طالب علم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مطالعہ کب کرے؟
الحمدللہ ” آو کتاب پڑھیں” طلباء و طالبات کے لیے کتب بینی اور کتاب دوستی کے حوالے سے عمومی اور فنی ہدایات پر مشتمل کتاب مکمل کر چکا ہوں اس کتاب کا ایک باب خصوصی طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب سے تعلق رکھتا ہے جس کا ایک حصہ حصہ آج نشر کر رہا ہوں۔ اور دو حصے بعد میں شئیر کروں گا ان شاء اللہ۔
مجھے آج بھی یاد ہے اپنے محبوب استاذ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا کہنا تھا کہ طالب علم کے پاس ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ کی کتب اگر نہیں ہیں تو اس کا مکتبہ ناقص ہے۔
مخالفین و معاندین کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ
“ابن تیمیہ کا مطالعہ اس وقت تک بہت نقصان دہ ہے جب تک علم میں پختگی حاصل نہ ہو” اور یہ کہ “ابن تیمیہ کی کتابیں مبتدی کے لیے نہیں ہیں۔”
یہ بات غلط ہے کیوں کہ مطالعہ کتب کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں مدنظر نہ رکھی جائیں تو صرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی نہیں بلکہ ہر عالم دین کی کتب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے تو میں اس مغالطہ کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں.
واضح رہے علم حاصل کرنے کے مراتب اور درجات ہیں، جنہیں ترتیب وار طے کرنا ضروری ہے۔ جو شخص ان مراتب کو نظرانداز کرے، وہ منھج اسلاف رحمہم اللہ سے تجاوز کرتا ہے۔ اس کے لیے علم کا حصول مشکل ہی نہیں ہوتا بلکہ گمراہی کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے جب ہم اعلی درجے کی کتب کا مطالعہ قبل از وقت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
لہٰذا جان لیں علم کا پہلا درجہ اللہ عز و جل کی کتاب (قرآن مجید) کو حفظ کرنا اور اسے سمجھنا یا اسے سمجھنا ہے، اور جو چیز اس کی سمجھنے میں معاون ہو، اسے طلب کرنا واجب ہے۔
قرآن کریم نے بھی اس تدریجی طریقے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پہلے علم کی بنیادی باتوں کی تعلیم دی جائے اور پھر بڑی باتوں کی طرف بڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ} [آل عمران: 79]۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر میں فرمایا: “ربانی وہ ہے جو حکمت اور فقہ رکھتا ہو۔
کہا گیا ہے: “ربانی وہ ہے جو لوگوں کی تربیت علم کی چھوٹی باتوں سے شروع کرے، پھر بڑی باتوں کی طرف لے جائے”۔یعنی جزویاتِ علم کی تعلیم پہلے دی جائے، پھر کلیات کی، یا فروع کو پہلے سکھایا جائے اور پھر اصول کو، یا اسباب و ذرائع کو پہلے سمجھایا جائے اور پھر مقاصد کو، یا علم کے واضح مسائل کی وضاحت پہلے کی جائے اور پھر ان مسائل کی جو زیادہ باریک اور پیچیدہ ہوں۔ (إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري للقسطلاني 1/ 168)
شیخ تقی الدین السبکی (جو شیخ الاسلام کے مخالفین میں سے تھے) نے حافظ ذہبی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:
“جہاں تک سیدی (حافظ ذہبی) کا شیخ (ابن تیمیہ) کے بارے میں قول ہے تو میں ان کے بلند مرتبے، ان کے علم کے وسیع سمندر، شرعی اور عقلی علوم میں ان کی مہارت، ان کے غیر معمولی ذہانت اور اجتہاد، اور ان کے اس مقام تک پہنچنے کو تسلیم کرتا ہے جو بیان سے ماورا ہے۔میں یہ کہتا ہوں کہ ان کا مرتبہ میری نظر میں اس سے بھی بڑا اور زیادہ جلیل القدر ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ نے ان کے اندر زہد، ورع، دین داری، حق کی حمایت، اور کسی ذاتی غرض کے بغیر اس پر قائم رہنے کی خصوصیات جمع کر دی ہیں۔ وہ سلف صالحین کے طریقے پر چلے اور اس میں بہترین طریقے سے حصہ لیا۔ ان جیسی شخصیت کا اس زمانے میں بلکہ کئی زمانوں میں ملنا نادر ہے۔”(ذيل طبقات الحنابلة 4/ 503).
