شیخ محمد عطاء الرحمن مدنی بھی راہی ملک بقا ہوئے۔

إنا لله و إنا إليه راجعون اللهم اغفر له و ارحمه و اعف عنه و اجعل الجنة مثواه.

مولانا رحمہ اللہ کی زندگی ہی میں ان کی حیات و خدمات پر ہمارے دوست مولانا مشتاق احمد ندوی نے ایک بھرپور اور اچھی تحریر قلم بند کی تھی، آپ دوستوں سے شیئر کر رہا ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ شیخ رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا کرے آمین

مولانا محمد عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ بھارت کے چند ایسے بزرگ علما میں سے ایک ہیں، جو اپنی گوناگوں خدمات کی بنیاد پر قومی ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ درس و تدریس، دعوت و ارشاد، افتا و قضا اور تصنیف و تالیف سے لے کر تنظیمی امور تک پھیلا ہوا ہے۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے گریجویشن کے بعد ‘دار الإفتاء ریاض’ کے داعی کی حیثیت سے افریقی ملک نائجیریا میں سالوں تک مامور رہے اور اپنی زبان و قلم سے عیسائیت، قادیانیت اور تیجانیت وغیرہ کی حقیقت سامنے لاتے رہے. بعد ازاں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے داعی کی حیثیت سے بھارت واپس آئے، جمعیت کے ناظم عمومی بنے، لمبے وقت تک اس کی مجلس عاملہ اور مجلس شوری کے ممبر رہے، مجلس تحقیق علمی کے صدر بنائے گئے اور اس نومولود شعبے کو ایک علمی وقار عطا کیا، المعھد العالی لإعداد الدعاة والمعلمين کے طلبہ کی علمی تشنگی بجھائی، مرکز ابو الکلام آزاد للتوعية الإسلامية کے ٹریزرر رہے، توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج کے لیے ایک مربی کا کردار ادا کیا اور ان تمام سرگرمیوں کے پہلو بہ پہلو عربی، اردو، انگلش، ہندی اور بنگلہ زبانوں میں پچاس سے زائد کتابیں لکھیں۔

مولانا بڑے جفاکش، دھن کے پکے اور مضبوط عزم و ارادے کے مالک انسان ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل کٹیہار ضلع کے ایک دور افتادہ اور سیلاب زدہ گاؤں گواگاچھی سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تک کا ان کا تعلیمی سفر ہے، جو غیر معمولی نشیب و فراز اور کشمکش سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے سعودی عرب کے اس سفر کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، جس کی ابتدا مادی وسائل سے تہی دستی کے عالم میں ہوئی تھی اور انتہا سمندر میں چھلانگ پر ہوئی تھی۔ اس سفر کی پوری تفصیل ان کی آپ بیتی ‘سمندر میں چھلانگ’ کے اندر موجود ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل یہ کتاب انسان کو ہمت و حوصلے کا وہ خزانہ دے سکتی ہے، جس کے ہاتھ آ جانے کے بعد مادی وسائل کا ہونا یا نہ ہونا کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتا۔

مولانا کی پیدائش ریاست بہار کے متحدہ پورنیہ ضلع اور موجودہ کٹیہار ضلع کے ایک گاؤں گواگاچھی میں، ایک اوسط درجے کے کسان پریوار میں ہوئی تھی۔ تعلیمی اسناد کے مطابق تاریخ پیدائش 5 جون 1934 ہے۔ محمد عطاء الرحمن بن محمد داؤد حسین بن ظہیر الدین منڈل بن ید اللہ منڈل۔ یہ مختصر سلسلۂ نسب ہے۔ دادا ظہیر الدین منڈل کے پاس لگ بھگ سو بیگھا زمین تھی اور ان کے سبھی بیٹے ایک مشترکہ پریوار کا حصہ بن کر ایک ساتھ رہتے تھے۔

