سوال (3296)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا لیکن ان میں سے ایک آدمی کو کچھ نہ دیا۔ سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ نے فلاں اور فلاں کو تو مال دیا ہے لیکن فلاں کو کچھ نہیں دیا، حالانکہ وہ بھی صاحب ایمان ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ ( بلکہ وہ ) مسلمان ہے۔‘‘ سعد نے اپنی بات تین دفعہ دہرائی۔ نبی اکرم ﷺ ہر دفعہ یہی فرماتے تھے:’’ ( بلکہ وہ ) مسلمان ہے۔‘‘ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ بسا اوقات میں کچھ لوگوں کو مال دیتا ہوں جب کہ ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔ میں انھیں کچھ نہیں دیتا۔ ( دیتا ہوں ) اس خوف سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے منہ نہ گرائے جائیں۔‘‘ [سنن النسائي: 4995]
اس روایت کا مفہوم بتائیں۔
جواب
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کر رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کی تالیف قلب ضروری ہوتی ہے، تالیف قلب میں مالی امداد ضروری ہے، کیونکہ وہ وقتی طور پہ اپنے حالات کی وجہ سے ڈانوا ڈول ہیں، لوگوں کی باتوں کی وجہ سے کہ وہاں جا کے آپ کو کیا ملا ہے، بعض اوقات انسان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم من جانب اللہ اس بات کو جانتے تھے کہ کچھ لوگ اپنی معیشت اور مالی کمزوری کو بنیاد پر اسلام کو چھوڑ دیں، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کچھ لوگوں کو میں قصداً مال دیتا ہوں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