کے آگے ہتھیار ڈال دینے اور حیا کو پامال کرنے کے مرادف ہے، جس کا انجام عموماً ناکامی و پریشانی کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا یے۔
اس کے برخلاف وہ شادی جو شرعی قوانین کے مطابق اور سرپرستوں کی پسند اور بڑوں کے رائے مشورے سے جو کام کیے جاتے ہیں ان میں اللہ کی رحمت اور بڑوں کی دعائیں شاملِ حال رہتی ہیں اور ایسی شادی حقیقت میں خانہ آبادی کا ذریعہ بنتی ہے،جس کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس لیے درست رویہ یہی ہے کہ لڑکی یا لڑکا والدین اور بڑوںکی رضامندی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور والدین بھی اپنی اولاد کی رضا و رغبت کا خیال رکھیں نیز اپنی پسند کی شادی کی نوبت عام طور سے تب ہی آتی ہے جب کہ لڑکا لڑکی کا بار بار اختلاط وغیرہ بھی ہوتا رہا ہو اور وہ با قاعدہ رلیشن شپ (Relation Ship)میں رہے ہوں، جو کہ خود کبیرہ گناہ یے۔
لیکن یہاں ایک بات ذکر کیے دیتا ہوں کہ عموماً لڑکے کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ شرع نے اس کو خود کفیل بنایا ھے لیکن عموماً والدین راضی کیوں نہیں ہوتے کیونکہ وہ کہیں اور کرنا چاہتے ہیں کبھی برادری کا مسلہ کبھی دولتی کالچ اور کبھی ناجانے کیا کیا سوچا جاتا ھے لیکن اگر لڑکا والدین کی رضا کے بغیر کرتا یے تو یقینا یہ شادی بالاتفاق درست ہو گی ان شاء اللہ
لیکن اگر والدین کے تحفظات صحیح ہوں جن کو شرع بھی تسلیم کرے تو پھر لڑکے کا قدم بڑھانا درست نہیں ہو گا…..
ایک استاذ کہا کرتے تھے کہ شریعت میں ایک ہدایت تو اولاد کے لیے ہے وہ یہ کہ والدین کی اطاعت کریں
ایک ہدایت والدین کے لیے ہے کہ جب اولا بڑی ہو جائے تو اس کی طبیعت کے خلاف اس پر جبر نہ کیا جائے، ہاں مشورہ دے دیا جائے ، پس اگر اولاد اور ماں باپ اپنے اپنے متعلق ہدایات پر عمل کریں تو صحیح زندگی گزرے،
لیکن اولاد کو یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ والدین کو اپنی اولاد سے طبعی محبت ہوتی ہے، وہ فطرتاً اس کے خیر خواہ ہوتے ہیں، اپنے نزدیک بہتر جگہ شادی کرتے ہیں،البتہ یہ ممکن ہے کہ اولاد کی مرضی کسی دوسری جگہ ہو اور وہ اپنی پسند میں خیر سمجھے، والدین اپنی پسند میں خیر سمجھتے ہوں تو والدین کو چاہیے کہ وہ اولاد کی رضا کو ترجیح دیں کیونکہ زندگی انہوں نے گزارنی ھے اور یہ رضا شرعی احکامات کے عین مطابق ہو…. اکثر دیکھا گیا ھے کہ والدین اپنی ہی پسند پر اولاد کو منوانا چاہتے ہیں میں یہی کہوں گا کہ والدین کو اصرار نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ اولاد کی رغبت کو اختیار کر لیں، ورنہ اندیشہ ہے کہ نباہ نہ ہو اور سب ذمے داری والدین پر عائد ہو جائے، ایسی ضد نہ کریں۔
عموماً تو یہ دیکھنے کو ملتا ھے کہ ماں اپنے رشتے داروں میں کرنا چاہتی ھے اور والد صاحب اپنے بہن بھائیوں میں کرنا چاہتے ہیں دونوں میں لفظی جنگ جاری رہتی ھے اور بچاری اولاد درمیان میں ڈبل مائنڈ ہو جاتی ھے ماں کی مانے تو باپ ناراض اور اگر باپ کی مانیں تو ماں ناراض…. اس لیے والدین کو بچوں کی رضا دیکھنا ہو گی اگر تو درست ھے تو اسے تدبروتفکر کے بعد حتمی شکل دے دیں…
اگر والدین ایسی جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں’ جہاں لڑکے کی طبیعت بالکل آمادہ نہیں اور وہ جانتا ہے کہ حقوقِ زوجیت ادا نہیں کر سکے گا، نباہ نہیں ہوگا، جو کہ والدین کے لیے بھی کوفت کا سبب بنے گا، اس مجبوری سے وہ وہاں شادی سے انکار کر دے تو ان شاء اللہ وہ نافرمانی کا گنہگار نہیں، مگر نرمی سے والدین کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے پوری بات اُن کے سامنے پیش کردے ، پھر بتادے کہ فلاں جگہ شادی کرنا مناسب ہے ، گو خود بھی ایجاب وقبول سے نکاح ہوجائے گا، مگر والدین کے مشورہ سے اور اُن کے انتظام سے ہو، تو اُن کے لیے زیادہ خوشی کی بات یے۔
جبکہ لڑکی کے لیے والد کی رضا لازم یے یعنی باپ ولی ہوتا ھے اور یہ دینی قاعدہ مسلمہ ھے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا… اب یہاں والدین کو دیکھنا چاہیے کہ بیٹیوں کی رضا کیا یے کسی کا اچھا لگ جانا یہ کردار سے گرے ہوئے کی علامت نہیں ہوتی بلکہ فطرت سلیمہ یے لیکن کیا مجال یے موجود معاشرے میں شریف بیٹی باپ کو یہ کہہ سکے کہ ابو فلاں مجھے اہنے لیے صحیح لگتا یے اب اپ اپنی تحقیق کر لیں…
اسلام کا بھی یہی اصول ھے کنواری سے پوچھا جائے گا کہ اس کی رضا بھی شامل حال یے کہ نہیں؟
لو میرج اس اعتبار سے درست ہے کہ لڑکے یا لڑکی کو کوئی اچھا لگے تو وہ بنا ناجائز تعلق بنائے والدین تک اپنے دل کی بات کو بیان کرے اور والدین تحمل سے بیٹی یا بیٹے کی بات کو سنیں اور اپنی تحقیق کے بعد اچھے برے کا نتیجہ اخذ کر لیں.

