شرعی نصوص کا فہم اور ان کا انطباق
طالب علم کے لیے یہ دو مراحل بہت مشکل ہوتے ہیں اور اکثر طلباء کو ان دو امور میں بہت مغالطہ لگتا ہے۔
فقہ النصوص کے حوالے سے تین باتیں جو میری زندگی کا ماحصل ہیں وہ لکھنا چاہتا ہوں.
1) سب سے پہلے کتاب و سنت کی تمام نصوص پر مکمل ایمان ہونا چاہیے ، ایسا ایمان جس میں شکوک و شبہات نہ ہوں اور ان کی قطعیت و حمیت پر یقین کامل ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر نصوص کی فہم سلیم نا ممکن ہے۔
2) کتاب و سنت کی نصوص کی جو تشریحات و توضیحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں انہیں بھی بلا شک و شبہ مان لیں اس پر بھی ایمان و یقین کامل ہی مطلوب ہے۔ واضح رہے جو صحت کے اعتبار سے ثابت ہوں میں صرف ان کی بات کر رہا ہوں۔ جن کی صحت ثابت نہیں ہے اس پر علماء کی تحقیقات کی طرف رجوع کریں۔
3) کتاب و سنت کی ایسی نصوص جن کا قطعی و حتمی مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہ کیا ہو اور ان کی تشریحات و توضیحات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین عظام رحمہم اللہ و تبع التابعین رحمہم اللہ بیان کرتے ہوں تو اگر اس میں شریعت کی مخالفت نہ ہو تو یہ فہم السلف الصالح ہر اعتبار سے افضل ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام نے یا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو یا خود اپنے اجتھاد سے اسے بیان کیا ہو اسی طرح بعد کے دونوں ادوار کا معاملہ ہے۔ کیونکہ علی الاطلاق یہ افضل ترین دور ہے جس کے لیے سلف صالح کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔ وگرنہ گزرے ہوئے ہر زمانے کے صالح لوگ سلف صالحین میں شمار کیے جا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ عرصہ پہلے ہی کیوں نہ فوت ہوئے ہوں۔
اس کا بعد دوسرا مرحلہ جو انطباق نصوص کا ہے یہ انتہائی صعب اور دشوار امر ہے میں نے اپنی زندگی میں چند مشائخ کو اس میں حق ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے جس میں سر فہرست شیخ محترم الاستاذ العثیمین رحمہ اللہ کا خوبصورت وجود ہے۔ یہ مرحلہ فقہ النصوص اور فقہ الواقع کا بہترین و حسین امتزاج ہوتا ہے ، عمومی طور پر فقہ النصوص کے ماہرین تو مل جاتے ہیں لیکن فقہ الواقع کے ماہرین بہت کم ہیں کہ اس میں افراط و تفریط سے بچنا ہی اصل کمال ہے۔ حالات حاظرہ کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے نصوص کو اس طرح منطبق کرنا کہ نصوص کی فقاہت بھی مسخ نہ ہو اور عصری مسائل میں رہنمائی بھی ممکن ہو جائے۔
فہم نصوص اور نصوص کا انطباق
ہر دو امر یکساں درجے کے اہم ہیں، فہم نصوص نصوص پر ایمان کامل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت پر مبنی ہے۔ بسا اوقات یہ وضاحت صراحت کے ستھ ملتی ہے اور بسااوقات غیر صریح ہوتی ہے تو اسلاف رحمہم اللہ کی توضیحات اور تشریحات اس حوالے سے معاون ثابت ہوتی ہیں۔