لکھنے پڑھنے کی شروعات ہر نرائن پور ایل پی اسکول سے ہوئی۔ وہیں بنگلہ زبان سیکھی، جس میں بعد میں کئی کتابیں بھی لکھیں۔ اسکول میں تعلیم کے لیے فیس ادا کرنی ہوتی تھی اور پریوار کے لوگ اس میں آنا کانی کرتے تھے، اس لیے اسکول چھوڑ کر گاؤں کے مکتب میں پڑھنے لگے۔ لیکن گھر والوں کو اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ تعلیم جاری رکھنے ہی کے موڈ میں نہیں تھے اور بار بار روڑے اٹکانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس لیے لاچار ہوکر گھر سے بھاگنا پڑا۔ گھر سے بھاگتے وقت انھیں یہ احساس ہرگز نہ رہا ہوگا کہ اب پوری پڑھائی بھاگ بھاگ کر ہی مکمل کرنی ہوگی!! لیکن، قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے؟ ان کی ‘آپ بیتی’ میں ‘بھاگنا’ اور ‘پکڑ کر لایا جانا’ جیسے الفاظ اتنی بار آئے ہیں کہ یاد رکھنا مشکل ہے۔

بھاگنے کے بعد شروع ہونے والے اس ناہموار سفر کی پہلی منزل مدرسہ اصلاحیہ سیماپور کٹیہار تھی۔ اس ادارے کے صدر مدرس مولانا ابو بکر ہارونی رحمہ اللہ تھے، جو ایک قد آور اور روشن خیال عالم دین ہونے کے ساتھ آپ کے سگے ماموں بھی تھے۔ آپ یہاں ڈھائی تین سال رہے۔ اس بیچ ‘پکڑ کر لے جانے’ اور پھر ‘گھر سے بھاگ آنے’ کی مشق بھی جاری رہی۔ ایک بار تو آپ کے ایک چچا نے پکڑنے کے چکر میں ڈنڈے سے ایسا وار کیا کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے…!! لیکن پڑھنے کا جنون کم نہیں ہوا…!!

اصلاحیہ میں آپ نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا، ان میں ہارونی صاحب کے علاوہ مولانا ابوبکر رحمانی، مولانا نذیر احمد شمسی اور مولانا محمد سلیمان صاحب وغیرہ شامل ہیں۔

اصلاحیہ گھر والوں کے دست رس کے اندر تھا اور یہاں سے ہمیشہ ‘گھر واپسی’ کا دھڑکا لگا رہتا تھا، اس لیے اب یہ ارادہ بنا کہ کسی ایسے ادارے کا رخ کیا جائے، جہاں اس پچڑے سے نجات مل سکے۔ چنانچہ اس بار راتوں رات نکل بھاگے اور جامعہ مظہر العلوم بٹنہ مالدہ پہنچ کر پڑھائی شروع کر دی۔

اب پریوار مشترک نہیں رہ گیا تھا۔ ابا اور چچا لوگوں کے چولھے الگ الگ ہوچکے تھے۔ اس لیے اس بات کی امید تھی کہ شاید اب ابا حضور کا ساتھ مل جائے اور الجھنوں سے مکت ہوکر پڑھنے لکھنے کا موقع میسر ہو۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ والد محترم نے تعاون نہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ادھر، تعلیمی ضروریات کہاں ماننے والی تھیں؟ سو ان کی تکمیل کے لیے جمعرات اور جمعہ کو مزدوری کرنے تک کی نوبت آئی۔ مدرسے میں بڑی چھٹی ہوتی، تو کسی ساتھی کے گھر رہ جاتے۔ یوں، یہاں لگ بھگ چار سال گزار لیے۔

مولانا بعد میں بھی یہاں کچھ مہینے زیر تعلیم رہے اور آٹھویں جماعت میں داخلہ لے کر سند فراغت حاصل کی، جس کا ذکر آگے آئے گا۔ دونوں مدتوں کو ملاکر یہاں جن اساتذہ سے کسب فیض کیا، ان میں جامعہ کے صدر و شیخ الحدیث مولانا محمد مسلم رحمانی، جامعہ کے ناظم مولانا عبد الحکیم صاحب، مولانا جمال الدین رحمانی اور مولانا محمد اکمل جیراج پوری رحمھم اللہ وغیرہ جیسے جلیل القدر اساتذہ شامل ہیں۔

