فضیلۃ الشیخ عزیر شمس رحمہ اللہ پر ان کی زندگی میں بھی لکھا، کہا گیا. جبکہ ان کی وفات کے بعد سے اب تک تو بے شمار لوگ لکھ چکے ہیں۔ اور ابھی مزید بہت کچھ لکھا جائے گا۔
لہذا میرے جیسے کسی طالبعلم کے ان سے متعلق لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ میرے لیے سعادت ہے کہ میں شیخ رحمہ اللہ سے متعلق کچھ ایسا لکھنے میں کامیاب ہوجاؤں کہ جو میرے لیے، اور میرے جیسے دیگر طالبانِ علم کے لیے فائدہ مند ہو۔ اور شاید قارئین میں سے کسی کے دل میں علم اور علماء کی محبت و اہمیت اجاگر کرنے کا باعث بن جائے۔
مرحوم سے استفادہ کی سعادت:
کل عشاء (15 اکتوبر 2022ء) کے بعد شیخ رحمہ اللہ کی وفات کا سن کر بہت دھچکا لگا اور شدید صدمہ ہوا، کیونکہ ’موت العالِم’ درحقیقت ’موت العالَم’ ہوتی ہے۔ اور بالخصوص ان جیسی شخصیات کا نعم البدل تو کیا متبادل بھی نہیں ہوتا۔
قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ: أولم یروا أنا نأتی الأرض ننقصہا من أطرافہا کی ایک تفسیر ’ذھاب العلماء’ بھی کی گئی ہے۔ یعنی علماء کی رخصت ایسے ہی ہے، جیسے ایک طرف سے زمین کو لپیٹنا شروع کردیا گیا ہے۔

الأرضُ تَحيَا إذا مَا عَاشَ عَالِمُهَا ۔۔۔ مَتَى يَمُتْ عَالِمٌ مِنهَا يَمُتْ طَرَفُ
كالأرضِ تَحيَا إذا مَا الغَيثُ حَلَّ بِها ۔۔۔ وإِنْ أَبَى عَادَ في أَكنَافِهَا التَّلَفُ

اس جہانِ رنگ و بو کے لیے جس طرح بارش اور پانی کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح علماء کا وجود اس کے لیے آبِ حیات ہے، عالِم کے بغیر زمین ویسے ہی ہے، جس طرح روح کے بغیر جسم۔ لہذا بلاشبہ شیخ مرحوم کی وفات “ثلمة لا تسد” کے مصداق ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
لیکن ساتھ ہی قدرے سکون سا محسوس ہوتا ہے کہ الحمدللہ، شیخ کی حیات میں ان سے کسی حد تک استفادہ اور ملاقات کا موقعہ مل گیا تھا۔ اور کچھ معاملات میں انہوں نے مشورے بھی دیے، اور رہنمائی بھی کی۔ ورنہ عموما یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے بزرگ علمائے کرام کو ملنے کی حسرت ہی رہ جاتی ہے۔ لہذا یہاں میں اپنی اس خوش قسمتی پر اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں اس سعادت سے بہرہ مند فرمایا۔ شیخ رحمہ اللہ ایک دفعہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں محاضرے (لیکچر) کے لیے تشریف لائے تھے، اور غالبا یہ پروگرام “الأندية الطلابية” کے زیرِ اہتمام تھا، جس کا انتظام و انصرام کرنے والے ڈاکٹر وسیم محمدی حفظہ اللہ تھے، جو ان دنوں لسانیات میں پی ایچ ڈی کے آخری مراحل میں تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بطور ’مقدم’ یعنی اسٹیج سیکرٹری جب شیخ عزیر صاحب کو دعوت دی.. تو شیخ نے آتے ہی، خوشگوار موڈ میں ان کی کسی ’تعبیر کی غلطی’ کی نشاندہی کی، اور فرمایا: “وهذا من الضَعفِ في اللغة”. اور ڈاکٹر صاحب بھی مسکرا دیے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ شیخ کے ساتھ ان کی کافی بے تکلفی تھی۔ شیخ کو پہلی بار قریب سے دیکھنے کا تبھی موقعہ ملا۔ اسی مجلس میں ہمارے پاکستان کے فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباسط فہیم حفظہ اللہ بھی موجود تھے، جو ایم فل میں “القواعد التفسيرية عند ابن القيم” کے عنوان سے مقالہ لکھ چکے تھے۔ شیخ عزیر رحمہ اللہ نے ابن قيم رحمه الله سے متعلق کسی سوال کے جواب میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “وهذا عندكم متخصص في ابن القيم”. ہمارے ایک دوست ہیں، زبیر مدنی صاحب، جو آج کل پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ انہوں نے شیخ سے سوال کیا کہ ’کتاب الروح’ کی نسبت ابن قیم کی طرف درست ہے؟ مقصد یہ تھا کہ اس میں کئی چیزیں ایسی ہیں، جو تصوف سے متعلق ہیں، اور سلفی منہج سے مناسبت نہیں رکھتیں..!! شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ ہر کتاب جس میں مصنف سے کوئی غلطی ہوجائے، اس کا یہ حل نہیں کہ ہم اس کتاب کی نسبت کا ہی انکار کرنا شروع کردیں…! اور پھر شیخ رحمہ اللہ نے ابن قیم رحمہ اللہ کا موقف تفصیل سے بیان کرکے، ان سے اپنے اختلاف کا اظہار کیا۔
شیخ رحمہ اللہ کو قریب سے پہلی دفعہ اسی مجلس میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ پھر کافی عرصہ بعد جمعے والے دن مکتبۃ الحرم المکی میں تفصیلی ملاقات ہوئی، کچھ دیر تو وہاں موجود دیگر احباب بھی شریکِ مجلس رہے، جیسا کہ فضیلۃ الشیخ ثناء اللہ صادق تیمی اور ان کے رفقاء. لیکن میں اور شیخ رحمہ اللہ علیحدہ بھی کافی دیر بیٹھے رہے۔ میرے لیے شیخ رحمہ اللہ کی شخصیت اس دن اصل کھل کر سامنے آئی، جس موضوع پر، جس عالم سے متعلق، جس کتاب کے بارے بھی پوچھ لیا، بولتے ہی گئے۔ گویا

