شخصیت پرستی کے زہر کا تریاق موجود،
أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ (الانعام/90)
یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر،
اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ فبهم بلکہ فَبِهُدَاهُمُ کہا کیونکہ اصل منھج ہے شخصیات کی ذات نہیں۔
قرآن مجید میں 25 انبیاء کا ذکر خیر آیا ہے کسی نبی کی پیدائش، شادی، اولاد وفات کا ذکر عمومی طور پر نہیں کیا گیا الا اس وقت جب اس میں کوئی دعوتی خیر یا کوئی استثناء مضمر ہو۔
میں عمومی طو رپر اس حوالے سے اپنے طلباء اور دروس میں یہ آیت لازمی بیان کرتا ہوں
لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ
کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے “فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ” کیوں کہا اس کی جگہ محمد یا احمد یا نبی یا کوئی صفاتی و ذاتی نام کیوں نہیں استعمال کیا؟
اسلام ہمیں منھج و عقیدہ کی تعلیم دیتا ہے.
وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيۡقًا.
اس آیت میں بھی صفات کا ذکر ہے شخصیات کا ذکر نہیں بالترتیب رسول اللہ کا ذاتی نام ﷺ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ وغیرھم کا ذکر خیر بھی کیا جا سکتا تھا۔
میں اس حوالے سے سینکڑوں آیات سے استدلال بیان کر سکتا ہوں لیکن اس پر اکتفا کرتے ہوئے آئیں کچھ مزید کڑوی باتیں سن لیں۔
ہم نے شخصیت پرستی کو تعظیم و تکریم کی آڑ میں اختیار کیا ہوا ہے اور حق پرستی کا دعوی بھی ہے، علماء ہوں یا سیاستدان ان میں سے کسی کے موقف کی نفی کر کے دیکھ لیں ان کے پیارے آپ کا وہ حشر کریں گے کہ۔۔۔۔
گویا کہ وہ معصوم عن الخطا ہوں اور ان سے غلطی کا ارتکاب نہیں ہو سکتا.
ایک مرتبہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے ایک موقف پر فیس بک پر تنقید کر دی تھی جوابی طور پر عملا سب و شتم تک کا سامنا کیا تھا۔
تحریک انصاف کے لیے نیازی ہی خدا ہے
ن لیگ کے لیے نواز شریف معصوم عن الخطا ہے
پی پی کے لیے بھٹو ہی نہیں مر رہا، ہمیشہ زندہ
جماعت اسلامی بےچاری آج تک سید مودودی کا علی الاطلاق دفاع کرنے پر مجبور ہے کوئی سید مودودی رحمہ اللہ کو کچھ کہہ نہ دے بس اس کا حشر نشر کر دیا جاتا ہے.
جماعت الدعوہ کے لیے پروفیسر حافظ سعید حفظہ اللہ معصوم عن الخطا
مرکزی جمعیت کے لیے پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ معصوم عن الخطا
جمعیت اھل حدیث سندھ کے لیے علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ معصوم عن الخطا
جمعیت علمائے اسلام کے لیے مولانا فضل الرحمن حفظہ اللہ معصوم عن الخطا، محترم شاہ انس نورانی صاحب و قس علی ھذا،
ابھی آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کسی قول سے اختلاف کر کے دیکھ لیں بریلوی و دیوبندی آپ کا حشر نشر کر دیں گے۔۔
اور جوابی طور پر آپ کے پسندیدہ علماء و آئمہ کے کردار کشی کی وہ وہ کیفیت سامنے لائیں گے الحفیظ والامان،،،،
کس کس کا نام لکھوں یہاں تک کہ مختلف اساتذہ کے شاگرد اپنے اساتذہ کے لیے اتنے جذباتی، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
پچھلے دنوں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کے حوالے سے ایک معروف محدث کے فتوی سے جزوی اختلاف کرنے کی جرات کر لی تھی تو بس- آپ کی اپنی علمی اوقات کیا ہے. تک سننا پڑا،،،،
پچھلے دنوں اسی شخصیت پرستی کی وجہ سے ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی شامت آئی ہوئی تھی، بے چارے قبر میں بھی سوچ رہے ہوں کہ کس قوم کے ہتھے چڑھ گیا ہوں جو،،،
یہ اس قوم کا حال ہے جسے کلمہ طیبہ میں بھی منھج کا درس دیا گیا کہ “محمد رسول اللہ”
صراط مستقیم کی بات کی گئی تو اس کی وضاحت میں انبیاء، صدیقین، شھداء اور صالحین جیسے خوبصورت، مناصب کا ذکر کیا گیا نہ کہ کسی خاص شخصیت کا ذکر، کیا گیا ہے،
اسوہ حسنہ کی بات آئی تو کہا گیا کہ:
لقد کان لکم فی “رسول اللہ” اسوۃ حسنۃ
لفظ رسول اللہ کی جگہ محمد کہہ دیا جاتا، تو بات پھر بھی وہی تھی لیکن تعظیم و تکریم کی بات تھی کہ محبوب کائنات و حبیب کائنات کو کہیں نام سے نہیں پکارا بلکہ صفاتی کیفیات میں ذکر کیا گیا
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شخصیت پرستی اور تعظیم و تکریم میں کیا فرق ہے…
ادب الخلاف کس حسن کا نام ہے
اختلاف رائے کس سلوک و اسلوب کا نام ہے
ہمیں کیا پتا اور ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔
جیتے رہیں،
خوش رہیں اس تعصب کے ساتھ
اور اسے حق پرستی کا نام دیتے رہیں،
آپ بھی خوش وہ بھی خوش میں بھی خوش سب خوش،
رہے نام اللہ کا