محض نصوص کے ظاہر کو لے لیا جائے تو بھی بے شمار مسائل میں بند گلی سامنے آ جاتی ہے چونکہ کتاب و سنت کی نصوص کی اکثریت زمانی و مکانی قیود سے ماوراء ہیں لہذا ظاہر نصوص کا انطباق ہر زمانے میں کرنے میں جب ناکامی ہوتی ہے تو پھر رویوں میں شدت پسندی اور انتہا پسندی در آتی ہے اور انسان نصوص کے ظاہر کی مخالفت پر ہی فتوی صادر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اس کے برخلاف محض نصوص کو اپنے اصولوں اور اجتھادات کے مطابق بنانے کی کوشش کی جائے تو بھی بسااوقات گمراہی سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ گویا کہ نصوص کو مشرف بہ مسلک معین کیا جائے۔
لہذا فقاہت نصوص یا فقہ النصوص بہت اہم مضمون ہے جس کے باقاعدہ کچھ اصول و ضوابط ہیں۔ جن کا ذکر پھر کبھی سہی۔ ان شاء اللہ
لیکن سردست نصوص کے انطباق کے حوالے سے فقہ الواقع جو کہ ایک انتہائی اہم مضمون ہے اور میرے نوجوان ساتھی خواہ وہ کسی باقاعدہ مدارس کے فضلاء ہوں یا دنیاوی تعلیمی اداروں سے وابستہ نصوص کے ظاہر محض کو ہی فہم کامل سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جب کہ حالات حاظرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح اجتھاد کرنا کہ نصوص پر ایمان اور منقول فہم بھی متاثر نہ ہو۔
کیونکہ منصوص علیہ مسائل تعداد میں بہت کم ہیں اور غیر منصوص مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں لہذا غیر منصوص مسائل کے حل کے لیے فقہ الواقع کو فقہ النصوص کی روشنی میں جب تک حل نہ کیا جائے اس وقت تک فہم نصوص مکمل نہیں ہوتی۔
ایک مثال سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔
ہر سال رمضان کے آخری عشرہ کی آمد سے قبل ایک مسئلہ بہت شد و مد سے شروع ہو جاتا ہے کہ اس عشرہ میں بعد از تراویح مساجد میں دروس کا کیا حکم ہے؟
اب اس پر تین طرح کے عمل موجود ہیں میں اقوال نہیں کہہ رہا بلکہ عمل کا نام دے رہا ہوں.
01) آخری عشرہ انفرادی عبادت کا ہے لہذا دروس جائز نہیں ہیں.
02) آخری عشرہ گو کہ انفرادی عبادات کا ہے لیکن محدود وقت کے لیے دروس جس میں میں علم نافع و عمل صالح کا ابلاغ کامل کیا جاتا ہے.
03) باقاعدہ سیمینارز اور کانفرنسز اور طویل دورانیہ کے پروگرام کیے جاتے ہیں۔
اب اگر نصوص کی طرف سے دیکھا جائے تو آخری عشرہ میں مساجد میں دروس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے لہذا میرے کچھ احباب اور نوجوان ساتھیوں نے پہلے قول کو ہی قطعی و حتمی انداز میں حق سمجھ لیا جبکہ کبار مشائخ کی اکثریت مختصر دورانیہ کے دروس میں شرکت کرتی ہے گویا کہ ایک محدود وقت کے لیے دینی رہنمائی کی جا سکتی ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع کی مناسبت سے مختصر نصیحتیں اور دروس دیے ہیں لہذا یہ بھی ایک ایسا ہی موقع ہے کہ بے شمار لوگ جو محض ثواب اور اجر کی نیت سے آتے ہیں اور ان دروس سے تبدیل ہو کر مستقل مسجد اور دینی رہنمائی کے عمل کے ساتھ جڑ جاتے ہیں البتہ تیسرے عمل کی کسی بھی صورت میں حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اسے جائز کہا جا سکتا ہے اسی تیسرے عمل کی وجہ سے بعض احباب نے دوسرے عمل کا بھی انکار کرنا شروع کر دیا ہے۔
ہمارے سیاسی مسائل اور معاشی مسائل بھی اسی نوعیت کے ہیں کہ ان میں فقہ النصوص اور فقہ الواقع دونوں کو مدنظر رکھے بغیر کوئی فتوی دینا یا فیصلہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔
والعلم عند اللہ واللہ اعلم بالصواب
شاہ فیض الابرار صدیقی