سوال

میں ایک اسماعیلی (آغا خانی) فیملی میں پیدا ہوئی، پلی بڑی اور میری شادی بھی اسماعیلی فیملی میں آغا خانی لڑکے سے ہوئی آج سے 22 سال پہلے اللہ تعالی کے فضل سے میں نے اسلام قبول کیا اور میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو کہ مشرف باسلام ہے، میرے دونوں بڑے بچے یعنی ایک بیٹا اور ایک بیٹی ان کی شادیاں بھی مسلمان گھرانوں میں ہوئی ہیں، اب میری ایک بیٹی جو 15 سالہ ہے، وہ غیر شادی شدہ ہے۔

میرا سوال ہے کہ اس 22 سال میں بھی میرے شوہر مسلمان نہیں ہوئے اور آج بھی آغاخانی مذہب کو فالو کرتے ہیں اور مجھے اپنے اسلامی چیزوں کی پریکٹس کرنے سے نہیں روکتے، مگر میرے شوہر کو لے کر میرے دل میں ایک خلش اور سوال ہے کہ

1. کیا میرا میرے شوہر کے ساتھ رشتہ جائز ہے یا نہیں برائے مہربانی قران و سنت کی روشنی میں مفصل جواب سے رہنمائی فرمائیں؟

2. میں خلع مانگوں گی یا مجھے طلاق لینی ہوگی؟

3. اگر وہ ایمان لے آئے تو دونوں صورتوں میں رجوع کی گنجائش کیا ہوگی؟

4. عدت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

5. عدت کے دوران صبح میں سکول ٹیچنگ کر سکتی ہوں اپنی کفالت کے لیے6. دوران عدت اگر میرے شوہر ایمان لے آئے تو قران و سنت کیا حکم دیتی ہے رجوع کرنے کے لیے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

آغا خانی، درحقیقت، اسماعیلی فرقے کے پیروکار ہوتے ہیں، جو حضرت علیؓ کے بعد امام جعفر صادقؒ کے بیٹے اسماعیل بن جعفر کو حقیقی امام مانتے ہیں۔ ان کے کئی عقائد اہل سنت اور شیعہ اثنا عشریہ سے مختلف ہوتے ہیں، جن میں چند نمایاں عقائد درج ذیل ہیں:

  1. امام کی حیثیت:

آغا خانی اپنے موجودہ امام، آغا خان، کو زندہ امام مانتے ہیں اور ان کے نزدیک امام کو دین میں ترمیم اور تشریح کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔

  1. عبادات:

آغا خانی پانچ وقتی نماز کے بجائے مخصوص اسماعیلی دعائیں پڑھتے ہیں۔ یہ زیادہ تر دین کی باطنی تشریح پر یقین رکھتے ہیں۔   مساجد کے بجائے اپنے الگ  عبادت خانوں میں جسے یہ “جماعت خانوں” کا نام دیتے ہیں، ان میں عبادت کرتے ہیں۔

  1. امام کو ایک مخصوص چندہ دیتے ہیں، جسے وہ دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔

چونکہ آغا خانی عقائد عام اسلامی تعلیمات سے بہت مختلف اور گمراہ کن ہیں، علمائے اسلام انہیں اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہٹا ہوا ایک الگ مذہبی گروہ قرار دیتے ہیں، اس لیے کسی صحیح العقیدہ مسلمان عورت کا کسی آغا خانی مرد کی زوجیت میں رہنا شرعاً درست اور جائز نہیں ہے۔

اس لیے ایک مسلمان عورت کو ایسے شخص سے فورا جدا ہوجانا چاہیے، اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے درج ذیل شرعی اصول لاگو ہوں گے: 

  1. طلاق کی صورت میں:

یہ عورت اس سے طلاق لے کر الگ ہوجائے، طلاق کی عدت تین   بار حیض ہے یا نظام  حیض میں باقاعدگی نہ ہونے کی صورت میں تین مہینے عدت کا عرصہ ہے۔

  1. خلع کی صورت میں:

عدالت سے خلع کی ڈگری حاصل کی  جائے اور اس کے بعد عدت ایک حیض (ماہواری) ہوگی۔   عدت کے دوران عورت ملازمت یا تدریسی کام جاری رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ شرعی احکام کی خلاف ورزی نہ ہو۔

  1. شوہر کے ایمان لانے کی صورت میں:

اگر شوہر سچے دل سے توبہ کرے اور اسلامی عقائد قبول کرکے مسلمان ہوجائے، تو عدت کے دوران بغیر نئے نکاح کے رجوع ہو سکتا ہے۔ عدت کے بعد، اگر دونوں دوبارہ نکاح پر راضی ہوں، تو نیا نکاح کرسکتے ہیں۔

لیکن اگر شوہر ایمان نہ لائے تو نکاح مستقل طور پر ختم ہو جائے گا، اور عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