جب شیخ تقی الدین ابن دقیق العید کی ملاقات شیخ ابن تیمیہؒ سے ہوئی تو وہ ان سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی اور ان کے علم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: “جب میری ملاقات ابن تیمیہ سے ہوئی تو میں نے ایسے شخص کو دیکھا کہ تمام علوم ان کی نظروں کے سامنے ہیں، وہ ان میں سے جو چاہیں لے لیتے ہیں اور جو چاہیں چھوڑ دیتے ہیں۔”الرد الوافر (ص: 59).
اس فیس بکی مختصر تحریر میں یہ واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ طالب علم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مطالعہ کب کرے تاکہ اس مطالعے سے فائدہ اٹھا سکے، اور کیا اس کے لیے کوئی خاص مرحلہ مقرر ہے؟ یہ بات تین پہلوؤں سے کی جا رہی ہے۔
اول:
علم کتابوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔ سب سے پہلے اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ مبتدی طالب علم کو کتابوں کا مطالعہ تنہا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے ایسے استاد کی رہنمائی میں رہنا چاہیے جو اس کے لیے ان باتوں کو واضح کرے جو اس کی سمجھ میں نہ آئیں۔ یہ اصول شیخ الاسلام کی کتابوں پر بھی لاگو ہوتا ہے اور دیگر اہل علم کی کتابوں پر بھی۔
یہ کہا گیا ہے: “علم پہلے لوگوں کے سینوں میں تھا، پھر یہ کتابوں میں منتقل ہو گیا، اور اس کی کنجیاں علماء کے ہاتھ میں ہیں۔” اس بات کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے علماء کی ضرورت ہے، کیونکہ ان دو مراتب (سینوں اور کتابوں) کے بعد علم کے حصول کے لیے کوئی اور ذریعہ نہیں۔ اس کی بنیاد صحیح حدیث میں ہے: “بے شک اللہ علم کو لوگوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا، بلکہ علماء کے اٹھائے جانے سے علم ختم ہو جائے گا” (حدیث)۔
لہٰذا، علماء بلاشبہ علم کی کنجیاں ہیں۔اسی لیے اسلاف رحمہم اللہ میں اس امر کا خاص اہتمام تھا کہ وہ ایسی باتوں کے بیان سے باز رہتے جو ماوراء عقل ہوتی تھیں۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “لوگوں سے وہ باتیں کرو جو وہ سمجھ سکیں؛ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے؟” (اخاري (126).
جیسا کہ ابن ہبیرہ نے اس حدیث کے فقہی فوائد میں ذکر کیا: “عالم کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو علم کی تربیت دے اور انہیں علم آہستہ آہستہ اس طرح دے جیسے غذا دی جاتی ہے، اور انہیں علم کی چھوٹی باتوں سے شروع کرے پھر بڑی باتوں کی طرف لے جائے، تاکہ وہ ربانی بن جائے۔” (الإفصاح عن معاني الصحاح 1/ 268).
عروہ بن زبیر کہتے ہیں:”میں نے کبھی کسی کو ایسا علم نہیں بتایا جو اس کی عقل سے بالاتر ہو، مگر یہ کہ وہ اس کے لیے گمراہی کا سبب بنا۔” (جامع بيان العلم وفضله (1/ 539).
اور شاطبی کہتے ہیں: “علم حاصل کرنے کے سب سے نفع بخش طریقوں میں سے یہ ہے کہ اسے ایسے اہلِ علم سے حاصل کیا جائے جو اس علم میں مکمل مہارت رکھتے ہوں۔” (الموافقات (1/ 139)
جب یہ بات طے ہو گئی تو اس میں کیا رکاوٹ ہے کہ ایسا عالم جو علم میں مہارت رکھتا ہو، مبتدی طالب علم کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی ایسی کتابیں پڑھائے جو اس کی صلاحیتوں کے مطابق ہوں اور اس کے علم کے مرحلے کے ساتھ مناسبت رکھتی ہوں؟!