میر دریا ہے، سنے شعر زبانی اس کی
اللہ، اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

اس مجلس کے احوال میں نے لکھے تھے، لیکن وہ تحریر شاید کہیں گم ہوگئی ہے۔ واللہ المستعان۔
ایک جامع الصفات شخصیت:
شیخ رحمہ اللہ کو محقق، محدث، ادیب، ماہر مخطوطات، مفکر، رَحّال، محافظِ تراث جو بھی لقب دیا جائے، تو یہ ان کی شخصیت کا ایک، یا چند پہلو ہوں گے۔ جبکہ ان کے لیے بہترین لقب ان کا ’عزیر شمس’ ہی ہونا ہے۔ جسے اہلِ عرب’ محمد عزیر شمس’ سے پہچانتے ہیں، در حقیقت ان کا نامِ نامی ہی ہے، جو ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرسکتا ہے۔
اور اس حقیقت کا ادراک ان لوگوں کو اچھی طرح ہوگا، جنہیں شیخ رحمہ اللہ سے مجلس کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ کوئی علم وفن ایسا نہیں تھا کہ جس پر شیخ عزیز شمس رحمہ اللہ کے پاس معلومات نہیں ہوتی تھیں۔
جس طرح کے طالب علم جاتے، سائل کو جس چیز سے دلچسپی ہوتی، جس قسم کے احباب جمع ہوتے، مجلس و محفل کے لحاظ سے، وہ اسی موضوع پر بولنا شروع ہوجاتے۔
انڈیا، پٹنہ کی مشہور خدا بخش لائبریری، جامعہ اسلامیہ کا مکتبہ مرکزیہ، ام القری اور مسجد حرام کا مکتبہ، یہ لائبریریاں تو وہ تھیں، جن کی گویا ایک ایک کتاب ان کی نظر سے گزری ہوئی تھی۔ اور اس کے علاوہ اطراف و اکنافِ عالم سے جو حاصل کیا. وہ اس سے الگ ہے۔
جبکہ ہمارے جیسا طالبعلم کسی موضوع پر ایک کتاب پڑھ لے، تو اسے لگتا ہے کہ اول و آخر علم کے خزانے اس کے پاس آگئے ہیں۔ یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیخ عزیر شمس جیسی شخصیت جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتابیں تھیں، وہ علم و معرفت کے کس درجے پر ہوں گے…!
آپ نے چونکہ ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ بزرگوں پر کام کیا تھا، اس لیے عرب دنیا میں ان کا عمومی تعارف اسی حوالے سے تھا۔اور شیخ کو عموما مجالس میں بلایا جاتا، تو اسی حوالے سے گفتگو کی دعوت دی جاتی۔ لیکن یہ شیخ کی تواضع اور انکساری ہے کہ جو پوچھا اور طلب کیا گیا، اسی موضوع پر تسلی کروا دی.اور خود کو ظاہر نہیں کیا کہ مجھے تو فلاں فلاں موضوعات پر بھی دسترس ہے۔ بعض جگہ پر آپ کو علمائے برصغیر کی علمی خدمات کے حوالے سے بھی بلایا جاتا تھا، کیونکہ آپ اس پر بھی بلاشبہ ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔
لیکن یہ تو ان سے مستفید ہونے والے ہی جانتے ہیں کہ صرف قلمی نسخوں کی معرفت یا ابن تیمیہ اور ابن قیم ہی نہیں، بلکہ وہ دیگر علوم و فنون کے بھی شناور تھے۔ کئی ایک زبانیں جانتے تھے۔ عصر حاضر کے فتنوں پر گہری نظر تھی، اور اس کے سدِ باب کے لیے باقاعدہ لائحہ عمل بیان کیا کرتے تھے۔
عالمِ اسلام کے کئی ایک علمائے کرام، مفکرین اور باحثین سے واقف تھے، دیگر مسالک کے علماء اور بزرگوں سے شناسا تھے۔ اور تو اور، اپنے سے جونیئر علمائے کرام اور طلبہ العلم کے علمی کاموں سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔
گویا عزیر شمس رحمہ اللہ کے لیے، اللہ تعالی نے علم و فضل کے تمام اسباب و ذرائع میسر کردیے تھے۔ مکہ مکرمہ جیسے عالَمِ اسلام کے مرکز میں رہائش تھی، بلا کی ذہانت و فطانت، جملہ علوم وفنون کے مطالعہ کا ذوق وشوق، علم و معرفت کی پر پیچ گھاٹیوں سے گزرنے کا صبر اور حوصلہ، قدیم روایت سے ہمکنار اور جدید ذرائع سے ہم آہنگ، ہر اچھے برے، چھوٹے بڑے سے ملنے کی اخلاقیات، مختلف زبانوں میں مہارت، اپنے منہج ومسلک سے تمسک، لیکن تعصب و جمود سے کوسوں دور، علم کے ساتھ ساتھ حلم، اور خدادا صلاحیتوں کے ساتھ عاجزی و انکساری، مہمان نوازی، علمی فیاضی اور فکری سخاوت جیسی خوبیاں جس شخصیت میں رکھ دی گئی ہوں، اسے بلا شبہ ’عزیر شمس’ ہی ہونا چاہیے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ.
فخر ہے اس خانوادے کے لیے جس میں ایسا فرزند پیدا ہوا۔ اس مدرسے کے لیے جس میں اس نے تعلیم حاصل کی. ان اساتذہ کے لیے، جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے، اس علاقے کے لیے جس کی مٹی سے یہ ہیرا نمودار ہوا، اس مسلک ومنہج کے لیے، جس کا یہ سپہ سالار بنا، اس امت کے لیے جس کا یہ خدمتگار بنا۔ قلم و کتاب کے اُس قبیلے کے لیے، جس کی آنکھ کا یہ تارا بنا.