جامعہ میں چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بعد سالانہ چھٹی گزارنے کے لیے گھر آئے، تو والد صاحب کی ناراضگی اور خاموشی بھری فضا میں بڑی گھٹن محسوس ہوئی۔ جیسے تیسے چھٹی کے دن ختم ہوئے، تو کچھ ساتھیوں کے ساتھ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئوناتھ بھنجن کے لیے نکل گئے۔ یہ شاید 1953 کی بات ہے۔

فیض عام میں آپ دو تین سال رہے ہوں گے۔ اس دوران جن اساتذہ سے کسب فیض کیا، ان میں ناظم مدرسہ مولانا محمد احمد صاحب، مولانا حبیب الرحمن فیضی، مولانا مصلح الدین جیراج پوری، مولانا عبد الغفور بسکوہری، مولانا عبد الرحمن نحوی اور مولانا عظیم اللہ مئوی رحمھم اللہ جیسے اساطین علم و فن کے نام شامل ہیں۔

ابھی آپ فیض عام ہی میں زیر تعلیم تھے کہ مولانا محمد شریف اشرف صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا، جو مجلہ ‘الاعتصام’ میں شائع ہوا تھا۔ اس میں انھوں ریاض کے ایک نو قائم شدہ ادارہ ‘المعھد العلمی’ کے تعلیمی نظم و نسق اور طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا ذکر کیا تھا۔ مضمون پڑھتے ہی اس ادارے میں پڑھنے کا شوق دامن گیر ہو گیا۔ چنانچہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر سعودی سفیر کے توسط سے سعودی فرماں رواں شاہ سعود بن عبد العزیز کے نام ایک درخواست بھیج دی۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بات آئی گئی ہو گئی۔

لیکن کچھ دنوں بعد ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس نے اچانک فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور نہایت بے سر و سامانی کے عالم میں سعودی عرب کے سفر پر نکل پڑے۔

ہوا یوں کہ مولانا نے ایک بار سرکار کی ایک تعلیمی پالیسی کے خلاف کچھ نکات یک جا کیے اور انھیں ‘اسلامک اسٹوڈنٹس کمیٹی’ کی ایک قرارداد کا روپ دے کر ‘آزاد ہند’ نامی ایک اخبار میں شائع کروا دیا۔ بعد ازاں رمضان کی چھٹی ہوئی اور آپ گھر چلے گئے۔ قرارداد چوں کہ ‘طلبہ یونین’ کے نام سے شائع ہوئی تھی اور پتہ فیض عام کا دیا ہوا تھا، اس لیے جامعہ کو تھوڑی بہت تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے آہت ہوکر جامعہ نے آپ کے گھر کے پتے پر ایک خط ارسال کر دیا کہ رمضان بعد جامعہ نہ آئیں۔

مولانا کو خط موصول ہوا، تو طبیعت بے چین ہو گئی۔ مولانا ابو بکر ہارونی رحمہ اللہ سے بات کی، تو انھوں نے ہمت دلائی اور ایک خط لکھ کر دیا، جسے ساتھ لے کر جامعہ چل پڑے۔ جامعہ میں ہارونی صاحب کی سفارش کام آئی اور داخلے کی کارروائی شروع ہو گئی۔

داخلے کی کارروائی ہی کے تعلق سے ایک دن ناظم صاحب کا گھر جا رہے تھے کہ اچانک ذہن میں حیرت کن انقلاب برپا ہو گیا۔ یہ خیال بڑی طاقت کے ساتھ ابھرنے لگا کہ اب مجھے اس ادارے ہی نہیں، بلکہ بھارت میں ہی تعلیم حاصل نہیں کرنی ہے۔ باقی کی تعلیم سعودی عرب جاکر پوری کرنی ہے۔ کچھ ہی دیر میں یہ خیال اتنا جنون میں بدل گیا اور اسی دن مئوناتھ بھنجن سے بنارس کے لیے روانہ ہو گئے۔ بنارس میں جامعہ رحمانیہ میں دو تین دن رکے اور اس دوران مشہور ادیب مولانا عبد المجید حریری سے ایک خط لکھوا لیا، تاکہ سعودی عرب پہنچنے کے بعد بوقت ضرورت کام آ سکے۔