دوم:
شیخ الاسلام کی تصانیف سے بڑے علماء کا فائدہ اٹھانا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصانیف سے ان کے زمانے کے اور بعد کے جلیل القدر علماء نے فائدہ اٹھایا ہے؛ کیونکہ شیخ الاسلام کی تمام تصانیف بہت فائدے مند ہیں، جو سنت کی پیروی، بدعت سے اجتناب، اور سلف صالحین کے طریقوں کی اتباع کی دعوت دیتی ہیں۔ اس کی مثالیں یہ ہیں:
شیخ تقی الدین السبکی نے اپنی کتاب “السيف المسلول” میں شیخ الاسلام کی کتاب “الصارم المسلول” کے بارے میں یہ شہادت دی:
“میں نے ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام ابن تیمیہ کی کتاب ‘الصارم المسلول على شاتم الرسول’ کا مطالعہ کیا، جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں سب و شتم کرنے والے کی سزا کے بارے میں ستائیس مختلف دلائل دیے، جنہیں انہوں نے بہت تفصیل سے بیان کیا، اور دلائل، آثار، طریقوں اور استنباط میں گہرا غور کیا۔” (السيف المسلول على من سب الرسول (ص: 387).
اسی طرح، شیخ تقی الدین السبکی نے شیخ الاسلام کی کتاب “منهاج السنة النبوية” کی تعریف کرتے ہوئے کہا:
وابنُ المطَهَّر لم تطْهُر خَلائِقُه داعٍ إلى الرَّفض غالٍ في تَعصُبِه
ولابــــــن تيـميــــة ردٌّ علــيــــــه لـــــــه أجادَ في الرَّد واستيفاءِ أضرُبِه
“ابن المطہّر کے لیے جو کچھ کہا گیا وہ غلط اور تعصب سے بھرا تھا، اور ابن تیمیہ نے اس کا شاندار رد کیا اور اس کے تمام پہلوؤں کا مکمل احاطہ کیا۔”
(الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة لابن حجر (2/ 189).
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وفات کے چھ سو سال بعد، ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ محمد رشید رضا (ت 1354هـ) نے شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن القیم کی کتابوں کی صداقت کی گواہی دی اور کہا کہ یہ اہل سنت کی سب سے مفید کتابیں ہیں جو نقل اور عقل کے درمیان توازن قائم کرتی ہیں؛ اور ان کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد ہی ان کا دل مکتبہ سلف پر مطمئن ہوا۔ شیخ محمد رشید رضا نے کہا:
“ہمیں اہل سنت کے علماء کی کتابوں میں وہ سب سے زیادہ فائدہ مند کتابیں نہیں ملیں جو نقل اور عقل کے درمیان توازن پیدا کرتی ہوں، جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی کتابوں کے علاوہ ہیں۔ اور میں اپنے بارے میں کہتا ہوں کہ میرے دل کو سلف کے مکتبہ فکر پر مکمل اطمینان اس وقت ہوا جب میں نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔” (تفسير المنار 1/ 211).