أولَئِكَ آبائي فَجِئني بِمِثلِهِم
إِذا جَمَعَتنا يا جَريرُ المَجامِعُ

قلمی نسخوں کو پڑھنے میں مہارت:
شیخ رحمہ اللہ کی جو صلاحیت، ان کی عالَمِ عرب میں وجہ شہرت تھی، وہ تھا آپ کا قلمی نسخوں کی قراءت، اور تسوید و ترتیب میں مہارت رکھنا۔
یہ کہنے کو تو ویسے ایک طرف سے کتاب کو نقل کرکے، دوسری طرف چھاپ دینا ہے، لیکن حقیقت میں یہ کام خود سے ایک نئی کتاب لکھنے سے بھی کئی درجے مشکل ہے۔
صدیوں پہلے لکھی گئی کتاب کے قلمی نسخے جمع کرنا، ان کی نسبت کی تحقیق و تاکید کرنا، مختلف نسخوں میں بہتر سے بہتر کا انتخاب کرکے، اس کا دیگر سے موازنہ کرنا۔ پھر اسے ایڈٹ کرتے ہوئے، حسبِ حاجت و ضرورت اس پر حواشی رقم کرنا۔ اس طرح کے سب کام، ایک متوسط عالم کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ ایک عام عالم تو کسی کتاب کا قلمی نسخہ تلاش ہی نہیں کرسکتا، مل بھی جائے تو پہچان نہیں کرسکتا، کوئی بتا بھی دے، تو قلمی نسخوں کی جس طرح کی کتابت ہوتی ہے، اسے پڑھ ہی نہیں سکتا۔
پڑھنا بھی آجائے، تو مختلف نسخوں میں کس کو اختیار کرنا ہے، اختلافات کو کیسے واضح کرنا ہے، کس کو ذکر کرنا، کسے نظر انداز کرنا ہے، یہ عام عالم کے بھی بس کی بات نہیں، کجا کہ کوئی جاہل اس کا دعوی کرے۔ اور پھر بالخصوص شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا خط مشکل ترین خطوط میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے مرحوم شیخ اس کو پڑھنے، سمجھنے میں عربوں پر بھی فوقیت رکھتے تھے۔ ایک عرب عالم دین ڈاکٹر ھانی الحارثی ذکر کرتے ہیں کہ میں اپنے استاد محمد سلیمان البسام رحمہ اللہ کے ساتھ ابن تیمیہ کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ جس کی تحقیق شیخ عزیز شمس رحمہ اللہ نے کی تھی۔ کہتے ہیں کہ استادِ محترم ابن تیمیہ کی عبارت اصل قلمی نسخے سے دیکھ رہے تھے، جبکہ میں مطبوع کتاب سے پڑھ رہا تھا۔ سن کر فرمانے لگے: “هذا ساحر” یہ محقق تو گویا جادوگر ہے۔ مراد یہ تھی کہ کس طرح مشکل ترین اور گنجلک خط سے ایک دلکش عبارت بر آمد کر لی ہے۔
کسی بھی قلمی نسخے کو کما حقہ مطبوع کتاب کی شکل میں لانے کے لیے، صدیوں پرانے حالات، واقعات کی سمجھ بوجھ ضروری ہے، محقق خود مصنف نہیں ہوتا، لیکن اس کے اندر اسی قدر لیاقت و صلاحیت ہو ہی تو وہ گوہر مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
غرضیکہ اس بات کی جتنی بھی وضاحت کرلی جائے، ممکن نہیں کہ ان مشکلات اور ان کو حل کرنے کے لیے درکار صلاحیتوں کو نمایاں کیا جاسکے، جو شیخِ مرحوم میں موجود تھیں۔ وليس الخبر كالعِيان.
مادی دنیا کے اسیر لوگوں کے ہاں ترقی یہ ہے کہ ہم نئے سے نئے آلات بنالیں، مشینریاں تیار کرلیں، آئندہ کیا ہونے والا ہے، پتہ لگالیں… لیکن یہ نہیں جانتے کہ ہم اپنے عظیم الشان ماضی اور علمی روایت سے بالکل کٹ رہے ہیں۔
آپ گوگل کرکے، دنیا جہان کی چیزیں تلاش کرسکتے ہیں، ایک زبان کو دوسری میں ٹرانسلیٹ کرسکتے ہیں، لیکن دنیا کی ساری ٹیکنالوجی مل کر آپ کو ایک قلمی نسخہ کا ایک صفحہ کیا، ایک سطر پڑھ کر نہیں دے سکتی۔ گوگل میپ کی ایپ آپ کو اس وقت دنیا کے کسی بھی شہر میں لے جاسکتی ہے، لیکن وہی شہر آج سے دو سو سال، چار سو سال پہلے کیا تھا، کیسے تھا؟ یہ گوگل کے بس کی بات نہیں.. اس کے لیے آپ کو مسلمانوں کے عظیم فن’ تاریخ البلدان’ کے ماہرین کے دربار میں ہی حاضری دینا پڑے گی۔ تو شیخ عزیر شمس مرحوم ان شخصیات میں سے ایک تھے، جو ماضی کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر ہیرے، جواہرات نکالنے کی مہارت رکھتے تھے۔ غواصی کی یہ شان آج کے کسی جدید ٹیکنالوجی سے لیس غوطہ خور کو بھی حاصل نہیں ہے۔
آخر میں، میں اس رئیس المحققین اور شیخ الخواصین فی بحار العلم سے متعلق دو عرب علماء کی ٹویٹس نقل کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر محمد بن علی الغامدی لکھتے ہیں:

“أحسب الشيخ العالم المحقق #محمد_عزير_شمس رحمه الله كان من أعلم أهل الأرض بتراث الإمام ابن تيمية مخطوطه ومطبوعه مع تحرير للناقص والساقط من بعضه، ومن جلس إليه أو استمع إلى بعض حديثه على اليوتيوب تحقق ذلك ولم ينقض عجبه من إحاطته به.اللهم اجبر المصاب على فقده، واخلف الأمة خيرا”.

