سیدنا حسین کی اسلام کیلئے خدمات پوچھتے ہو؟

اب ذرا قریب قریب آجاؤ!
کئی طرح سے بات کرنے والے بات کرتے ہیں، وہ کرتے رہیں گے،سیدنا حسین سے محبت کی مگر ایک وجہ ہی اہل ایمان کیلئے کافی ہے،وہ وجہ یہ بھی ہے کہ حسین کی محبت سے اللہ اور رسول کی محبت ملتی ہے اور یہ محبت چھن جانے سے کملی والے کی محبت چھن جاتی ہے۔
کیا حسین سے محبت کی یہ وجہ کافی نہیں کہ حسین اس سینے کا سرور ہے،جس سینے سے نکلی ہر سانس ہمیں جان سے بڑھ کر محبوب ہے،حسین ان آنکھوں کا نور ہے،جن آنکھوں نے مجھے دیکھے بغیر مجھ ایسے گنہگار امتی کے لیے ہر رات آنسو بہائے ہیں،حسین ان لبوں کے بوسوں کا امین ہے،جن گلاب لبوں نے میری کائنات میں ایمان بھرا ہے اور جن لبوں سے پھوٹتے حرف شفاعت کی ساری کائنات محتاج ہے اور جن لبوں کے ذریعے رب نے ہمیں قرآن دینا پسند فرمایا۔
دل تنگ اور جب آدمی بصیرت سے ننگ ہوجائے تو یہی ہوتا ہے، جیسا کہ کچھ لوگ حسین کی اسلام کیلئے خدمات پوچھتے ہیں، اے بھائی اللہ نے اگر تمھاری عقل سلامت نہیں رکھی تو اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے۔ کیا تمھیں علم بھی ہے کہ نبیؐ سے ایسی عظیم نسبت کا دائرہ اثر کیا ہے؟ یہ تو خدائی امور میں سے ہے، اللہ نے چاہا کہ انسانیت کا عظیم ترین شخص مدینے کا ایک یتیم ہو اور حسین اس عظیم ترین شخص کا نواسہ ہو۔ تو گویا تمھیں اللہ پر اور اس کے انتخاب پر غصہ ہے۔ تم نے چاہا کہ اللہ کو میرٹ سکھایا جائے۔
اس طرح تو کل کوئی پوچھے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سردار انبیا کر دیا گیا، آخر ان کی اضافی خدمات کیا ہیں؟ کل کوئی کہے کہ فلاں شخص کی دین کے لیے محنت فلاں صحابی سے بڑھ کر ہے، کل کوئی کہے، دین میں محنت تو ہمارے عہد کی فلاں خاتون کی زیادہ ہے،سیدہ عائشہ کا مقام ایسا ارفع و اعلی کیسے ہوگیا؟ کل کوئی یہ کہہ ڈالے کہ جتنی احادیث امام بخاری نے لکھی ہیں، اتنی تو کسی ایک صحابی کو اکیلے یاد نہ تھیں، پھر حدیث میں مقام ابوہریرہ کا زیادہ کیسے ہوگیا؟ بات یہ ہے کہ فضیلت کبھی زمانے میں ہوتی ہے،کبھی شخصیت میں ہوتی ہے اور کبھی کسی جگہ میں ہوتی ہے۔
خوب سمجھ لیجیے کہ یہ طریقہ یہود کا ہے،انھوں نے اللہ کے انتخاب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ اللہ نے بنی اسحاق کی بجائے،بنی اسماعیل کو کیوں نواز دیا، کیا بگڑا؟ خود وہ آخری نبیؐ کی عظمت بھری چھاؤں میں آنے سے محروم رہے۔یہ طریقہ ابو جہل کا ہے، کہنے لگا، قرآن ہی اترنا تھا تو بستی کے دو بلند تر لوگوں پر کیوں نہ اتر آیا، مدینے کے ایک یتیم، عبداللہ کے بیٹے پر کیوں اتر آیا؟ اے بھائی ایک تو یہ اللہ کا انتخاب ہوتا ہے۔اسے آپ خدائی اور آسمانی میرٹ کہہ لیجیے۔کسے کب کیسے اور کتنا نوازنا ہے؟ یہ فیصلے مخلوق کے نہیں خالق کے ہوتے ہیں،جیسا کہ اللہ نے قرآن میں جواب دیا، اپنی رحمت نبوت گویا ہم تم سے پوچھ کے کسی کو عطا کرتے؟جبکہ اس سے کہیں کمتر نعمت معیشت تو ہم نے اپنی مرضی سےمنقسم فرمائی ہے تو گویا نبوت تمھاری مرضی سے دینی چاہیے تھی؟
جس طرح ملک ریاض کی پورے لاہور جتنی بڑی بنائی گئی کوئی مسجد بھی رسول رحمت کی چھپر سے بنی مسجد نبوی سے عظیم نہیں ہو سکتی۔ جس طرح بعد والے قرآن و حدیث کے شارح و مفسر ایک ایسے صحابی سے برتر تو کیا اس کے برابر بھی نہیں ہو سکتے، جس نے صرف رسول کو دیکھا، کلمہ پڑھا اور جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔یہاں میزان فضیلت کام نہیں، نبی کے چہرے کی ایمان بھری زیارت نصیب ہو جانا میزان ہے۔ صرف صحابی ہوجانا ہی اتنا اہم ہے کہ ساری زندگی اسلام کیلئے ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے والا کوئی مرد مجاہد بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا، جس طرح نبی کی محض بیوی ہوجانا اتنا بڑا اعزاز ہے،جو کسی صورت کسی خاتون کو نہیں مل سکتا۔ جیسے نبی کی بیٹی ہو جانا وہ اعزاز ہے،جو کسی بھی محنت سے کبھی کسی کو نہیں مل سکتا، یہ ایسی ہی بات ہے کہ ان نسبتوں سے ملنے والا ہر اعزاز منفرد و یکتا ہے، بے مثل بے مثال ہے۔،ابدلآباد تک لازوال ہے۔