پھر بنارس سے ممبئی کے لیے چل پڑے۔ جیب میں ٹکٹ کے برابر پیسہ نہیں تھا، اس لیے ٹکٹ کے بنا ہی ٹرین میں سوار گئے۔ راستے میں کئی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ممبئی پہنچے اور صابو صدیق مسافر خانہ جاکر عازمین حج کے ساتھ ہو لیے۔

وہاں کئی دنوں تک اس ادھیڑ بن میں لگے رہے کہ آخر جہاز میں سوار کیسے ہویا جائے؟ بالآخر بڑے غور و فکر کے بعد ایک راستہ نکالا۔ قلی کو کچھ پیسے دے کر ایک پاس حاصل کر لیا، جو عازمین حج کو جہاز میں سوار کرنے کے لیے ان کے قریبی لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ پھر طے شدہ ارادے کے مطابق پاس دکھا کر اندر گئے اور باہر آنے کی بجائے عازمین حج کے ساتھ اندر ہی رہ گئے۔ کوئی چھان بین بھی نہیں ہوئی کہ پکڑے جاتے۔

چنانچہ دس دن کے سمندری سفر کے بعد جدہ پہنچ گئے۔ اب مسئلہ جہاز سے اترنے کا تھا۔ کئی ترکیبیں کیں۔ لیکن کوئی ترکیب کام نہ آئی۔ بالآخر حقیقت حال سناکر ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی، تو دھر لیے گئے اور یوں جہاز میں قید ہوکر بھارت واپسی کے دن گننے لگے۔ اسی حالت میں عید الاضحی گزر گئی اور حاجیوں کی واپسی کے دن قریب آ گئے۔ ایسے میں از سر نو پلاننگ کی اور ایک دن رات کے سناٹے میں پہرے داروں کو گچا دے کر سمندر میں چھلانگ لگا دی اور لائف جیکٹ کے سہارے تیرتے ہوئے لگ بھگ ایک میل کی مسافت طے کرکے ساحل سے آ لگے۔

اس کے ساتھ ہی آپ کی وہ تمنا پوری ہو گئی، جس کی آگ سینے میں لے بے سروسامانی کے عالم میں مئوناتھ بھنجن سے نکلے تھے اور پچھلے لگ بھگ ڈھائی مہینے کا ایک ایک پل اسے پورا ہوتا ہوا دیکھنے کے لیے ہزار طرح کی ترکیبیں بنانے میں گزارا تھا۔

لیکن ابھی مشکلات ختم نہیں ہوئی تھیں۔ بڑی دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے جدہ سے مکہ پہنچے۔ وہاں کسی حاجی کے پاس مدرسہ خیریہ عارفیہ کا کارڈ دیکھا، تو وہاں پہنچ گئے۔ اس کے مدیر شیخ عارف علی کو اپنی داستان سنائی، تو وہ اس شرط پر داخلہ دینے کو تیار ہوگئے کہ انھیں مدرسے کے کچھ کام کرنے پڑیں گے۔ مولانا کو سر چھپانے کے لیے جگہ چاہیے تھی، شرط منظور کر لی۔ پانی بھرنے اور صفائی کرنے کا کام سپرد ہوا اور پچھتر ریال ماہانہ تنخواہ مقرر ہوئی۔ اس سے مولانا کے رہنے سہنے اور تعلیمی ضروریات کے لیے اخراجات کا انتظام ہو گیا۔ لیکن یہ ایک ابتدائی مدرسہ تھا اور یہاں صرف درجہ چھ تک کی پڑھائی ہوتی تھی۔ اس لیے کچھ مہینوں کے بعد مدرسہ دار الحدیث مکہ مکرمہ میں داخلہ لے لیا، جہاں عرب اساتذہ کے ساتھ ساتھ ایک بھارتی استاد شیخ ابو سعید عبد اللہ بھی تدریس پر مامور تھے۔ دراصل انہی کی سفارش پر آپ کا داخلہ ہوا تھا۔ یہاں داخلہ مدرسہ خیریہ عارفیہ کے مدیر شیخ عارف علی کی رضامندی سے لیا گیا تھا اور ان کے یہاں کام کرنے کا سلسلہ سال کے اختتام تک جاری رکھا گیا تھا۔

