استاذ محترم الشیخ عبد الرشید خلیق رحمہ اللہ کے نام میرے تاثرات

ان کی ذات ایسی بے مثال تھی کہ شاید ہی میں نے زندگی میں ایسی شخصیت بطور استاد دیکھی ہو… میں نے ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی…
اور اخلاق ایسا کہ جو بھی ان کو ایک دفعہ مل لیتا تو دوبارہ ملاقات کا مشتاق ہی رہتا….
اللہ کے دیے مال میں سے خرچ بھی کھلے دل سے کیا کرتے تھے….
اور وہ خود بتایا کرتے تھے کہ مجھے اللہ نے جو عزت ومقام دیا ہے اس کا ایک سبب شاید میری یہ نیکی ہی ہو…..
وائٹ سوٹ سر پر ریڈ کیپ پہننا ان کو پسند اور ان کا معمول تھا اور ہاتھ میں بیگ اور عطر ایسا استعمال کرتے کہ جامعہ کے مین گیٹ پر پہنچتے ہی طلباء کو معلوم ہو جاتا کہ استاذ محترم تشریف لا چکے ہیں اور ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کلاس پڑھنے کے بعد جانے لگے تو علیحدگی میں میں نے وہ عطر مانگا جو استعمال کیا کرتے تھے تب مجھے وہ استعمال شدہ نہیں بلکہ اس جیسا نیو بیگ سے نکال کر دیا… کیسی محبت ہوا کرتی تھی ان کو اپنے طلباء سے جس کو الفاظ میں شاید بیان ہی نہ کیا جا سکے…. وہ اپنے شاگردوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور اپنے اساتذہ کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔
استاد محترم کی شادی نہیں ہوئی تھی… اسی لیے اپنے شاگردوں کو اپنے سگے بچوں کی طرح ٹریٹ کیا کرتے تھے اور ان سے والہانہ محبت بھی کرتے تھے۔
شیخ محترم بطور استاذ
میں کبھی اکیلا فجر صادق کے وقت بیٹھا سوچتا ہوں کہ اللہ تو نے مجھے بہت عظیم اساتذہ کی نعمت سے نوازا ہے۔
ان میں سے ایک استاذ الشیخ عبد الرشید خلیق رحمہ اللہ تھے۔
علم النحو ہو یا علم الصرف یا پھر دیگر علوم وہ ہر فن مولا تھے یہ خاصیت بھی اللہ نے ان کو عطاء رکھی تھی۔
کلاس میں سبق پڑھاتے اور پڑھانے کے بعد اسی وقت طلاب سے سنتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ طلاب کو سبق اسی وقت یاد ہو جاتا تھا اور سبق پڑھانے کے دوران ان پر سنجیدگی کا پہلو غالب ہوتا تھا لیکن کبھی کبھار مزاح بھی کر لیا کرتے تھے…

بطور استاد جو ان کی خوبی دیکھی وہ بھی قابل تعریف ہے۔
وہ یہ کہ ایک دفعہ ہماری کلاس کے چند لڑکوں کو سبق نہ آیا جس پر انہوں نے طلاب کو ڈانٹا اور ڈانٹنے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے پیسے ائے وہ ان طلاب میں تقسیم کر دیے اور ساتھ کہا کچھ فروٹ وغیرہ کھا لیں۔
ڈانٹنا ان کا حق تھا لیکن اس کے ساتھ طلباء سے جو محبت دیکھی وہ بھی قابل فخر ہے…

پھر بطور استاد ان کی یہ خوبی بھی دیکھی کہ بیگ میں ہمیشہ کچھ میٹھی چیز کھانے کے لیے ہوا کرتی تھی جیسا کہ اکثر چاکلیٹس اور کبھی بسکٹ بھی ہوا کرتے تھے اور کلاس پڑھانے کے بعد اس کو طلاب میں تقسیم کر دیتے اور ساتھ خود بھی کھاتے… واللہ وہ واقعتاً ایک ایسے استاذ تھے کہ جن کی محبت وشفقت نا قابل بیان ہے…

بطور استاذ ان کی یہ خوبی بھی دیکھی کہ سبق کے علاوہ کبھی کوئی بات نہیں کی نہ ہی کسی مسئلہ کو زیر بحث لائے…
ہاں سبق کے متعلق کبھی کبھار بات طول اختیار کر جاتی تھی جوکہ طلاب کے لیے مفید ثابت ہوتی تھی….

بطور استاذ ان کی یہ خوبی بھی دیکھی کہ کبھی ان کی زبان سے کسی دوسرے استاذ کے متعلق ایسے الفاظ یا جملے استعمال نہیں سنے جن پر شرعا کوئی قدغن ہو…..

