سپریم کورٹ میں حق کی فتح

شیخ الحدیث مولانا محمد حنیف جالندھری
سپریم کورٹ مبارک ثانی کیس کے حوالے سے جو صورتحال پیدا ہو گئی تھی اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے اس فیصلے کی تصحیح کر دی گئی یوں ملک و قوم کو ایک بڑے بحران سے نجات مل گئ اور تاریخ کا قرض بروقت ادا کر دیا گیا- سپریم کورٹ فیصلے میں جو آئین و قانون، شریعت اسلامی اور حقائق کے منافی شقیں تھیں وہ حذف کر دی گئیں جو بلاشبہ ایک بڑی کامیابی،پوری قوم کے لیے فتح مبین اور بہت دانش مندانہ فیصلہ ہے جس کے مستقبل پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے- انشاءاللہ جس وقت مبارک ثانی کیس کا آغاز ہوا اس وقت راقم الحروف قران بورڈ پنجاب کا چیئرمین تھا چونکہ قران مجید کی توہین و تحریف اور قرآن کریم کے حوالے سے جعل سازی کا معاملہ تھا اور قران ایکٹ کی دفعات زیر بحث تھیں لیکن شروع میں تو ایف آئی آر ہی نہیں ہو رہی تھی اس کے لیے اللہ رب العزت مجھے بھی توفیق عطا فرمائ اور خاص طور پر اس وقت کے وزیر اعلی چودھری پرویز الٰہی صاحب نے اس حوالے سے بہت موثر کردار ادا کیا۔اس موقع پر ہم نے قران بورڈ کے ممبران کی خصوصی کمیٹی بنائی- تھانہ چناب نگر کے ایس ایچ او اور دیگر متعلقہ لوگوں کو قران بورڈ کے خصوصی اجلاس میں طلب کیا- تمام حقائق وشواہد اور تفصیلات معلوم کیں جن کا مکمل ریکارڈ اور دستاویزات قران بورڈ پنجاب میں موجود ہے- یوں بالکل ابتدا سے ہی مجھے اس سارے معاملے کی تمام جزئیات و تفصیلات کا علم تھا اور ابتدا سے لے کر 22 اگست 2024 کے فیصلے تک اس کیس کے حوالے سے جو نشیب و فراز آئےاور جن جن مراحل سے گزر کر یہ کیس یہاں تک پہنچا اس پر مکمل نظر تھی-اس لیے ہم نے کبھی بھی اس کیس اور اس کے ضمن میں ہونے والے معاملات کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل یا کمزور بنیادوں پر کوئی موقف اختیار نہیں کیا بلکہ مکمل شرح صدر، آثار و قرائن،دلائل و شواہد اور تمام شرعی تعلیمات اور قانونی باریکیوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور ہر فورم پر اس کیس کے حوالے سے عدل و انصاف اور توازن سے وہی رائے پیش کی جو حقائق سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھی-یہ ایک عام سا کیس تھا اور اس کا فیصلہ ٹرائل کورٹ سے ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے اس کیس میں مکمل کیس نہیں بلکہ صرف ضمانت کا معاملہ انتہائی تیزی سے تمام لوئر کورٹس کے مراحل عبور کرتا ہواسپریم کورٹ پہنچ گیا…میڈیا کی زینت بن گیا۔ عالمی اور بیرونی قوتوں کی نظر میں آگیا اور جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ ہمارا نظام عدل و انصاف کسی حقیقی مظلوم کو انصاف دے نہ دے مذہب کی توہین کرنے والوں اور مذہب کے حوالے سے بیرونی قوتوں کے ایماء پر چلنے والوں کے لیے ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی چور راستہ نکال دیا جاتا ہےاور پھر عدل و انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر کسی قسم کی سزا ملنے کے بجائے ایسے افراد کو رہا کرکے بیرون ملک بھجوا دیا جاتا ہے- اس کیس میں بھی یہی ہوا کہ مبارک ثانی کو نہ صرف یہ کہ ضمانت دے دی گئی بلکہ بدقسمتی سے بلا وجہ ضمانت کےمعاملے کو اتنا طول دے دیا گیا…اتنا پیچیدہ کر دیا گیا اور اس میں غیر متعلقہ طور پر ایسی مباحث شامل کر دی گئیں جو بالکل ہی غیر ضروری اور غیر متعلقہ تھیں اور اسلامی تعلیمات,قانونی اور دینی حقائق کے سراسر منافی تھیں- مبارک ثانی کیس کا پہلا فیصلہ فروری 2024میں سنایا گیا جب اس کی تفصیلات سامنے آئیں تو اس پر اعتراضات اٹھنا فطری امر تھا-الحمدللہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں,اداروں اور شخصیات نے قانونی راستہ اپنایا اور اس فیصلے کے خلاف از خودنظر ثانی اپیل بھی دائر نہیں کی گئ بلکہ پنجاب حکومت سے اپیل کی گئ اور پنجاب حکومت کی طرف سے نظر ثانی اپیل دائر کی گئی۔ نظرثانی کی عدالتی کاروائی سے قبل محترم چیف جسٹس صاحب نے پاکستان کے 10 بڑے اداروں کے نام خطوط لکھ کر ان سے آراء وتجاویز اور ان سے معاونت مانگی- یہ وہ موقع تھا کہ جس میں سیکولر اور لبرل لوگوں کا خیال تھا کہ شاید مختلف اداروں اور شخصیات کی آراء مختلف ہو جائیں گی اور یہ معاملہ مزید پیچیدہ اور متنازعہ ہو جائے گا لیکن اللہ رب العزت حضرت صدر وفاق شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ان کا سایہ عافیت کے ساتھ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھیں-انہوں نے خصوصی اہتمام کیا۔ گرامی قدر حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب اور راقم الحروف نے اس حوالے سے خصوصی محنت اور فکر کی- مولانایاسین ظفر صاحب اور اتحاد تنظیمات مدارس کے ہمارے دیگر رفقاء نے ہمیشہ کی طرح بھرپور ساتھ دیا اور الحمدللہ ہم سب اداروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں مشترکہ موقف پیش کرنے میں کامیاب ہوئے-ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مشترکہ موقف کی تحسین و تائید کی جاتی اور اس میں اٹھائے گئے دلائل و نکات کو پیش نظر رکھا جاتا لیکن بدقسمتی سے 29 مئی کو سپریم کورٹ کی طرف سے جو فیصلہ آیا اس میں اس اجتماعی اورمشترکہ موقف کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔۔اس کیس سے دفعہ 298 سی اور 298 بی کو لا تعلق کر دیا گیا… امتناع قادیانیت آرڈیننس کو نظر انداز کیا گیااور ایک ایسا فیصلہ آیا جس کی کسی کو توقع نہ تھی جو قانون و شریعت کے بالکل منافی تھاجس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونافطری امر تھا- اس قسم کے مذہبی کیسز میں میں بارہا جو تجربات ہوئے ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے بالکل واضح طور پر محسوس ہو رہا تھاکہ قادیانیوں کے حوالے سے مغربی اور بیرونی قوتوں کی طرف سے جو دباؤ ہے اس کے زیر اثر یہ فیصلہ آیا… قادیانیت کے حوالے سے ان بیرونی قوتوں کے مقاصد کی تکمیل حکومتیں نہیں کر پاتیں تو پھر عدلیہ کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ قادیانیوں کو تبلیغی سرگرمیاں اور جعل سازی جاری رکھنے کا جواز مہیا کیا گیا- اس لیے اندرون اور بیرون ملک مسلمانوں میں اضطراب اور اشتعال پیدا ہوا- پوری قوم ہی ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ دوبارہ سے تمام مکاتب فکر کی سرکردہ شخصیات نے باہم رابطے کیے… سر جوڑ کر بیٹھے… حالات کی نزاکت اور حساسیت کو پیش نظر رکھا… مشترکہ موقف کا اظہار کیا…سب نے بیک آواز نظر ثانی فیصلے کو مسترد کردیا اور اس کی منسوخی پر زور دیا گیاچنانچہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام اسلام اباد میں اے پی سی طلب کی گئ- میں نے اے پی سی میں شرکت کے لیے ملتان سے خصوصی طور پر سفر کیا اوراے پی سی میں اظہار خیال اور تجاویز پیش کرنے کے لیے الحمدللہ کافی تیاری کی،تمام متعلقات دستاویزات اور کتب کی ورق گردانی کی- قانونی ماہرین سے مشاورت کی اور اس معاملے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ رب العزت کی توفیق سے جو گفتگو کی اسے نہ صرف یہ کہ اے پی سی میں شریک اور موجود قیادت نے خوب سراہا بلکہ ملک بھر میں ائمہ و خطباء نے اسی کی روشنی میں خطبات جمعہ کی تیاری کی اور پورے ملک میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے جو فضا بنی اور جو موقف سامنے آیا وہ یہی تھا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی ضروری ہے اگر بروقت اس کی تصحیح نہ کی گئی اور اس کے متنازعہ پیراگراف حذف نہ کیے گئے تو ہمیشہ کے لیے قادیانیت کے بارے میں پوری تاریخی اور آئینی جدوجہد غیر موثر ہو کر رہ جائے گی بلکہ قادیانیوں کو اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھنے کی چھوٹ مل جائے گی-اس صورتحال میں 19 اگست 2024 ء کو اسلام اباد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مشترکہ مظاہرہ کیا گیا جس میں ہمارے رفقاء مولانا قاضی عبدالرشید صاحب، مولانا ظہور احمد علوی صاحب،مولانا نذیر فاروقی صاحب اور اسلام اباد اور راولپنڈی کے دیگر احباب نے خوب محنت کی اور ایک تاریخی،عظیم الشان اور یادگار مظاہرہ ہوا- اس دوران پارلیمنٹ میں بھی مختلف جماعتوں کے ممبران کی طرف سے اسلامیان پاکستان کے جذبات کی بہت اچھے انداز میں ترجمانی کی گئی اور ہر سطح اور ہر حوالے سے اس معاملے کو سلجھانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اللہ رب العزت سے اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں-پارلیمنٹ کی کمیٹی بنی،وفاق