مولانا جامعہ اسلامیہ فیض عام سے مشکوة المصابيح پڑھ کر آئے تھے اور دار الحدیث میں جس درجے میں داخلہ لیا، اس میں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن ترمذی جیسی کتابیں شامل نصاب تھیں۔

مکہ مکرمہ میں گیارہ مہینے گزارنے کے بعد حج کا موسم آیا، تو اس سے فراغت کے بعد علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ باز رحمہ اللہ کا سفارشی خط لے کر ریاض کے لیے روانہ ہو گئے اور اسی ‘المعھد العلمی’ میں داخلہ لے لیا، جس کے بارے میں لکھا گیا ایک مضمون سعودی عرب کے سفر کا اولین محرک بنا تھا۔ یہاں داخلہ ثانویہ میں ہوا تھا۔

المعھد العلمی میں دو سال گزرے تھے کہ حج کے موسم میں جان پہچان کے کچھ حضرات حج کے ارادے سے ارض مقدس پہنچے۔ ان سے ملاقات کے بعد گھر کی یادیں اس قدر مجبور کرنے لگیں کہ گھر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابھی تک پاسپورٹ نہیں بن سکا تھا۔ لیکن بھارتی سفیر سے بات کی، تو انھوں نے ایک ایمر جنسی پاس پورٹ جاری کر دیا۔ اس طرح تین سال کے بعد گھر لوٹنا نصیب ہوا۔

گھر تو آگئے۔ لیکن دوبارہ واپسی کے لیے پاسپورٹ کی ضرودت تھی اور اس کی کارروائی پوری ہونے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ چنانچہ اس وقت کو غنیمت جانا اور جامعہ مظہر العلوم بٹنہ مالدہ میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لے کر سند فراغت حاصل کر لی۔

پاسپورٹ ملنے کے بعد واپس ہوئے، تو مدینے میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی تاسیس عمل میں آ چکی تھی اور ‘المعھد العلمی’ کے طلبہ کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہیں تو جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لے سکتے ہیں اور چاہیں تو ‘المعھد العلمی’ میں تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ آپ نے جامعہ اسلامیہ جانے کو ترجیح دی۔ اس طرح جامعہ کے پہلے بیچ کے طلبہ میں شامل ہوگئے اور وہیں سے گریجویشن کیا۔

اس کے بعد عملی زندگی کی شروعات ہوئی، جو بڑی مشغول اور کثیر الجہت رہی۔ ‘دار الافتاء’ ریاض کے داعی کی حیثیت سے افریقی ملک نائجیریا پہنچے. نائجیریا پچھمی افریقہ میں واقع ایک اہم ملک ہے، جو آبادی کے لحاظ سے افریقہ کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ 1960 میں یہ ملک برطانوی سامراج سے آزاد ہوا اور مولانا نے 1966 میں اس کی دھرتی میں قدم رکھا۔ یہاں کی 90 فی صد آبادی اسلام اور عیسائیت کو ماننے والوں پر مشتمل ہے اور ان کا آپسی تناسب کم و بیش برابر ہے۔

اسی نائجیریا کے کوارا اسٹیٹ کے ایک چھوٹے سے شہر ارون میں آپ نے چھ سات سال بتائے۔ ایک متوسطہ معیار کے مدرسے کے صدر مدرس تھے۔ مدرسے کا نام دار العلوم تھا اور ‘جبھة العلماء’ نامی ایک تعلیمی کمیٹی کے ماتحت چلتا تھا۔ آپ نے اپنی مدت کار میں ادارے کے تعلیمی معیار کو خوب سے خوب تر بنانے کی پوری کوشش کی۔

لیکن یہاں آپ کے ساتھ ایک پریشانی بھی تھی۔ یہاں کی آب و ہوا میں رطوبت کچھ زیادہ ہی تھی، اس لیے ضیق النفس کی بیماری نے دھر دبوچا۔ مجبورا ہلاٹو اسٹیٹ کے شہر ‘جوش’ میں تبادلہ کرا لیا۔ وسطی نائجیریا کے اس پہاڑی علاقے کا موسم قدرے خشک تھا۔ یہاں ‘سردونا کالج’ کے عربی و دینیات کے مدرس کی حیثیت سے لگ بھگ تین سال گزارے۔

