سوال (3376)

شادی پر گانے اور موسیقی کی وجہ سے وہ کھانا جو اس موقع پر پکایا جاتا ہے تو اس کھانے کا کیا حکم ہے، کیا یہ کھانا حرام ہے یا حلال ہے؟

جواب

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے تھے کہ حرام چیز حلال کو حرام نہیں کرتی ہے، موسیقی اور طبلے وغیرہ سب حرام ہیں، میوزیکل پروگرام حرام ہے، باقی کھانا حلال کے پیسوں سے بنا ہے اور کھانا حلال جانور سے بنا ہے تو اس کو ہم حرام نہیں کہہ سکتے، باقی یہ ہے کہ کوئی اس سے پرہیز کرتا ہے کہ سامنے والے کو تنبیہ ہو جائے، باقی اس پر حرمت کا فتویٰ نہیں دیا جاتا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس میں ایک چیز کا اضافہ کروں گا کہ ہمارا دیندار طبقہ اس میں سستی کرتا ہے، وہ طوعاً اور کرھاً بیٹھ جاتے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے پروگراموں کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہیے۔ اگر ہم اس طرح تھوڑی ہمت کریں تو ان کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں، میں خود اس طرح کے پروگراموں سے واپس آیا ہوں، اس سے برائی کا راستہ رک سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

فی نفسہ حرام تو کچھ ہی چیزیں ہیں جیسے خنزیر کا گوشت وغیرہ۔
لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو فی نفسہ تو حلال ہوتی ہیں مگر کچھ قرائن اسکو حرام بنا دیتے ہیں۔
مثلا مرغی کا گوشت حلال ہے مگر اگر ذبح نہ کیا جائے یا پھر غیر اللہ کے نام پہ ذبح ہوں یا حرام کی کمائی سے ہو وغیرہ۔
انہیں دوسری قسم میں کچھ قرائن میں قرینہ حالیہ بھی ہوتا ہے جیسے فعل یا مفعول وغیرہ کو حذف کرنے کے حالیہ یا قالیہ قرینے ہوتے ہیں۔
پس مذکورہ سوال میں پوچھا گیا کھانا تو فی نفسہ حلال ہے لیکن وہاں ایک حالیہ قرینہ پایا جاتا ہے جس کا قرآن میں بھی دو جگہ ذکر ہے ایک میں ہے کہ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِض عنھم
کہ حرام کے کاموں والی محفل میں نہ بیٹھیں ورنہ انہیں کی طرح تصور ہوں گے۔
دوسری میں یے۔

وقد نزل عليكم في الكتاب أن إذا سمعتم آيات الله يكفر بها ويستهزأ بها فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره إنكم إذا مثلهم

پس فی نفسہ شادی کا کھانا حرام نہیں مگر یہ حالیہ قرینہ اسکو وہاں بیٹھ کر کھانا حرام کر دیتا ہے۔
ہاں اسکو کوئی پیک کر کے آپکے گھر بھیج دیتا ہے یا علیحدہ کسی کمرہ یا جگہ میں آپکو دیا جاتا ہے تو کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ شادی کے گانے سے کھانا حرام نہیں ہوتا وہ پھر بھی کھایا جا سکتا ہے حرام وہاں بیٹھنا ہے یعنی ہم نے اس حالیہ قرینے کو ختم کرنا ہے جس کو قرآن نے بیان کیا ہے۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

سائل: جس کھانے پر ختم دیا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: عمومی طور ختم بدعت کہلاتا ہے، قرآن کی کچھ آیات کو جمع کیا جاتا ہے، ان کو پڑھا جاتا ہے، اور اس کے بعد یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ختم ہوگیا ہے، یہ بدعت ہے، اگر غیر اللہ کے نام پر ہے تو حرام ہو جائے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بدعت والا کھانا بھی کئی قرائن قولیہ کی وجہ سے نہیں کھانا چاہیے۔ لیکن فی نفسہ وہ کھانا بھی حرام نہیں جیسے گانے والی شادی کا کھانا اپکے گھر بھیج دیا جائے تو آپ کھا سکتے ہیں ۔کیونکہ وہ جو کھانے کو حرام کرنے والا قرینہ تھا وہ ختم ہو گیا۔
اب ختم کے کھانے پہ بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آپکے گھر بھیج دیں تو قرینہ ختم ہو گیا تو آپ کھا سکتے ہیں لیکن یہ قیاس مع الفارق ہو گا۔
کیونکہ وہاں حالیہ قرینہ تھا جو گھر کھانا بھیجنے سے ختم ہو گیا مگر ختم کے کھانے میں قولیہ قرینہ ہے جو صرف تب ختم ہو سکتا ہے ۔اگر کھانا لانے والے کو سمجھایا جائے اور وہ کہے کہ جی مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے سمجھ آ گئی میں اب نہیں کروں گا تو وہ قولیہ قرینہ جو احادیث سے ثابت ہے۔ اب وہ ختم ہو جائے گا اور اب آپ کھانا کھا سکتے ہیں۔
یہاں ہمارے ہاں بہت بڑی غلطی کی جاتی ہے۔ کہ اس ختم کا کھانا گھر میں لانے پہ لے لیا جاتا ہے اس لانے والے کو سمجھایا نہیں جاتا لیکن جہالت کی انتہا دیکھیں کہ پھر وہ کھانا ردی میں ڈال دیا جاتا ہے یعنی رزق ضائع کر دیا جاتا ہے۔ بھائی وہ کھانا فی نفسہ تو حرام نہیں تھا جب آپ نے اسکو نصیحت نہیں کی اور چپ کر کے کھانا لے لیا تو جو مفسدہ تھا وہ تو آپ نے پورا کر دیا اب کھانا میں کوئی مفسدہ باقی ہی نہیں رہا الٹا ضائع کرنا مفسدہ ہے ۔
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