موت العالم موت العالم، آہ!شیخ طلاء محمد کو شہید کر دیا گیا۔
زندگی کیفی اسی حسن عمل کا نام ہے
کفر کو نابود،حق کو جاوداں کرتے چلو
ابھی ہم جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی، کے مدیر ونامور عالم دین مولانا ضیاءالرحمن مدنی شہید رحمہ اللہ(12ستمبر2023ء)کی جدائی کا صدمہ نہیں بھولے تھے کہ ایک اور افسوس ناک خبر آ گئی۔۔۔۔۔ سرزمین باجوڑ پر دعوت اہل حدیث کے شناور نوجوان عالم دین الشیخ طلا ٕ محمد شھید کردیے گئے ہیں۔ موصولہ اطلاع کے مطابق شیخ مرحوم مغرب کے بعد موٹر ساٸیکل پر گھر جارہے تھے کہ راستہ میں دو نامعلوم افراد نے انہیں گھیر لیا اور فاٸرنگ کرکے شھید کردیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
جماعت اہل حدیث گزشتہ کچھ عرصہ سے جس آزمائش کا شکار ہے اور اس کے علمائے کرام دشمنانِ اسلام کی نگاہوں میں ہیں، خاکم بدہن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں ایک ایک کر کے راستے سے ہٹانے کی سازش کی جارہی ہے۔حالات آپ کے سامنے ہیں، مولانا ضیاءالرحمن مدنی رحمہ اللہ کی شہادت کو ابھی کتنے ہی دن گزرے تھے۔ ٹھیک 23ویں روز ایک اور راسخ الفکر عالم باعمل کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔
ضبطِ فغاں بھی طرفہ قیامت
آہ!فغاں بھی کارِ زیاں
شیخ طلاء محمد جید عالم دین، عظیم داعی اور مربی تھے۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام رستمی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مفتی عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کے تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آپ کے خاندان نے باجوڑ اور اس سے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں فکرِحدیث کو اجاگر کرنے کے لئے قیامِ مساجد ومدارس کے حوالے سے لائق تحسین خدمات پیش کیں۔
مولانا طلاء محمد مرحوم نے اپنے اساتذہ سے فقہ السنن میں خصوصی استفادہ کیا۔
وہ تعلیمی میدان میں امتیازی درجہ حاصل کر کے کامیابی سے سرفراز ہوئے۔
مولانا مرحوم ایک سنجیدہ اور نکتہ رس خطیب تھے،ان کی خطابت میں اسلاف کی جھلک ملتی تھی، انہوں نے کچھ عرصہ سے باجوڑ میں اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے لئے علمی مکالمہ کا آغاز کیا تھا،جس میں انہوں نے دفاع صحابہ و عظمتِ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کے فروغ کے لئے مثالی کوششیں کیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا طلاء کی شہادت کے پیچھے وہی خفیہ ہاتھ ہیں، جنہیں وطن عزیز میں امن وامان گوارا نہیں،آج حکومت پاکستان نے غیر ملکیوں کو پاکستان چھوڑنے کی سختی سے ہدایات جاری کی ہیں،اور اس سلسلے میں بعض ممالک کی سرحدات کی طرف خودبخود انگلیاں اٹھتی چلی گئیں،مولانا طلاء محمد کے قاتل اس فیصلے کے متاثرین سے بھی ہو سکتے ہیں، دشمنانِ صحابہ کی کارروائی بھی ممکنات میں شامل ہے۔ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی اس قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔
کیا کھبی روک بھی سکتے ہیں سفر سورج کا
وہ اندھیرے جو اجالوں سے حسد رکھتے ہیں
مولانا طلاء محمد کے قتل کی جس قدر مذمت کی جائے،کم ہے،وہ دین اور وطن عزیز کے سچے حب دار تھے،ایسے لوگ یقیناً معاشرے کے لئے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں،مولانا طلاء محمد ایسی شریف النفس شخصیات کا قتل حکومت وقت کے لئے ایک چیلنج ہے،ہمارا مطالبہ ہے کہ اس اندھے قتل کے ذمہ داروں کو فوری گرفتار کر کے قرارِ واقعی سزا کا مستوجب ٹھہرایا جائے۔ یہی عدل کا تقاضا ہے اور وطن عزیز کی نظری اور فکری سرحدوں کا تحفظ بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔
دعا ہے اللہ تعالی مولانا کے قاتلوں کا پردہ چاک فرمائے اور انہیں نیست ونابود کرے، مولانا کی مظلومانہ شہادت کو قبول فرما کر ان کے لئے توشہ آخرت بنا دے، ان کے پسماندگان کا حامی وناصر ہو اور ان کی جاری دینی خدمات کا تسلسل ان کی آل واولاد میں جاری کر دے،جماعت ومسلک کی آبیاری کے لئے اس خلا کو پر فرما دے۔ آمین
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔آمین
حمیداللہ خان عزیز