تدریسی خدمات کے علاوہ یہاں آپ کی دعوتی خدمات بھی بڑی اہم رہیں۔ آپ نے یہاں کے مسلم معاشرے کا جائزہ لیا، تو اسے اندرونی اور بیرونی طور پر کئی محاذ پر گھرا ہوا محسوس کیا۔ ایک طرف عیسائی مشنریاں لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرکے بپتسمہ دینے کی جگت میں لگی ہوئی تھیں، تو دوسری طرف قادیانی ٹولہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود اور نبی و رسول ثابت کرکے اسلام کے بالمقابل ایک الگ دین کھڑا کرنے کے درپہ تھا۔ پھر اس پر مستزاد تھا تیجانی تصوف کو ماننے والوں کا حلقہ، جو بدعات و خرافات اور شرکیہ رسوم و رواج کی ایک دنیا آباد کرکے اسلام کے صاف
شفاف چہرے کو گرد آلود بنانے میں لگا ہوا تھا۔ ایسے میں آپ نے اپنے دروس، مقالات اور کتابوں کے ذریعے ان کوششوں کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔

عیسائی مشنریوں کے ذریعے پیدا کردہ شکوک و شبہات سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ‘THE RELIGION OF ALL PROPHETS ‘ONLY ONE کے نام سے ایک کتابچہ لکھا اور اسے جنوبی افریقہ کے مشہور داعی سید احمد دیدات کی کتاب ‘MOHAMMAD IN THE NEW AND OLD TESTAMENT’ کے ساتھ چھپوا کر مفت تقسیم کروایا۔

قادیانیت کو بے نقاب کرنے کے لیے پہلے ‘DO YOU KNOW MIRZA GHULAM AHMAD QADIYANI?’ کے نام سے ایک کتاب لکھی اور بعد میں ‘IS THIS NOT A NEW RELIGION AGAINST ISLAM?’ نامی کتاب لکھ کر اس کی قلعی کھولی۔

تیجانیت کے باطل عقائد سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لیے شیخ عبد الرحمن افریقی کے رسالہ ‘الهداية الرحمانية للفرقة التيجانية کو مختصر حواشی کے ساتھ شائع کر کے بٹوایا۔

واضح رہے مذکورہ تمام کتابوں کو بڑے پیمانے پر چھپوا کر پورے نائجیریا میں مفت تقسیم کر نے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا، جس کے مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہوئے تھے۔

اس طرح نائجیریا میں علمی و دعوتی کاموں سے بھر پور ایک پوری دہائی گزارنے کے بعد مادر وطن بھارت آنے کا ارادہ کیا۔ ‘دار الافتاء ریاض’ کے داعی ہی کی حیثیت سے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے شعبۂ دعوت و ارشاد سے وابستہ ہو کر یہاں آئے۔ مرکزی جمعیت سے مولانا کی یہ وابستگی بڑی لمبی اور گہری رہی۔

1979 میں مرکزی جمعیت کی ایڈہاک باڈی بنی، تو متفقہ طور پر آپ ناظم عمومی اور مولانا عبد الوحید سلفی رحمہ اللہ امیر منتخب ہوئے۔ نو ماہ بعد انتخاب ہوا، تو آپ کو ناظم عمومی کے عہدے پر برقرار رکھا گیا۔ لیکن بعض وجوہب کی بنا پر تین سال بعد آپ خود ہی متعفی ہو گئے۔

مولانا عبد الوحید سلفی رحمہ اللہ کی امارت کے دوسرے دور میں ‘مجلس تحقیق علمی’ کا قیام عمل میں آیا، تو اس کے صدر منتخب کیے گئے اور بطور صدر آپ نے اس شعبے ایک ناقابل فراموش علمی وقار عطا کیا۔ خاص طور سے ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں دیے گئے آپ کے فتوے کی خوب تشہیر ہوئی اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس سے خاص دل چسپی دکھائی۔

