پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے سے حاصل ہونے والے اسباق: تکفیر میں غلو کے خطرات اور اسلامی افواج کی حفاظت کی اہمیت
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ عسکری تصادم سے حاصل ہونے والے نمایاں ترین اسباق میں ایک اہم سبق یہ ہے کہ معاصر اسلامی افواج کے خلاف تکفیر (کفر کا فتویٰ) کے فریب میں مبتلا ہونے کا انجام کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے، اور یہ طرزِ فکر امتِ مسلمہ کے حال اور مستقبل پر کتنے بڑے مفاسد مرتب کر سکتا ہے۔
دنیا نے واضح طور پر دیکھا کہ پاکستانی فوج نے اپنے جدید اسلحہ، مختلف ذرائع سے ہتھیاروں کے حصول، اور ادارہ جاتی استحکام کی بدولت بھارتی جارحیت کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس نے حساب سے کی گئی جوابی کارروائیوں سے بھارت کو مؤثر پیغام دیا اور ایک ایسا توازن پیدا کیا جس نے مغربی ممالک، بالخصوص امریکہ، کے بھارت کی طرف جھکاؤ کے باوجود جنگ کو رکنے پر مجبور کر دیا۔
یہاں ہمیں اسلامی اور عرب ممالک کی افواج کی حفاظت کی اہمیت پر بھی غور کرنا چاہیے، چاہے ان کے رہنماؤں میں کرپشن، ظلم یا مغرب نواز پالیسیوں جیسے مسائل کیوں نہ ہوں۔ پاکستانی حکومت پر بھی طرح طرح کے الزامات ہیں، جیسے: کرپشن، استبداد، مغرب پرستی، اور اپوزیشن کے افراد کے خون میں ملوث ہونے کے الزامات، لیکن اس کے باوجود وہ اسلام سے ظاہری وابستگی رکھتی ہے اور اپنی سر زمین اور عزت کی حقیقی حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سوچیے! اگر القاعدہ جیسی تکفیری اور غالی تنظیموں کی سوچ کو نافذ کر دیا جاتا، اور پاکستانی فوج کو صرف اس بنیاد پر تباہ کر دیا جاتا کہ وہ “طاغوتی” ہے اور نظام “کفری” ہے، تو پاکستان کا کیا حال ہوتا؟ کون بھارت کا مقابلہ کرتا؟ بلکہ کیا پاکستان بطور ریاست باقی رہتا یا آسانی سے دشمن کے ہاتھوں نگل لیا جاتا؟
لہٰذا غلو کے شکار لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان زمینی حقائق پر غور کریں، تاکہ انھیں سمجھ آئے کہ مثالی سوچ کے تحت اسلامی افواج اور حکومتوں کو ختم کرنا کس قدر نقصان دہ ہے۔ موجودہ حقیقت اور تعمیر نو کی ممکنہ صورت کو دیکھے بنا صرف خرابی کی بنیاد پر نظام کو گرا دینا، نہ عقل مندی ہے اور نہ شریعت کا تقاضا۔
جو فتوے اور مہمات موجودہ افواج کو فساد یا کوتاہی کی بنیاد پر ختم کرنے کی دعوت دیتی ہیں، وہ درحقیقت امت کو کمزور کرتی ہیں اور انھیں خانہ جنگیوں میں دھکیل کر دشمن کے لیے آسان شکار بنا دیتی ہیں۔ ذرا تصور کیجیے اگر پاکستانی فوج اندرونی لڑائیوں میں بکھر جاتی، تو کیا بھارت حملہ کرنے میں دیر کرتا؟ کیا امریکہ جنگ روکنے کی کوشش کرتا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ پاکستان کے پاس بھارت کو تکلیف پہنچانے کی حقیقی طاقت نہیں ہے؟
اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی افواج، جیسے کہ مصری فوج یا دیگر، جو اسلحہ مہیا کرنے کے ذرائع کو متنوع بنا رہی ہیں، دفاعی و حملہ آور نظام خرید رہی ہیں، اور مسلسل مشقیں کر رہی ہیں، ان کی ان کوششوں کی قدر کی جائے۔
اگرچہ یہ افواج خالص اسلامی نظام کو اپنانے والی نہیں ہوتیں، لیکن ان کی اسلام سے وابستگی، اور ان کا مسلمانوں کے علاقوں اور دینی شعائر کی حفاظت کا کردار، ایسا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور اسے تقویت دی جا سکتی ہے۔
یقیناً ہم اصلاح چاہتے ہیں، اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق نظامِ حکومت قائم ہو، اور افواج کا مکمل ولاء اسلام کے لیے ہو اور وہ مسلم اُمت کی خدمت میں ہوں۔ لیکن اس ہدف تک پہنچنے کے لیے ہمیں بصیرت، حکمت اور شرعی و عقلی طریقے اختیار کرنے چاہئیں، جو موجودہ نظام کو تباہ کیے بغیر تدریجی طور پر اصلاح کی طرف لے جائیں۔
کیونکہ طاقت کی تعمیر اور دشمن کے مقابلے میں بازو مضبوط کرنا شریعت کے مقاصد میں سے ہے، جب کہ صرف خرابی کی بنیاد پر موجود اداروں کو گرا دینا، بغیر اس کے کہ انجام کو سوچا جائے، اصلاح کے نام پر غلو کا مظہر ہے۔
خود مزاحمتی مسلح تنظیمیں بھی غلطیوں، کرپشن، جاسوسی یا دیگر انحرافات سے خالی نہیں ہوتیں۔ وہ بھی ناکامیوں کا شکار ہو سکتی ہیں، جیسے کہ غلط فیصلے، مالی یا اخلاقی بے راہ روی۔ جو کچھ افواج پر تنقید کی جاتی ہے، وہ ان تنظیموں میں بھی پایا جا سکتا ہے، بلکہ شاید زیادہ شدت کے ساتھ۔
لہٰذا اگر ہمیں آج کے حالات میں یہ انتخاب کرنا پڑے کہ ایک طاقتور فوج ہو جو دشمن کو روکے اور ملک کا دفاع کرے، یا چند کمزور مزاحمتی گروہ ہوں جن کے پاس روک تھام کی صلاحیت نہ ہو، تو عقل اور شریعت یہی کہیں گے: فوج کو باقی رکھو، اس میں اصلاح کرو، اس کی سمت درست کرو، لیکن اسے مت گراؤ۔ کیونکہ فوج ہی وہ طاقت ہے جو اللہ کے بعد ملک کو دشمنوں، فتنوں، اور انتشار سے بچا سکتی ہے۔
خلاصہ:
شرعی اور عقلی طریقے سے اصلاح کا راستہ ہی مسلمانوں کے ممالک کو بچانے، افواج کی طاقت بڑھانے، اور دشمنوں سے تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ جبکہ جذباتی رویّے، مثالی خیالات، اور زمینی حقائق کو نظرانداز کرنے والا طرزِ عمل تباہ کن نتائج اور عظیم مفاسد کا باعث بنتا ہے۔
ہر بات انقلاب، جلدبازی، اور اداروں کے انہدام سے حاصل نہیں کی جا سکتی، بلکہ حکمت، تدریج، ممکنات کی حدود میں رہ کر اصلاح، اور اندر سے تبدیلی ہی بہتر راستہ ہے، بجائے اس کے کہ سب کچھ گرا کر نئے سرے سے آغاز کیا جائے۔
✍️ عبد الرحمن راضی العماری
اردو کاوش: عمران صارم
یہ بھی پڑھیں:
کفار سے تعاون کی شرعی حیثیت اور فتنہ تکفیر