کچھ دن قبل یہ کتاب ملی، مصنف ایک قابل قدر عالم دین اور معروف مناظر مولانا یحیی عارفی صاحب ہیں۔ اس کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے:
’کفار سے تعاون کرنا کفر نہیں، بلکہ اس میں تفصیل ہے‘
ان کے بقول جس قسم کا تعاون اس وقت اسلامی ممالک کافروں کے ساتھ کر رہےہیں، یہ کبیرہ گناہ ہے، البتہ اس بنا پر ان کی تکفیر درست نہیں۔
حرمت مسلم اور ضوابط تکفیر، مسئلہ ولاء و براء کا تعارف، ولاء و براء اور خوارج کی گمراہیاں، خوارج کے شبہات کا ازالہ، ولاء و براء اور مملکت پاکستان، کتاب بالترتیب مذکورہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔
اپنے موضوع پر ایک مفید کتاب ہے، زبان بالکل آسان ہے، بلکہ بعض مقامات پر تو اسلوب سادگی کی انتہاؤں کو چھورہاہے۔ فاضل مصنف چونکہ ایک مناظر ہیں، اس لیے دلائل کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے کئی مقامات پر مناظرانہ رنگ غالب ہے۔
کچھ اہم مسائل جو اس کتاب میں زیر بحث ہیں، ان کا اختصار سے تذکرہ کرتاہوں، کافروں کےساتھ تعامل کے سلسلے میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ غیر مسلموں سے تحائف کا تبادلہ مشروع امر ہے، بطور دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک کافر بادشاہ سے حضرت ہاجرہ کو بطور تحفہ وصول کرنا، اور اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت کے کافر حکمرانوں ، سرداروں سے تحفے قبول کرناہے۔
اسی طرح کافروں سے مدد کے جواز بر بھی انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ وغیرہ سے کئی ایک مثالیں ذکر کی ہیں، مثلا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شعب ابی طالب میں بنوعبد المطلب اور بنو ہاشم کی مصاحبت قبول کی، سفر ہجرت میں سراقہ بن مالک سے تعاون لیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابن دغنہ نامی ایک کافر کے ہاں پناہ لی، اسی طرح مدنی دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنوخزاعہ قبیلے کے حلیف رہے۔ وغیرہ۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ اہم شرط بیان کی ہے کہ کافر جس سے مدد لی جارہی ہے ، قابل اعتماد ہونا چاہیے۔
یہ تمہید باندھنے کے بعد کہ ’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کفار کا معاون و مدد گار بنے، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف‘ فرماتے ہیں کہ البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر کوئی کفار کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟ اس کے لیے انہوں نے ’کفار سے تعاون کی اقسام‘ کے تحت کافروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، محارب اور غیر محارب
پھر غیرمحارب کی چار قسمیں بیان کی ہیں:
1۔ رشتہ دار کفار سے تعاون اور حسن سلوک
2۔ مصیبت زدہ کفار سے تعاون
3۔ رفاہ عامہ کے کاموں میں کفار سے تعاون
4۔ مشترکہ دشمن کے خلاف کفار سے تعاون
اور ان سب کے الگ الگ دلائل اور مثالیں بھی ذکر کی ہیں، اور کچھ اعتراضات ذکر کرکے ان کا جواب دیاہے۔
اس کے بعد حربی کافر سے تعاون کی تفصیل کی طرف آئے ہیں، اور تین صورتیں بیان کی ہیں:
1۔کفر اور کافروں کو پسند کرتے ہوئے تعاون کرنا۔
2۔محض اکراہ و خوف کی حالت میں تعاون کرنا
3۔صرف دنیاوی مال و زر کے لالچ میں تعاون کرنا
پہلی قسم کا تعاون کفر، جبکہ دوسری دو قسمیں کبیرہ گناہ ہیں۔
اسی ضمن میں انہوں نے بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ بھی ذکر کیا ہے، اور یہ بیان کیا کہ ان کا تعاون دنیاوی مفاد اور لالچ کی بنا پر تھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں معاف کردیا، اگر کفار کے ساتھ تعاون کرنا ہر صورت میں کفر ہوتا تو یقینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاطب بن ابی بلتعہ کو معاف نہ کرتے، کیونکہ کفر کی معافی کسی بھی صورت نہیں۔
یہاں انہوں نے مخالفین کے کئی ایک اعتراضات ذکر کرکے ان کے جوابات بھی رقم کیے ہیں۔
جن میں بعض جوابات اچھے ہیں، جبکہ بعض میری طالبعلمانہ سوچ و سمجھ کے مطابق محل نظر ہیں۔
آخر میں انہوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان در اصل امریکہ وغیرہ سے تعاون کر ہی نہیں رہا، وہ تو انہیں دھوکا دے رہاہے، اور اس سلسلے میں انہوں نے مشہور زمانہ انٹیلی جنس اداروں اور ان کے سربراہان کے کئی ایک اقتباسات اپنے اس دعوے کے حق میں پیش کیے ہیں۔