مولانا لمبے وقت تک جمعیت کی مجلس شوری اور مجلس عاملہ کے بھی ممبر رہے۔ بعد میں ‘المعھد العالی لاعداد الدعاة والمعلمين’ قائم ہوا، تو داعیوں اور معلموں کی تربیت میں بھی اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیا۔

1980 میں مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ نے ‘مرکز ابو الکلام آزاد للتوعية الإسلامية’ کی بنیاد ڈالی اور بھارت کی راجدھانی دہلی کو تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، تو انھوں نے مولانا کو بھی اس قافلے کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے شامل کیا۔ مولانا مركز کو ہفتے میں چار دن دیتے تھے اور مرکزی جمعیت کو دو دن۔ یہاں آپ بعض انتظامی امور دیکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ گھنٹیاں پڑھاتے بھی تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مرکز کے تحت چلنے والے اداروں بالخصوص جامعہ اسلامیہ سنابل، معھد التعلیم الاسلامی، معھد عثمان بن عفان لتحفیظ القرآن اور معھد خدیجة الكبرى للبنات نے اپنی ٹھوس تعلیم و تربیت اور قیام و طعام کے اعلی انتظام کی بنیاد پر غیر معمولی شہرت حاصل کر لی۔ لیکن سوئے قسمت کہ 1996-97 میں دونوں بزرگوں کے بیچ شدید قسم کے اختلافات نمودار ہوگئے، جس کے نتیجے میں کئی ناخوش گوار باتیں بھی سامنے آئیں اور مرکز کو کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ بالآخر مولانا نے مرکز کے خازن کے عہدے سے استعفی دے دیا اور یوں اختلاف و انتشار کو دفن کیا گیا۔

توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کشن گنج بھی آپ کی شخصیت سے فیض یاب ہوتا رہا ہے۔ اس کے بانی مولانا عبدالمتین سلفی رحمہ اللہ، جنھوں نے کشن کی سرزمین میں جامعة الإمام البخارى اور جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات جیسے عظیم الشان اور تاریخی ادارے قائم کرکے خاص طور سے مشرقی بھارت کے لوگوں کو تعلیم سے جوڑنے کی کام یاب کی، آپ کے داماد تھے۔ آپ توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ کے سنہ قیام 1988 سے لے کر اب تک، اس کے لیے ایک بے لوث سرپرست اور مربی کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔

مولانا کا ایک بہت بڑا کارنامہ ان کا تصنیفی و تالیفی کام ہے۔ بہت کم علما ہوں گے، جو اتنی زبانوں میں لکھ سکتے ہیں، جتنی زبانوں میں آپ لکھتے ہیں۔ عربی، انگلش، اردو اور ہندی کے ساتھ ساتھ بنگلہ زبان میں بھی آپ کا قلم پوری روانی کے ساتھ چلتا ہے۔ ہندی میں قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھ رہے ہیں۔ لگ بھگ سال بھر پہلے میری بات ہوئی تھی، تو بتایا تھا کہ 22 پاروں کا کام ہو چکا ہے۔ ذیل میں آپ کی کچھ اہم کتابوں کے نام دیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آپ کی زیادہ تر کتابیں ایک سے زیادہ زبانوں میں ہیں:

1۔ تمام انبیا کا دین صرف ایک (اردو، انگریزی، ہندی)
2۔ اسلام سے منحرف بعض گمراہ فرقے (اردو)
3۔ بہائیت- ایک مختصر تعارف (اردو، عربی)
4۔ تیسیر التجوید (اردو، عربی)
5۔ تیسیر الفرائض (اردو، عربی)
6۔ سود پر مبنی معاشی نظام اور اس سے نجات کی راہ (اردو)
7۔ سمندر میں چھلانگ (اردو، عربی)
8۔ شرعی پردہ (اردو، عربی، ہندی)
9۔ عقیدۂ توحید (اردو)
10۔ قادیانیت- ایک مختصر تعارف (اردو، عربی)
11۔ کیا یہ اسلام کے مقابل ایک نیا دین نہیں؟ (اردو، انگریزی)
12۔ مختصر دعوت (اردو، عربی)
13۔ مذہب اسلام (اردو)
14۔ معجزات نبی صلی اللہ علیہ و سلم (اردو، انگریزی)
15۔ مکہ مکرمہ کی رؤیت ہلال تمام عالم اسلام میں معتبر ہونے پر ایک تحقیقی نظر (اردو)
16۔ نظام سمع و طاعت کا احیا اور اکابر ملت اسلامیہ کی ذمے داریاں (اردو)
17۔ وجود باری تعالی کا علمی ثبوت (اردو، ہندی)
18۔ المختصر فى مذاهب العالم (عربی)
19۔ اسلام اور تعدد ازواج (اردو، انگریزی)
20۔ اسلام اور جنگ (اردو، انگریزی)
21۔ ایک مجلس کی تین طلاقیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ (اردو)
22۔ آسان نماز (اردو، ہندی، بنگلہ)
23. المختصر فى أصول الفقه (عربی)
24. الأحوال الدينية فى الهند (عربی)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی تصنیفات، ترجمے اور فولڈر ہیں، جن کے ذکر سے طوالت کی خاطر گریز کیا جا رہا ہے۔

