رانی پور کی معصوم بچی فاطمہ کے بہیمانہ قتل پر لکھا گیا کالم
﴿ سنو! اے مذہبی جلادو سنو ! ﴾

اندھیرے انتہائی گہرے ہوتے جا رہے ہیں، تاریکیاں اب مکمل بدمعاشی پر اتر آئی ہیں، تیرگیوں نے مختلف لبادوں میں ایک کہرام مچا رکھا ہے، جرائم انتہائی مہیب سے مہیب شکلوں میں برآمد ہوتے ہیں اور دلوں میں ایسے بھالے گھونپ جاتے ہیں کہ لوگ تلملا اٹھتے ہیں۔

تقدیس کی چادر میں لپٹے، تکریم کی قبا اوڑھے، ان بدکرداروں کے دل و دماغ میں ایسی فرعونیت گُھسی بیٹھی ہے کہ ان کی حیوانیت کے سامنے جنگلی درندے بھی ہیچ اور کم تر نظر آتے ہیں۔ ایک جج کی چڑیل اہلیہ کے ظلم و جبر کے گھاؤ ابھی تازہ ہیں کہ رانی پور کے پیر اسد شاہ کے دل فگار لچھن اور بدنما کرتوت دیکھ کر انسانیت تڑپ کر رہ گئی ہے۔

گرم ترین علاقے رانی پور کے پیر اسد شاہ اپنے یخ بستہ کمرے میں لحاف کے اندر بالکل برہنہ پڑا ہُوا ہے، ساتھ ہی فرش پر 10 سالہ ننھی بچی فاطمہ اپنے زخم آلود جسم کے ساتھ کراہ رہی ہے۔ایک عورت کمرے میں داخل ہوتی ہے، ننھی فاطمہ اپنے زخمی وجود کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کرتی اور وہیں مَر جاتی ہے، بدکردار اور کَل مُنہا پِیر اسد شاہ برہنہ بستر سے باہر نکل کر بچی کا ہاتھ اٹھاتا ہے جو نیچے گر جاتا ہے۔خون آشام اسد شاہ کے سنگلاخ دل میں ذرا ترحمانہ جذبات نہیں پیدا ہوتے، اس کے پتھریلے دل پر اس دل دہلا دینے والے قتل کا کوئی اثر نہیں ہوتا کہ چھوٹی سی بچی اسی کے کرتوت سے مر چکی ہے، آخر مذہبی لبادے میں یہ گھناؤنے اور خوں خوار کھیل کب تک ہوتے رہیں گے؟

یہ گھامڑ اور جنگلی درندوں سے بدتر لوگ کب تک معصوم کلیوں کے جسموں کو کتوں کی طرح بھنبھوڑتے رہیں؟ آخر کب تک یہ شیاطین کسی جنونی سانڈ کی مانند اس معاشرے کی عزت آبرو کو لتاڑتے اور روندتے رہیں گے؟ سندھ میں آج بھی ” بھٹو زندہ “ ہے، پتا نہیں کب تک سندھ کا ” زندہ بھٹو “ یہ حیوانیت اور خباثت دیکھتا رہے گا؟ آصفہ بھٹو کہتی ہے ” کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ کا قاتل اسد شاہ وحشی درندہ ہے، اسے سخت سے سخت سزا دی جائے “ یہ جملے محض بیانات کی حد تک ہیں، اگر ایسے جنسی بھیڑیوں کے لیے سزا کا عمل ہی ہوتا تو آئے دن ایک سے بڑھ کر ایک انسانیت سوز واقعہ رونما نہ ہوتا۔