شیخ محترم کے مکمل ادب و احترام کے ساتھ میری نظر میں اس قسم کی سب باتیں ’ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھاہے‘ کے قبیل سے ہیں۔ اگر اسلامی ممالک کافروں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ تعاون نہیں کر رہے بلکہ الٹا ان کا نقصان کر رہے ہیں تو ہمیں ’ کفار کے ساتھ شرعی تعاون کی حیثیت‘ بیان کرنے کی حاجت کیوں محسوس ہوئی؟
یہاں انہوں نے بجاطور مخالفین کا ایک تضاد بھی ذکر کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو کفار سے تعاون کی وجہ سے مرتد قرار دیتے ہیں ، جبکہ خود یہ لوگ انہیں کافروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوتے ہیں۔
البتہ انہوں نے اپنے موقف کے حق میں شروع میں جو دلائل ذکر کیے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کافروں سے تعاون لیا ہے، ممکن ہے ان کے مخالفین بھی اسی قسم کے دلائل سے خود کو دھوکا دیتے ہوں۔
کتاب مجموعی طور پر بہت مفید ہے،ہر نوجوان کو ایسی کتابین مطالعہ میں رکھنی چاہییں۔
البتہ یہاں میں ایک دو باتوں کا اضافہ کرنا چاہوں گا، کہ کفار سے تعاون کی شرعی حیثیت کے ساتھ صرف فتنہ تکفیر کا اضافہ کرنے سے موضوع غلط رخ اختیار کرجاتاہے۔ حقیقت میں اس مسئلہ میں درست موقف کے دونوں طرف خارجیت اور ارجاء جیسی گمراہیاں منڈلا رہی ہیں۔
دوسری بات: جس مسئلہ کی وجہ سے ہمیں یہ فتنہ تکفیر اور کفار سے تعاون والی وضاحتیں لکھنا پڑھ رہی ہیں، حقیقت میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، جیساکہ مقدمہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔
جنہیں آج تکفیری یا خارجی کہا جاتاہے، ان میں دو قسم کے لوگ ہیں، یاتو وہ سیدھے سیدھے کافر ہیں، یعنی غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں، لیکن مسلمانوں کی ہیئت و شکل میں وار کر رہے ہیں۔ اور دوسرے وہ مخلص مسلمان ہیں، جو اسلامی ممالک میں بڑھتی بے دینی سے بے زار ہو کر اس راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں، اب اس فتنے کا علاج بھی کیا جائے، لیکن جو دین بیزاری ، مداہنت اصل میں اس رویے کے جنم کا باعث بن رہی ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اور پھر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ عالمی طاقتوں کی ترجیحات اور مسلمانوں کی تحقیقی سوچ دونوں میں ہم آہنگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اب پتہ نہیں کہ کون دوسرے کی پیروری کر رہا ہے؟
وہی جماعتیں اور اس کے قائدین جو ایک وقت مجاہدین کہلاتے تھے، بلکہ ان میں سے کئی لوگوں کی حمایت میں باقاعدہ یہاں تقریریں ہوتی رہیں، غائبانہ جنازے تک ہوئے ، آج خارجیت اور تکفیر کا رد کرنے والے کئی لوگ بلا کسی جھچک انہیں تکفیری اور خارجی کا لقب دے رہے ہیں۔
اس عجیب و غریب رویے کی ایک بڑی توجیہ یہ بھی ہے کہ یہ وقت فتنوں کا ہے ۔۔۔۔ آپ بتادیں اگر یہی سوچ رہی تو فتنوں کے دور سے کیسے نکلیں گے؟
صلاح الدین ایوبی جیسے قوموں کو زوال سے عروج کی طرف لے کر جاتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کا ناطقہ بند تو ہم نے خود تشدد پسندی، خارجیت اور انتہا پسندی کے خلاف جہاد سے کر رکھا ہے۔
دوسری طرف بے دینی اور بے حیائی کی کھلی چھٹی ہے، ان فتنہ پروروں کے لیے حکومتی سختیاں بھی نہیں اور اہل علم طبقہ کی طرف سے بھی ایسے لوگوں کا کماحقہ محاکمہ نہیں کیا جارہا ۔ الا ماشاءاللہ ۔
زیر نظر کتاب ’ادارۃ الفتن‘ نامی کسی غیر معروف ادارہ سے چھپی ہے، الفتن کی اپنی ویب سائٹ بھی ہے، جس پر کہنے کو ’ تمام فتنہ پرور گروہوں کا رد‘ کیا جاتاہے، لیکن حقیقت میں ویب سائٹ پر فتنہ تکفیر اور خارجیت پر ہی ردود نظر آئیں گے۔​
http://alfitan.com/
میرے خیال میں اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ خارجیت اور ارجاء دونوں سے متعلقہ مسائل پر اہل علم کی تفصیلی مجالس ہوں، جہاں جہاں نکتہ اختلاف ہو، اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے، اور پھر اسلام پسند ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرکے اس کے مطابق چلنے کی کوشش کریں۔
لیکن یہ تب ہوگا، جب ہم دہشتگردی اور خارجیت کے ساتھ ساتھ ارجائی رویے اور بڑھتی ہوئی لادینیت کو بھی ایک مسئلہ سمجھیں گے۔
اس وقت عالم اسلام میں دہشت گردی کے خلاف انفرادی ، جماعتی حتی کہ حکومتی سطحوں پر بھی ٹھیک ٹھاک کام ہورہا ہے، جبکہ دوسری طرف …..؟!
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔​