معزز قارئین! سوشل میڈیا بروز قیامت ہمارے حق میں حجت ثابت ہو اور ہمارے لیے وبال جان نہ بنے اس کے لئے چند اہم گزارشات پیش خدمت ہیں:
1.حدیث تحقیق کے بعد ہی نشر کریں: صحیح مسلم کے مقدمہ کی ایک حدیث ہے، پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ»
ترجمہ: ”جو شخص میری طرف منسوب کر کے کوئی حدیث بیان کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ شخص بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے”۔
اس لیے ایسی ہی احادیث شیئر کریں جن کی صحت بارے میں آپ کو یقین ہو تاکہ آپ اس وعید میں شامل نہ ہوں۔
2.کسی کا مذاق نہ اڑائیں: پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: «بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ»، آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (سنن الترمذي حدیث نمبر 1927)
اس لیے کوئی ایسا میسج یا پوسٹ نہ کریں جس میں کسی مسلمان بھائی کی ذات پر طنز یا کسی خاندان اور قبیلے پر تنقید ہو اگرچہ ہنسی مذاق اور لطیفے کے طور پر ہی کیوں نہ ہو۔
3.سوشل میڈیا والدین کی خدمت میں رکاوٹ نہ بنے: بخاری اور مسلم کی حدیث ہے کہ ام جریج نے اپنے بیٹے پر بد دعا کر دی جب انھوں نے ماں کی پکار سننے میں دیر کر دی۔ چنانچہ ماں کی بد دعا بیٹے کے حق میں قبول ہوگئی۔ حالانکہ بیٹا نماز میں مشغول تھا۔ (دیکھئے صحیح البخاري (1206) (3436) ومسلم (2550)
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے یہ باب باندھا ہے «بَابُ تَقْدِيمِ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى التَّطَوُّعِ بِالصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا». کہ نفل نماز وغیرہ جیسی عبادات پر والدین کی اطاعت و خدمت مقدم ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا پر آپ خواہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں والدین کی پکار پر لبیک کہنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کریں۔
4.پردہ پوشی کریں: صحیح مسلم کی حدیث ہے«وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ» کہ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اس کی بھی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (صحيح مسلم حدیث :2699)
اسی لئے جب کسی کی رسوائی اور بدنامی کی کوئی چیز آپ تک پہنچے تو اسے ادھر ادھر نہ پھیلائیں تاکہ دنیا اور آخرت میں آپ اللہ کی پردہ پوشی کے مستحق بن سکیں۔
5.فواہ نہ پھیلائیں: صحیح بخاری کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے والے اور جھوٹ پھیلانے والے کو عذاب میں مبتلا دیکھا «بحدِيدة يُشَرْشرُ بها شِدْقه إِلَى قَفَاهُ، وَمَنْخِرهُ إِلَى قَفَاهُ، وَعَيْنهُ إِلَى قَفَاهُ» فسأل عن سبب عذابه فقيل: «هو الرَّجُلُ يَغْدُو مِنْ بَيْتِهِ، فَيَكْذِبُ الكذْبَةَ تَبْلُغُ الآفَاقَ».
ترجمہ: جس کا جبڑا گدی تک اور ناک گدی تک اور آنکھ گدی تک چیری جا رہی تھی۔ یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹی خبر (افواہ) تراشتا، جو پوری دنیا میں پھیل جاتی۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 7047)
آجکل افواہوں کے اسباب و وسائل کی کثرت اور لوگوں کے اندر تصدیق و تحقیق کی کمی کے سبب بکثرت افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ لہذا اس سلسلے میں قرآن کی طریقے اور منہج پر چلیں یعنی کوئی بھی چیز کہنے یا لکھنے سے پہلے اس کی تحقیق کریں۔
6.خیر و بھلائی کی نشر و اشاعت اور برائی کے ازالے کے لیے بکثرت تحریریں لکھیں: بکثرت لکھنے کے نتیجے میں نہ جانے کتنی برائیوں اور منکرات کا ازالہ ہوا اور نہ جانے کتنے پریشان حال لوگوں کو مدد ملی اور بے شمار بدعات و خرافات کا خاتمہ ہوا۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ لوگوں نے مل کر خوب اس کے بارے میں لکھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور تعاون کیا۔ یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
7.گناہ جاریہ سے بچیں: افسوس اس شخص پر جو اس دنیا سے رخصت ہو جائے مگر اس کے گناہ سو دو سو سال یا اس سے بھی زیادہ مدت تک اس دنیا میں باقی رہیں اور قبر میں اس کی پاداش میں وہ سوال و عذاب سے دوچار ہو۔{وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ) سورة يس 12
ترجمہ: اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
اس لیے اگر آپ کسی معصیت میں مبتلا ہیں تو اسے اپنے اور اپنے رب کے درمیان محدود رکھیں اور ایسی چیز نشر کرنے سے بچیں جس کا گناہ آپ کے سر جائے۔ نیز بندوں کے لئے اللہ کی معصیت کا راستہ ہموار نہ کریں۔
8.آپ کا رب آپ کو دیکھ رہا ہے: درحقیقت یہ آلات آپ کے تقوی اور آپ کے مراقبہ کو جانچنے کا ایک وسیلہ ہیں۔ کتنی بڑی نیکی ہے کہ آپ تنہائی میں میں بری چیزیں دیکھنے پر قادر ہونے کے باوجود اللہ کے خوف اور ڈر کی وجہ سے برائی سے باز آ جائیں تاکہ آپ اللہ تعالی کے اس عظیم الشان اعزاز سے سرفراز ہوسکیں (اِنَّ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ) ﴿الملك۱۲﴾.
ترجمہ: بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور بڑا ثواب ہے ۔
9.سوشل میڈیا کو دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کریں: دعوت و تبلیغ کا بہت ہی اہم پلیٹ فارم آپ کو ملا ہوا ہے۔ چنانچہ آپ جہاں کہیں بھی رہیں وہاں بیٹھ کر ایک کلک کے ذریعے دعوت و تبلیغ کا عمل انجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے علمی فوائد، صحیح احادیث اور نفع بخش ویڈیوز کا انتخاب کرکے اسے ارسال کریں۔ کیونکہ نیکی پھیلانے والے کو بھی نیکی کرنے والے کی طرح اجر ثواب اب ملے گا۔
10.درست اور خالص نیت کے ساتھ ان وسائل کا استعمال کریں: سلیمان بن داؤد الھاشمی فرماتے ہیں: بسا اوقات میں کوئی حدیث بیان کرنے جاتا ہوں اس میں میری نیت کچھ ہوتی ہے لیکن جیسے ہی کچھ حدیث بیان کرتا ہوں میری نیّت بدل جاتی ہے۔ چنانچہ ایک ہی حدیث میں کئی بار نیت کو درست کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
نیت بدلتی رہتی ہے اس لیے اس کی درستگی کا ہمیشہ خیال کریں خاص طور سے ان وسائل میں جہاں دکھاوا، تصنع اور بناوٹ بہت ہے۔
آخر میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس نصیحت پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ فتح الباری (11/ 321) میں فرماتے ہیں: تھوڑی سی بھلائی کرنے یا چھوٹی سی برائی سے بچنے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ انسان کو نہیں معلوم کہ کس نیکی کی بدولت اللہ تعالی اسے اپنے رحم و کرم سے ڈھانپ لے گا اور نہ جانے کس گناہ کی پاداش میں وہ اللہ کے غیظ و غضب کا شکار ہو جائے گا۔

شاہد سنابلی   
(عربی سے منقول)