استاذ محترم بطور میزبان

استاد محترم جامعہ میں پڑھانے کے بعد اپنے جامعہ فتحیہ جوکہ اچھرہ میں ہے وہاں چلے جایا کرتے تھے… ہم میں سے کسی کا کبھی پلان بننا کہ اج استاد محترم کو ان کے جامعہ میں ملنے جاتے ہیں تو وہاں پہنچنے پر بڑی محبت سے استقبال کرتے اور گلے لگاتے اور میزبانی میں جو میسر ہوتا وہی پیش کر دیتے… ہم جب بھی گئے ہمارے لیے فروٹس ہی ائے اور استاد محترم خود کاٹ کر اپنے شاگردوں کو دیتے تھے…..
پھر ایک اور مزے کی بات یہ بھی ہوتی تھی کہ واپسی کا کرایہ ہاتھ میں تھما دیتے باوجود اس کے ہم انکار کرتے لیکن انکار کرنے پر ہمیں ڈانٹ بھی پڑتی تھی….. ایسی میزبانی میں نے کم ہی دیکھی ہے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کی جاتی ہو….
واللہ کیسے عظیم انسان تھے….

استاذ محترم مسلک کے تناظر میں
عموما ہمارے جامعات میں یہ ہوتا کہ جس مسلک کا ادارہ ہے اسی مسلک کے اساتذہ ہوتے ہیں لیکن اگر اسلاف کی ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات شہادت ملتی ہیں کہ غیر مسلک کے معتدل مزاج اساتذہ بھی تدریس کرتے رہے ہیں…..
اسی طرح شیخ محترم دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن تقریباً 35 سال کے قریب انہوں نے تدریس جامعہ رحمانیہ لاہور میں کی یے جو کہ مسلک اہل حدیث کی مایہ ناز درسگاہ ہے….

لیکن غیر مسلک ہونے کے باوجود کبھی اج تک طلباء سے فقہی مسائل کے اختلاف پر بات نہیں کی اگر کبھی ہوئی بھی اعتدال والے موقف کو اختیار کرتے ہوئے ساتھ کچھ نصیحتیں بھی کر جاتے……
ایک دفعہ جامعہ میں پروگرام تھا اور پروگرام ظہر تک ختم ہوا تو نماز ظہر کی جماعت کا وقت ہوا تو الشیخ رمضان سلفی حفظہ اللہ نے استاد محترم کو دعوت دی کہ اپ جماعت کروائیں تو ان کو نماز رفع الیدین کے ساتھ پڑھاتے دیکھا اور نماز میں وہی اعتدال تھا جوکہ ہونا چاہیے…

ان کی زندگی سے کچھ اسباق حاصل کیے ہیں

1) انسان کا مشن بلند ہو تو محنت کرنے سے انسان کو مل ہی جاتا ہے.

2) انسان کو اعلی منصب پر فائز ہونے کے بعد اخلاق کے عمدہ دامن کو ہاتھ سے نہ جانے دے..

3) اللہ کے دیے مال سے کچھ نہ کچھ فی سبیل اللہ خرچ کرتے رینا چاہیے۔

4) اگر آپ استاذ ہیں تو شاگردوں کو اپنے بچوں کی طرح ٹریٹ کریں اور ان سے وہی محبت وپیار رکھیں جو آپ اپنے بچوں سے رکھتے ہیں….

5) دین کا کام کرنے کے لیے کوئی خاص جگہ یا اپنا ہی نظریہ رکھنے والے حلقے کی ضرورت نہیں ہوتی اگر انسان کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو غیر مسلک کے جامعہ میں عرصہ دراز سے کام کرنے کو موقع میسر آجاتا یے…

6) میزبانی کھلے دل سے کرنی چاہیے اس سے رزق میں وسعت وبرکت پیدا ہوتی ہے۔

7) جتنا ممکن ہو سکے طلباء سے علمی ومالی تعاون کرتے رہنا چاہیے اس سے انسان کے علم میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔

8) اگر اللہ نے وسائل دیے ہیں تو تحفہ وتحائف بھی دیتے رہنا چاہیے اور کوئی تحفہ مانگ بھی لے تو انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شرعا تحفہ مانگنا جائز یے۔

9) زندگی میں کچھ ہونے والے واقعات کی وجوہات کسی کے ساتھ بیان نہ کی جائیں کیونکہ بعض اوقات ان کا نہ بیان کرنا بیان کر دینے سے بہتر ہوتا ہے۔

10) زندگی میں کچھ ایسا کر کے جائیں کہ آپ کے مرنے کے بعد اپ کے ہزاروں ایسے چاہنے والے ہوں جن کا اپ سے رشتہ صرف دین کی بنیاد پر ہو اور وہ آپ کے لیے آخرت کی کامیابی کی دعائیں ہی مانگتے رہیں۔
اور اللہ ان دعاؤں کی وجہ سے اپ کا مقام بلند سے بلند کرتا جائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا کر دے۔

کامران الہی ظہیر