قمیض کی دو جيبىں ہىں، دو واسکٹ کی ہىں اور ایک مکمل شولڈر بیگ بھی ساتھ ہے، لیکن گاڑی کی رىموٹ چابی اور آئی فون رکھنے کے لیے جگہ دستیاب نہیں ہے۔۔۔۔ یہ دکھلاوا اور سٹیٹس كى برتری ہمارے کلچر میں عام کامن سینس ہوتی جارہی ہے، پبلک مقامات پر تو بہت زیادہ یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے، جیسے شاپنگ مالز، یونیورسٹیز ، شادى بياہ کےموقع پر، دفاتر حتى كہ احساس کمتری کے شکار یہ لوگ جنازوں مىں بھی دکھلاوا کرنے سے شرم محسوس نہیں کرتے۔
رات كو تو اخىر ہى ہوگئى فیس بک پر ایک تصویر نظروں سے گزری جس میں ایک صاحب بیت اللہ کے سامنے عمرہ جیسی سعادت حاصل کرنے کے بعد كالا چشمہ لگائے اپنے چىنل كى برينڈنگ كرتے نظر آئے۔ لاحول ولا قوة الا باللہ۔
اسی طرح ایک دفعہ ہم ایک رشتہ دیکھنے گئے تو لڑکا مسلسل آئی فون 12 کی کیمروں والی سائیڈ ہماری طرف کیے رکھی، اور تقریبا ہر اینگل سے اپنے آئی فون کو ہمیں دکھانے کی کوشش میں لگا رہا۔۔۔ ان کے گھر ہی میں میرے آئی فون 13 پر رنگ ہوئی تو میں نے موبائل نکالا اور فون سننے لگا، پھر اس کے بعد اس نے اپنا موبائل جیب میں رکھ لیا۔
اسی طرح ہمارے ہاں یونیورسٹی میں ایک نئے ٹیچر کی پوسٹنگ ہوئی وہ مجھے پرانا جاننے والے تھے، میں نے کہا کس پر آتے ہیں کہنے لگے بائیک پر ، پھر ایک دن میرے ٹیبل پر گاڑی کی چابی دیکھی تو اگلے دن میرے آس پاس کار کی ایک لمبی سے چابی انگلی میں گھماتے ہوئے ٹہلتے رہے۔۔۔ میں نے مسلسل اگنور کیا تو ایک دن کہنے لگے مجھے گاڑی پارک کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
پھر ایک دن میں نے انہیں بائیک پر جاتے دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ گاڑی کی چابی صرف سٹیٹس سمبل اور دکھلاوے  کے لیے اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔
ایسے کئی واقعات ہیں جنہیں یہاں درج کیا جاسکتا ہے، یقینا آپ کے پاس بھی کوئی ایسے نمونے ہوں گے جنہیں کمنٹس میں بتایا جاسکتا ہے۔

عبد الباسط عابد