مولانا لمبے وقت تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے مفتی عام رہے اور اس دوران آپ کے بہت سے فتوے اور مضامین جمعیت کے آرگن ‘جریدہ ترجمان’ میں شائع ہوئے۔ اسی طرح ادھر کچھ سالوں سے ماہ نامہ ‘پیام توحید’ میں بھی آپ کے بہت سے بیش قیمت مضامین اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔ ان سارے مضامین اور فتاوی کو جمع کر دیا جائے، تو بہت سی جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔

مولانا ایک عبقری عالم دین ہیں۔ علوم اسلامیہ کے رمز شناس اور متعدد زبانوں کے ماہر ہیں۔ مطالعہ کافی وسیع اور فکر و نظر میں بڑی پختگی ہے۔ کچھ مسائل میں عام ہندوستانی علما سے الگ رائے بھی رکھتے ہیں۔ رؤیت ہلال کے مسئلے میں مکہ مکرمہ کی مرکزیت کے قائل ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جس دن مکہ مکرمہ میں چاند نظر آ گیا، اس دن پورے عالم اسلام میں چاند نظر آ گیا۔ آپ برسوں سے اس پر عمل بھی کرتے آ رہے ہیں۔

سنہ 2012 کی بات ہے۔ مولانا ایک جنازے میں شرکت کے لیے ہمارے یہاں آئے۔ ان کا آنا باؤرا بستی سے ہوا تھا، جو ہمارے گھر سے بمشکل سات آٹھ کیلومیٹر کی دوری پر ہے۔ میں نے ظہر کے وقت نماز پڑھانے کی گزارش کی، تو فرمایا کہ میں قصر کروں گا۔ پھر دو رکعت نماز پڑھائی اور بعد نماز ایک مختصر سا خطاب فرمایا، جس میں نہ صرف اپنے اس عمل کے صحیح ہونے کا ثبوت فراہم کیا، بلکہ اس کی ترغیب بھی دلائی۔

مولانا بڑے ہی جفا کش اور بلند حوصلہ عالم دین ہیں۔ کچھ سال پہلے تک میں نے انھیں فور وہیلر ڈرائیو کرتے دیکھا ہے۔ ان کی عمر کا شاید ہی کوئی بھارتی عالم مل جائے، جسے کمپیوٹر چلانا اور کمپوز کرنا آتا ہو۔ لیکن وہ عربی، انگلش تو کیا ہندی بھی کمپوز کر لیتے ہیں!!

اللہ کا یہ جفاکش، بلندحوصلہ، خوددار، قناعت شعار، ایثار پسند، جہاں دیدہ، اسلامی علوم کا ماہر اور مشغول زندگی گزارنے کا عادی بندہ ضعیفی اور نقاہت کے ساتھ ساتھ آج کل بیمار بھی ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے دل کے آپریشن سے گزرا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ اسے مکمل شفا عطا کرے اور اس کا سایہ تادیر قائم رکھے…!!

مشتاق احمد ندوی

(ثناءاللہ صادق ساگر تیمی)

یہ بھی پڑھیں: صدور حفظ سسٹم کے ایک اور طالبعلم کی تکمیلِ حفظِ قرآن