پاکستان اور پنجاب حکومت کی طرف سے نظرثانی اپیلیں دائر کی گئیں اوربالاخر 22 اگست2024ء اس کی تاریخ سماعت کے لیے مقرر کی گئ- اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے دوبارہ کچھ شخصیات کو سپریم کورٹ کی معاونت اور کاروائی کی سماعت کے لیے مدعو کیا جن میں حضرت صدر وفاق شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب بھی شامل تھے حضرت چونکہ ترکیہ کے سفر پر تھے اس لیے آپ نے پہلے ہی تحریری طور پر اس فیصلے کی تصحیح کے لیے تجاویز اور مجوزہ تبدیلی کی عبارت ارسال کر دی تھی لیکن سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران آپ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کاروائی میں شامل ہوئے چونکہ حضرت صدر وفاق دامت برکاتہم العالیہ نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کی مقبول اور ہر دلعزیز دینی و علمی شخصیت ہیں بلکہ آپ معروف قانون دان بھی ہیں اور شریعت اپیلٹ بنچ کے جج کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں بلکہ 1974ء میں جب قادیانیت کے حوالے سے قانون سازی ہوئ اور قادیانیت کا معاملہ اسمبلی میں زیر بحث آیا اس وقت بھی امت مسلمہ کی طرف سے جو مشترکہ موقف اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا وہ بھی آپ نے اپنے رفیق کار شہید اسلام حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کے ساتھ مل کر مرتب کیا تھا یوں آپ قانون، تاریخ، شریعت اور پارلیمانی پس منظر پر جیسی گرفت اور نظر آپ رکھتے ہیں ایسی شاید ہی کسی اور کی ہو-یہی وجہ ہے کہ فیصلے میں جو تصحیح کی گئ وہ من و عن وہی تھی جو حضرت دامت برکاتہم العالیہ نے مختصر اور جامع انداز سے تجویز کی تھی۔ سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل کی سماعت کے موقع پردیگر کئی اہم شخصیات اور ان کے نمائندوں کے علاوہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب اپنے رفقاء سمیت بنفس نفیس عدالت پہنچے۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی سپریم کورٹ میں حاضری کو غیر معمولی اہمیت دی گئ۔ مولانا پوری کارروائی کے دوران سپریم کورٹ میں موجود رہے۔ آپ اور دیگر قائدین نے شیخ الاسلام مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کے موقف اور پیش کردہ تجاویز کی تائید و حمایت کی اور محترم چیف جسٹس صاحب نے بھی بڑے کھلے دل اور واضح لفظوں میں نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کو تسلیم کیا بلکہ اس کی تصحیح کرکے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوگئے۔ اپ نے تاکیدا یہ حکم نامہ جاری کیا کہ اس فیصلے سے جو شقیں اور دفعات حذف کیے گئے انہیں کبھی بھی نظیر کے طور پر بھی پیش نہیں کیا جائے گا- یوں اللہ ربّ العزت کے فضل و کرم سے ستمبر 1974ء میں پارلیمنٹ میں اہل اسلام نے جس طرح ختم نبوت کا مقدمہ جیتا اس کے ٹھیک پچاس برس بعد سپریم کورٹ سے بھی ختم نبوت اور حق کا معرکہ جیت لیا- اس معاملے میں جس جس نے بھی کردار ادا کیا خاص طور پر مقدمہ کی پیروی کرنے والے حسن معاویہ اور ان کے رفقاء،بعد ازاں مختلف مراحل پر جن جن لوگوں نے اس عمل میں جس شکل میں بھی حصہ لیا خاص طور پر محترم چیف جسٹس اور پنجاب اور وفاق حکومت کا بہت شکریہ، اللہ ربّ العزت سب کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائیں۔امینکچھ لوگ اس معاملے کو طول دے کر تماشہ دیکھنا چاہتے تھے اور پاکستان میں دی اسلامائزیشن اور اسلامی قوانین کو غیر موثر بنانے کی کوششوں کی طرف پیش رفت کے طور پر اس معاملے کو دیکھ رہے تھے لیکن جب ان کی آرزوئیں خاک ہوئیں تو وہ اب بہت بری طرح پیچ و تاب کھا رہے ہیں ان کے لیے قرآنی الفاظ میں ’’قل موتوا بغیضکم‘‘ ہی کہا جا سکتا ہےلیکن اللہ کریم نے ہمیشہ کہ طرح پاکستان، پاکستان کے اسلامی آئین، پاکستان کے مذہبی تشخص اور ختم نبوت کا پرچم مزید بلند کیا اللہ پاک اس ملک کو قائم و دائم رکھیں اور صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ بنائیں۔ ( آمین )امید ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان جلد واضح طور پر تفصیلی فیصلہ جاری کردے گی اور اس میں تمام اہم امور کو ملحوظ رکھا جائےگا۔

عبدالعزیز آزاد

یہ بھی پڑھیں: والضحی نے مجھے کیا سمجھایا