طلبہ علم کو مارنے اور ان پر تشدد کرنے کے ایک درجن بڑے بڑے نقصانات ہیں۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔

1۔ مار پیٹ سے بچے ڈھیٹ اور ضدی ہوجاتے ہیں، پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا ، بچپن میں زیادہ مار کھانے والے بچے مستقبل میں بھی مار اور تشدد ہی کی زبان کے عادی ہو جاتے ہیں ،عام لہجے میں کوئی بات ان پر اثر نہیں کرتی۔
2۔زیادہ مارنا تعلیم وتربیت کے لیے قطعامفید نہیں،صرف وقتی فائدہ دکھائی دیتا ہے، مستقبل کے لحاظ مار پٹائی سخت نقصادہ ثابت ہوتی ہے ۔ اس سے بچے کی جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے ،فزیکلی کمزور پڑ جاتا ہے ۔گروتھ رک جاتی ہے ۔
3۔ نفسیاتی طور پر بچہ مرعوب،اور انڈر پریشر رہتا ہے۔ سارے کام دباؤ اور مار کے خوف سے کرنے لگتا ہے۔
ایسے ماحول میں نشوونما پانے والے بچے مستقبل میں اپنے موقف پر استقامت سے محروم رہتے ہیں، کسی بھی پریشر اور دباؤ کو قبول کرنا ان کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔
4۔ اس طرح تعلیم حاصل کرنے والے بچے اپنے گھر میں بھی متشدد ہوتے ہیں ،وہ اپنی چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کو مار کر تسکین حاصل کرتے ہیں

6۔ مار پٹائی سے بچنے کےلئے بچے جھوٹ بولتے ہیں اور اس طرح ان میں جھوٹ کی بدترین عادت کینسر کی طرح ایسی سرایت کرتی ہے کہ بڑے ہوکر بھی جان نہیں چھڑا پاتے۔
6۔ بچوں کی خود اعتمادی اور عزت نفس کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ اس بنا پر وہ قائدانہ ،مدبرانہ،صفات سے محروم ہو جاتے ہیں ۔

7۔ طرفہ تماشا یہ ہے کا اکثر مارپیٹ پڑھائی کی خاطر ہوتی ہے،لیکن اس سے پڑھائی بھی بہت متاثر ہوتی ہے ۔مار کے سائے ہر وقت دماغ پر چھائے رہتے ہیں ،جس بنا پر بچے سارا پڑھا لکھا بھو ل جاتے ہیں ۔
8، مسلسل مار کھانے سے شرم وحیا اور وقار بھی داؤ پر لگ جاتاہے ۔ پٹتے پٹتے ذلت سہنے کے عادی ہو جاتے ہیں، جس سے شیطان کو بے حیائی کی ترویج میں آسانی ہو جاتی ہے۔
9۔ مار کٹائی سے تربیت پانے والے جب مستقبل میں استاد بنتے ہیں تو اپنی نفسیاتی محرومیوں کا بدلہ اپنے شاگردوں سے لیتے ہیں اور کہتے ہیں:
“ایویں ای پڑھیا سی تے ایویں ای پڑھانا اے” یوں نسل در نسل یہ کلچر منتقل ہوتا رہتا ہے۔
10۔ علم ماں کی ممتا اور باپ کا درد رکھنے والا ہوتا ہے ۔
انسانوں کے سب سے بڑے معلم ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ رحمۃ للعالمین اور رؤوف رحیم تھے۔
نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت نرمی اور محبت سے فرمائی ہے، اپنے خدام سے بھی رسول اللہ ﷺ کبھی سختی سے پیش نہیں آئے۔
اس لیے یہ طریقہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ۔
11۔ روز قیامت جزا وسزا کے لیے سب انسان برابر ہوں گے ، مار پیٹ کرنے والے اساتذہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔ یقینا وہ لمحات بہت مشکل ہوں گے۔
12۔استادی کے زعم میں جو متشدد اساتذہ مار کٹائی کو اپنا حق سمجھتے ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زر خرید غلاموں کے بارے میں بھی ان کے آقا کو مارنے کی اجازت نہیں دی۔
نوٹ:
جن احادیث اور روایات سے مارنے کا فلسفہ کشید کیا گیاہے، نہ ان کو درست طور پر سمجھا گیا ہے اور نہ ہی ان پر عمل کے لیے فقہاء کرام کی بیان کردہ شروط وضوابط کو ملحوظ رکھا جاتاہے ۔
ہمارے فہم کے مطابق جس طرز پر مدارس میں آج کل مار کٹائی ہوتی ہے، یہ مخصوص متشددانہ انداز تربیت نہ کسی حدیث سے ثابت ہے اور نہ ہی خیر القرون سے ملتا ہے۔

ڈاکٹر عبید الرحمن محسن