کیا تم نے صحابہ کو نہیں دیکھا، ان نسبتوں کا کیسا انھوں نے پالن کیا،بات یہ ہے کہ وہ سچے محبوب نبی تھے اور ہم جھوٹے عاشق رسول۔ سیدنا ابوہریرہ سرتاج حدیث رسول ،ایک دن سیدنا حسین کے پاؤں سے مٹی صاف کرتے دیکھے گئے۔ پوچھنا ہے تو جا کے ابوہریرہ سے پوچھو،حسین کی اسلام کیلئے کیا خدمات ہیں؟ ایک دن انھوں نے حسن سے درخواست کی،قمیص اٹھائی گئی اور انھوں نے وہاں سے چوما، جہاں سے رسول چومتے تھے۔ عمر فاروق جیسا شخص، دنیا جسے انسانیت کی سو عظیم ترین شخصیات میں شمار کرتی ہے،اپنے بیٹے کو بتاتے ہیں، بیٹا حسین کے نانا جیسا کسی کا نانا نہیں، ان کے باپ سا کسی کا باپ نہیں اور ان کی والدہ جیسی کسی کی والدہ نہیں۔ وہ سارے صحابہ جن پر اللہ نے اسلام کی بنیاد ڈالنے کی ذمہ داری ڈالی۔ وہ حسین سے پیار کرتے ہیں،جاؤ ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اور یہ کہ حسین کی اسلام کیلئے خدمات کیا ہیں؟
دراصل انھوں نے دین سمجھا تھا، رسول سے محبت سیکھی تھی اور انھیں کرشمہ ساز نسبتوں کی تفہیم بھی خوب تھی اور ان کی لاج رکھنا بھی آتی تھی۔ نسبت کیا ہوتی ہے، اس صحابی سے جا کے پوچھو،جس نے نبی اقدس کے جسم اطہر کو چھو لینے والی چادر مانگ کے سنبھال لی کہ اسے اوڑھ کے قبر میں اتروں گا۔
یہ نسبتیں ہی ہیں کہ ہمارے حسن نثار جیسا شخص پکار اٹھتا ہے،کاش ہم راہ پیغمبر کا راستہ ہوتے،پاؤں کی خاک ہوتے،قدموں پر آ پڑنے والا کوئی ذرہ ہوتے،مگر آہ! تجھ کور فہم کو نسبتوں کی کیا خبر؟
اچھا مجھے بتاؤ! یثرب مدینہ کیوں ہوا؟ نسبت نبی کی وجہ سے، کھجور کے تنوں والی مسجد کی ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر کیوں ہوئی؟ نسبت نبی کی وجہ سے، درود شریف کا ایسا لازوال اجر کیوں ہوا؟ نسبت نبی کی وجہ سے، سنت عمل ہی اللہ کو مقصود و محبوب کیوں ہوا؟نسبت نبی کی وجہ سے، مکہ عالم کا قبلہ کیوں ہوا؟ نسبت نبی کی وجہ سے، امام مالک کے اور ایک عالم کے دل میں مدینہ کا ذرہ ذرہ مقدس کیوں ہوا؟ نسبت نبی کی وجہ سے،مجھ سا حقیر بطور امتی امتوں میں ممتاز کیوں ہوا؟ نسبت نبی کی وجہ سے، غار ثور اور غار حرا میں لوگ ہانپتے ہوئے کیوں جا چڑھتے ہیں؟ نسبت نبی کی وجہ سے، حجرہ عائشہ سے منبر رسول تک کا قطعہ جنت نظیر کیوں ہوا؟ نسبت نبی کی وجہ سے۔
کیسا احمق اور بد بخت امتی ہے وہ جو جہاں بھر کی نسبتوں کا پاس کرے اور نبی سے اس کے نواسے کی نسبت کا حساب لینے جا پہنچے!جس نبی نے بطور امتی اپنی نسبت سے ہمیں امتوں میں سرفراز کیا، وہ اسی سرفراز کردینے والے نبی سے اس کے نواسے کی نسبت پر سوال کرنے اٹھ کھڑا ہو؟
اللہ کے اے بندے! تمھیں معلوم بھی ہے، کہ جو نسبت خاک کو افلاک کر دے،اس طلسمی نسبت سے ایمان بھرا خون کا رشتہ ہو جانے کا مطلب کیا ہے؟ تم کسی عام آدمی سے ہاتھ ملا کے زندگی بھر فخر کرو، اور اس حسین پر اعتراض کرو، جس کو دیکھ کے نبیؐ جیتے تھے۔ کل عالم چہرہ رسول دیکھنے کو تڑپے اور چہرہ رسول کو حسینؓ کی زیارت سے قرار ملے۔ جس چہرے کو نبیؐ اپنے باغ کا پھول کہیں،جس چہرے کیلئے نبی مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ ادھورا چھوڑ دیں اس حسین پر دینی خدمات کا اعتراض کرتے ہوئے تمھیں ڈر نہیں لگتا کہ
کہیں اللہ تعالیٰ تمھارا نطق ہی نہ چھین لے۔تمھارا منہ ہی نہ توڑ ڈالے؟

یوسف سراج حفظہ اللہ

 

یہ بھی پڑھیں:

سیرتِ سیدنا حسین ؓ بن علی ؓ