ایسے بھیڑیوں کو اول تو سزا ملتی ہی نہیں اور اگر کسی کو سزا مل بھی جائے تو جیل کے اندر سزا دی جاتی ہے، جس کا دیگر درندوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اگر ایسے مجرموں کو کسی جیل میں سزا دینے کی بجائے سرِعام سزا دی جائے اور اس سزا کی ویڈیوز وائرل کی جائیں تو ایسے جرائم رک سکتے ہیں، بہ صورتِ دیگر ایک ” زندہ بھٹو “ کیا ہزاروں بھٹو بھی زندہ ہوں تو وہ ایسے انسانیت سوز جرائم کو نہیں روک سکتے۔
آصفہ بھٹو نے ایک اور ” حکمت افروز “ بات بھی کی کہ ” چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے “ اس کا جواب ڈاکٹر عمر عادل نے دیا ہے کہ اگر بچوں کو کام سے روکیں گے تو پھر ان کے گھر کا چولھا کیسے جلے گا؟ کون ان کے گھر کے اخراجات پورے کرے گا؟ کیا اس ملک میں کوئی ایسا نظام موجود ہے کہ بچوں کو مزدوری سے روک کر ان کے گھر کے اخراجات حکومت برداشت کرے۔۔۔۔؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔مزدوری تو ان بچوں نے بہ ہر حال کرنی ہے لیکن اس کا یہ مقصد قطعاً نہیں کہ ان بچوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کر کے ان کے ساتھ جنسی درندگی کرنے کے بعد قتل ہی کر دیا جائے۔
سنو، اے مذہبی لبادے میں لپٹے جانورو سنو! موت تو تمھیں بھی آئے گی، تم ایسے وحشیانہ افعال لے کر کس طرح اپنے اللہ کو اپنا منہ دِکھا پاؤ گے؟
خیرپور کے علاقے رانی پور میں اسد شاہ نامی پیر کی پراسرار حویلی میں معصوم بچیوں پر وحشی انداز میں جنسی درندگی کے بعد قتل جیسے ہولناک جرائم نے ان پیروں کی سفاکیت کا مزید بھانڈا پھوڑ دیا ہے، وحشی پیر اسد شاہ کے گھر کی ایک اور ملازمہ بچی ثانیہ کہتی ہے کہ پِیر کی سفاک بیوی جب مجھے مارتی تھی تو دہشت سے بخار ہو جاتا تھا، معصوم بچی ثانیہ کے بہ قول جب پیر کی بیوی قتل کی جانے والی فاطمہ کو بھی مارنا شروع کرتی تو ڈر کی وجہ سے مَیں اسے چھڑاوا نہیں سکتی تھی۔

ایک بار مجھے بھی مارا، مار مار کر میرا منہ سُجا دیا، ثانیہ مزید کہتی ہے کہ پیر کی بیوی کبھی فاطمہ کو مارتی، کبھی اس کو گلے سے دباتی، کبھی بالوں سے پکڑ کر دیواروں سے سَر ٹکراتی تھی، ہم فاطمہ کو تڑپتا دیکھتی تھیں مگر کچھ کر نہیں سکتی تھیں، پیر کی ڈائین بیوی پانی تک نہیں پینے دیتی تھی۔
ایک اور بچی کا نام اجالا ہے، یہ کہتی ہے کہ وہ بھی رانی پور کے پیر اسد شاہ کے گھر ملازمہ تھی، اس نے پیر اسد علی شاہ کی بیوی حنا شاہ کے بہت مظالم برداشت کیے۔اجالا کہتی ہے کہ حنا شاہ سارا دن گھر کا کام کراتی تھی ،اگر کوئی غلطی ہو جاتی تو دوسرے ملازموں سے تشدد بھی کرواتی تھی، ایک دن مجھ سے تیل کی بوتل گر گئی تھی تو حنا شاہ نے مجھے خود ڈنڈے اور وائپر سے مار مار کر ادھ مُوا کر دیا تھا۔اجالا نے ایک اور حیران کن انکشاف کیا کہ اسد شاہ کی بیوی غلطی کی صورت میں سزا کے طور پر پانی ابال کر پلاتی تھی اور اس قسم کا سارا تشدد برداشت کر کے اسے ملازمت کے عوض صرف 4 ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے۔

پھر ایک دن وہ صبح سویرے موقع پا کر حویلی سے بھاگ کر اپنے رشتے داروں گھر گئی، جہالت میں اٹے اس کے رشتہ دار اسے حویلی واپس جانے کا کہتے رہتے ،اجالا نے کہا میں مرجاؤں گی لیکن واپس حویلی نہیں جاؤں گی۔

سنو اے مذہبی درندو! معصوم کلیوں کے یہ گِریے اور نوحے رب کے ہاں تمھارا غلیظ جسم نوچیں گے، قتل ہونے والی فاطمہ کی بلکتی آہیں تمھارا گریبان ضرور پکڑیں گی۔سنو اے خوں خوار جلادو! تمھاری بدخصلتی، بدچلنی اور بدطینتی کی سزا تمھیں مل کر رہے گی۔

( ان شا ء اللہ )

 انگارے۔۔۔حیات عبداللہ