[شوھر کی بات مانوں یا “امیر محترم” اور “نظم” کی؟]
کتاب وسنت میں موجود سمع وطاعت، امیر اور امراء، الجماعة اور اجتماعیت والی نصوص کو اپنی اپنی جماعتوں تنظیموں آرگنائزیشنز اور ان کے بے اختیار امراء پر چسپاں کرنا، یہ ان نصوص کے ساتھ کھلواڑ اور ان شرعی اصطلاحات کے ساتھ ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے!
نا ہی ان جماعتوں کی حیثیت یہ ہے کہ ان میں داخل ہونے والا کوئی خاص فضیلت پا لے اور ان سے جدا ہونے والا کسی گناہ کا مرتکب ہو جائے، نا ہی ان کے امراء کی یہ حیثیت ہے کہ ان کی “بیعت” سے ہاتھ کھینچ لینے والا جاھلیت کی موت مرے، اور نا ہی ان جماعتوں کی بنیاد پر الولاء والبراء قائم کیا جا سکتا ہے، کہ جو فلاں جماعت میں ہو وہ ہمارا بھائی اور قابل محبت ہے اور جو اس سے نکل جائے وہ قابل نفرین، بلکہ یہ سب چیزیں اور ایسے رویے حزبیت، جماعت پرستی اور ممنوعہ تفرقہ کی صورتیں ہیں۔ اور ان کے مفاسد مسلمانوں کے معاشرے پر انگنت ہیں۔
خصوصاً وہ خواتین جو ایسی جماعتوں کا حصہ ہوتی ہیں، بعض اوقات وہ اپنے شوہر کی بات کے مقابلے میں بھی اپنے “امیر” اور “نظم” کی اطاعت دینی فریضہ سمجھ کر پورے خلوص سے کر رہی ہوتی ہیں، نتیجتاً گھروں کے ٹوٹنے تک نوبت آ جاتی ہے، حالانکہ اس کے لیۓ شوھر کی اطاعت، والدین کی اطاعت سے بھی بڑھ کر مؤکد اور نصوص قطعیہ سے ثابت ہے، جبکہ ان پارٹیوں اور جماعتوں کے ذمہ داران اور نظم وضبط کی پابندی زیادہ سے زیادہ ایک انتظامی نوعیت کی چیز ہو سکتی ہے، بالکل ایسے جیسے انسان کسی ادارے میں کام کرتا ہے یا کسی ادارے میں زیر تعلیم ہوتا ہے تو ان کے قوانین اور نظم وضبط کی پابندی کرتا ہے، اور اس سے زائد کچھ نہیں۔
اس بیماری کا شکار زیادہ تر ایسی دینی جماعتوں کے وابستگان ہوتے ہیں جن کے یہاں اپنی جماعت کو “الجماعة” سمجھا جاتا ہے، اسی لیۓ شادی کرنے والے نوجوانوں کے لیۓ بھی یہ مفت نصیحت ہے کہ اس چیز کا خیال شادی سے پہلے ہی کر لیں کہ جس خاتون سے میں شادی کرنے جا رہا ہوں وہ میرے علاوہ اور کس کس “امیر” کے “زیر اطاعت” ہوں گی اور اس کی میرے گھر کے انتظام پر توجہ زیادہ ہو گی یا “پارٹی نظم” پر زیادہ فوکس ہو گا۔ اور وہ میرے گھر کو بسائے گی یا دھرنوں اور مظاہروں کو آباد کرے گی۔
خیر اندیش: سید عبداللہ طارق
یہ بھی پڑھیں:تمذہب، تقلید یا اتباع؟ اہل حدیث کا منہج