یعنی میں محقق عالم دین شیخ عزیز شمس رحمہ اللہ کو روئے زمین پر ابن تیمیہ کے مطبوع و مخطوط ذخیرے کا سب سے بڑا عالم سمجھتا ہوں. اس شخص کی باتیں اور معلومات سن کر، انسان ورطہ حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
معروف لبرل محقق ڈاکٹر حاتم العونی لکھتے ہیں:

“بلغتني الآن وفاة المحقق التراثي القدير الهندي محمد عزير شمس، صاحب التحقيقات المتقنة…كان(رحمه الله)عظيم التواضع شديد التقشف عاشقا للعلم محبا للتراث. كنا نرى فيه شبهًا بشيخ التحقيق عبد العزيز الميمني رحمه الله”.

’’ہندوستان کے محمد عزیر شمس علمی تراث کے بڑے باصلاحیت محقق تھے، جن کی ایڈٹ کردہ کتابیں اعلی تحقیقی معیار رکھتی تھیں۔ علم کے عاشق، اسلامی ورثے کے محب، لیکن حد درجہ متواضع اور سادہ مزاج تھے۔ ہمیں ان میں شیخ التحقیق عبد العزیز میمنی رحمہ اللہ کی شبیہ دکھائی دیتی تھی’’۔
یہ دو ٹویٹس بطور نمونہ نقل کی ہیں، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ سرزمین برصغیر سے اٹھ کر، ایک عجمی شخص، عربی زبان اور اس کے دقیق ترین علوم و فنون میں کس قدر اوج ثریا تک پہنچ چکا ہوا تھا، ورنہ سارے جہان کو ’عجمی’ سمجھنے والے ’’یہ عربی’’ جلدی کسی کی تعریف وثناء پر راضی نہیں ہوتے۔

حرفِ اخیر:

شیخ مرحوم ہم سے رخصت ہوگئے، اور ایسے لگتا ہے کہ بہت جلدی الوداع کہہ گئے، ورنہ کل ہی تو ہم ان سے سنا کرتے تھے کہ علماء اٹھ گئے، تیزی سے جارے ہیں، کچھ کرلو… اور ہم سمجھتے رہے کہ وہ کسی کی بات کر رہے ہیں.. یہ کسے پتہ تھا کہ اسلاف کی روایات کا امین، اور ان کی تراث کا محافظ، یہ خود بہت بڑا بزرگ جلد ہم سے رخصت ہونے والا ہے۔
وہی ’شمس’ کہ اہلِ ذوق مسجدِ حرام اور ’بلدِ امين’ میں جس کی ضو فشانیوں اور ضیا پاشیوں سے منور ہوا کرتے تھے، 17 اکتوبر 2022ء کی فجر کے وقت اسی مسجد میں لاکھوں نمازیوں نے اس کی نمازِ جنازہ ادا کی، اور وہیں وادی قری کے ’مقبرہ معلی’ میں مقدس ہستیوں کے پہلو میں خاک کی اوٹ لے کر غروب ہوگیا۔
یقینا قدر کرنے والوں نے کی ہوگی، اور بہت کچھ پا بھی لیا ہوگا۔ اللہ تعالی امت کو ان کا بہترین وارث عطا فرمائے۔ امید ہے نوجوان محقق اور شیخ کے رفیقِ خاص و تربیت یافتہ محترم نبیل نثار سندی حفظہ اللہ، جو آخری مجلس میں بھی ان کے ساتھ تھے، اپنے مرحوم شیخ و مربی کی روایات کے امین بنیں گے۔ ان شاءاللہ۔

ابو حمدان حافظ خضر حیات

نوٹ:شیخ رحمہ اللہ سے متعلق اردو، عربی اور انگلش میں مزید معلومات اور تاثرات جاننے کے لیے درج لنکس ملاحظہ کریں:

اہلِ عرب کے تاثرات:

وفاة العلامة المحقق عزيز شمس


اردو زبان میں معلومات:

https://alulama.org/sheikh-uzair-shams/
انگلش بائیو گرافی:

Sheikh Uzair Shams passed away