شرم ہوتی تو ڈوب مرتے لیکن شرم نہیں تو ڈوب کیسے مریں ؟
پوری ویڈیو جہاں سے میں نے یہ سکرین شاٹ لیا اس میں منظر کچھ یوں ہے کہ پولیس والے نے اس استاد کو پکڑا، اس کو گاڑی میں بٹھانے کے لیے پہلے اس کے منہ پہ مکہ مارا، جس کے باعث اس نے تکلیف سے اپنا ہاتھ چہرے پر رکھا ہوا ہے اور دوسرا پولیس والا اس کو ڈنڈا مارنے کے لیے تیار ہے۔
یہ تصویر دراصل ہمارے ضمیر کی موت کا نشان ہے۔ یہ مکہ پوری قوم کے منہ پر پڑا ہے، استاد کسی بھی معاشرے میں کے وقار اور اس معاشرے کی ترقی کے زاویے طے کرتا ہے۔
افسوس صد افسوس ہم نے یہ مناظر پہلی بار نہیں دیکھے اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا چلا آیا ہے لیکن موجودہ نگران حکومت جس طریقے سے فیصلے کر رہی ہے سب کے لیے حیرت انگیز ہے۔ اس کا کام انتخابات کا انتظام کرنا تھا اور معمول میں ملک کو چلانا تھا، کوئی بڑے انقلابی اقدامات کرنے کا اس کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ جبکہ یہ سکولوں اور کالجوں کو پرائیویٹ کرنے چلے ہیں۔
ان ضرورت سے زیادہ سیانوں کو کاش کوئی جا کر بتا دے کہ جس گھر کے مالی معاملات خراب ہو جاتے ہیں تو انہیں درست کرنے کے لیے گھر کے برتن نہیں بیچا کرتے اور یہ تو ایسے ناہنجار نکلے کہ گھر کے برتن ہی نہیں گھر کے ماں باپ کو ہی بیچنے چل نکلے، یہ سکول، یہ کالج اور یہ استاد ہمارے پاکستان بھر کے ماں باپ ہی تو ہیں۔
قوم کو اس حوالے سے اساتذہ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، ہر ایک کو اپنے اپنے مقام پر اس احتجاج کا حصہ بننا ہوگا۔ اس تمام تر معاملے کا دوسرا پہلو اتنا الم ناک ہے کہ جس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔
کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں دو کروڑ بچے ایسے ہیں جو سکول نہیں جاتے جاتے، اگر ان سکولوں اور کالجوں کو پرائیویٹ کیا گیا تو غالب امکان ہے یہ دو کروڑ چار کروڑ ہو جائیں گے۔ یعنی ہماری اشرافیہ یہ چاہتی ہے کہ اس ملک کو بالکل ہی جہالت کا جنگل بنا دیا جائے۔
لاہور میں دو کالج پرائیویٹ ہوئے تھے ایک کنیئرڈ کالج دوسرا ایف سی کالج، اب کوئی سینے میں دل رکھتا ہو تو وہاں جائے اور جا کر دیکھے اور پوچھے کہ ان دونوں کالجز میں کیا کوئی غریب بچہ بھی پڑھتا ہے ؟
یہ وہ دونوں کالج تھے جہاں میرٹ کی بنیاد پر کسی ریڑھی لگانے والے کا بچہ بھی پڑھ سکتا تھا اور کسی تیس ہزار ماہانہ تنخواہ پانے والے کا بچہ بھی پڑھ سکتا تھا لیکن اب ان دونوں کالجوں کی فیس ہی ایک معمولی درجے کے ملازم کی تنخواہ کے برابر ہو چکی ہے۔ یہ بھی سرکار نے حسین خواب دکھا کر پرائیویٹ کیے تھے اور اب غیر نمائندہ یعنی نگران حکومت چاہتی ہے کہ تمام سکول اور کالج پرائیویٹ کر دیے جائیں تاکہ غریب کا کوئی بچہ پڑھ نہ سکے۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں معاملات میں جس درجہ کرپشن پائی جاتی ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ یہ سکول اور کالج ان کی عمارتیں اربوں کھربوں روپے کی ہیں اور پاکستان میں تعلیم کا شعبہ اس وقت کسی بڑی سے بڑی انڈسٹری سے بھی زیادہ پیسہ کمانے والا بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سینکڑوں ہزاروں سکول کالج جو لاکھوں کنالوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن ” گروپ آف انڈسٹریز” کو دیے جائیں گے کیا وہ یہاں غریب کے بچوں کا سوچیں گے ؟؟
ہرگز نہیں، ہرگز نہیں اور ہرگز نہیں۔
وہ یقینا کوئی بہت بڑا ساہو کار ہوگا، بڑے بڑے گروپ ہوں گے جن کے نزدیک تعلیم صرف فیکٹری کا پہیہ ہے، کسی مل کی چمنی سے نکلنے والا دھواں ہے اور کسی انڈسٹریل ایریا میں لگائی گئی وسیع و عریض فیکٹری ہے جس سے ڈگریوں کی پروڈکشن دینی ہے اور اربوں کھربوں روپیہ کمانا ہے۔
تعلیم کا تقدس تو بھاڑ میں گیا، ایک وسیع و عریض انڈسٹری وجود میں آ جائے گی۔ فیصلہ کرنے والے بھی یہی اشرافیہ کے لوگ، اجازت دینے والے بھی اشرافیہ کے فرعون اور معصوم عوام کی رگوں سے نفع کی صورت میں لہو نچوڑنے والے بھی انہی کے بھائی بند۔۔۔۔

ابوبکر قدوسی