لیکن یہاں ایک سوال جو اکثر مجھ سے کیا جاتا ھے کہ ایک نظر دیکھنے سے انسان اچھا لگنے لگے تو اس بارے کیسے پتا چلے گا یہ کیسا یے کیسا مزاج ھے لہذا کچھ عرصہ تعلق رہے گا تو ہی اس کا پتا چلے گا
اس کا جواب یہ ھے کہ اس بات کی کیا دلیل یے کہ کچھ عرصہ تعلق رہنے کے اپ ایک دوسرے کو ہمسفر بنا لیں گے/گیں؟؟

دوسرا کچھ وقت تعلق رہنے کے بعد کسی ایک بات سے ریلیشن ختم ہو جائے اور ہمیشہ کے لیے راہیں جدا ہو جائیں تو کچھ عرصہ تعلق رہنے کو کیا نام دیا جاے گا؟؟؟؟
أولاد نےپسند بتا دی ھے اب یہ کام والدین کا ھے انہیں کو کرنا چاہیے کہ مزید تحقیق کر لیں..
خلاصہ یہ کہ بالغ اولاد کی رضامندی نکاح کے لیے شرط ھے اس لیے والدین کے لیے یہ جائز نہیں کہ بالغ اولاد کو اس کی مرضی کے خلاف پر مجبور کریں، لیکن اگر بالغ لڑکے اور لڑکی نے اپنی خواہش کے خلاف والدین کی تجویز کو قبول کرلیا اور اس کی منظوری دے دی تو نکاح ہوجائے گا، اور اگر لڑکے یا لڑکی نے نکاح کو قبول نہیں کیا تو نکاح نہیں ہوگا۔لیکن آج کل لڑکے اور لڑکیاں جو اپنی پسند کے رشتے کرنا چاہتے ہیں، ایک طرف بعض اوقات وہ والدین کی مرضی اور ان کے مشورے کو بالکل ہی نظر انداز کردیتے ہیں، دوسری طرف بعض والدین بچوں کے لیے ایسے رشتوں کا انتخاب کرتے ہیں جوخود ان کے انتخاب کے بالکل ہی برخلاف ہوتے ہیں، یہ دونوں رویّے اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کے جذبات و احساسات اور حقوق و حدود کا لحاظ رکھنا چاہیے ۔شرعاً رشتہ نکاح کے معاملے میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے والدین کی مرضی کا خیال رکھنا لازم یے البتہ ایسا کرنے میں حقوقِ زوجیت وغیرہ ہی پامال ہونے کا گمان غالب ہو تو اس بابت ان کی رضامندی کے بغیر بھی مناسب جگہ نکاح کرنے کا جواز ھے الحمدللہ…

کامران الہی ظہیر