سوم:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابیں جو مبتدیوں کے لیے مفید ہیں۔
شیخ الاسلام نے مختلف علوم اور فنون کے بیشتر شعبوں میں کتابیں، رسائل اور اصول لکھے ہیں اور بہت سے مسائل پر تفصیل سے جواب دیا ہے، اور ان میں سے کچھ کتابیں ایسی ہیں جو علماء مبتدیوں کو پڑھانے اور سمجھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ان میں سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جنہیں مبتدیوں کے لیے علم کا آغاز سمجھا جا سکتا ہے۔
مبتدی طلبہ کے لیے مفید کتابیں اور رسائل:
عقیدہ کے علم میں:
“العقیدہ الواسطیہ”۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں: “العقیدہ الواسطیہ: ایک مختصر اور جامع کتاب ہے جو اہل سنت والجماعت کے عقیدے کا خلاصہ پیش کرتی ہے، جس میں اللہ کے اسماء و صفات، ایمان بالله اور یوم آخرت اور اہل سنت کی عملی طریقہ کو بیان کیا گیا ہے”۔وہ اسے اہل سنت والجماعت کے عقیدے کو بیان کرنے والی بہترین کتاب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں: “اس باب میں سب سے بہترین کتاب العقیدہ الواسطیہ ہے، کیونکہ یہ اہل سنت والجماعت کے اصول کا ایک مختصر اور جامع بیان ہے؛ اسی لیے میں ہر طالب علم کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسے حفظ کرے، اس کے معانی پر غور کرے، اور کسی استاد کے ساتھ پڑھ کر ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے جو اس میں مخفی ہوں۔”
تفسیر کے علم میں: ابتدائی طلبہ کے لیے شیخ الاسلام کی تفسیر پر پیش کی گئی تحریروں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے:
پہلا: “مقدمہ في التفسير”: شیخ الاسلام نے اس مقدمہ میں جو باتیں بیان کی ہیں، وہ قرآن کو سمجھنے، اس کے معانی کو جاننے، اس کے تفسیر میں حقیقی اور غلط اقوال میں تمیز کرنے، اور مختلف آراء میں صحیح دلیل کے فرق کو واضح کرنے کے لیے ضروری قواعد پر مبنی ہیں۔اگر بعض علماء اس مقدمہ کو ابتدائی طلبہ کو قرآن کے علوم کی ابتدائی تعلیم کے طور پر پڑھائیں، تو یہ ان کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا اور انہیں قرآن کو سمجھنے اور تدبر کرنے میں مدد دے گا۔
دوسرا: قرآن کی تفسیر میں شیخ الاسلام کی تحریریں: شیخ الاسلام نے قرآن کی آیات کی تفسیر پر بھی شاندار تحریریں لکھی ہیں، جو مجموع الفتاویٰ کے جلدوں 14، 15، 16، 17 میں شامل ہیں۔ یہ تفسیر طالب علم کے لیے ایک گہرا سمجھ فراہم کرتی ہے اور اس میں قرآن کو سمجھنے کی ایک نئی روشنی ڈالتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ سلف کے طریقہ پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
فقہ کے علم میں:
ان کی دو مفید کتابیں ہیں:
پہلا: “شرح العمدة”: یہ کتاب ابن قدامہ المقدسی کی “العمدة” کی شرح ہے، جس میں شیخ الاسلام نے حنبلی فقہ کے مطابق مسائل کو بیان کیا ہے۔ اس کا کچھ حصہ پانچ جلدوں میں طبع ہو چکا ہے اور اس میں طہارت، نماز، روزہ اور حج کے مسائل شامل ہیں۔
دوسرا: “مناسك الحج”: شیخ الاسلام نے اس کتاب میں حج کے مناسک کو مختصر اور واضح طریقے سے بیان کیا ہے، اور ان کا کہنا ہے: “کئی مسلمانوں نے بار بار سوال کیا کہ میں حج کے مناسک پر کچھ لکھوں جو زیادہ تر حاجیوں کے لیے ضروری ہو، اس لیے میں نے اس کتاب میں وہ سب کچھ بیان کیا جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق صحیح لگتا ہے۔”
حدیث کے علم میں:
شیخ الاسلام کی تحریریں جو مصطلح حدیث پر ہیں: شیخ الاسلام نے مصطلح حدیث سے متعلق مختلف مسائل پر تفصیل سے لکھا ہے، جیسے کہ حدیث کا مفہوم، صحیح حدیث کے بارے میں اصول، صحیح، حسن اور ضعیف حدیث کی تقسیم، اور حدیث مكرر کے مسائل۔ یہ تحریریں ابتدائی طلبہ کے لیے مفید ہو سکتی ہیں تاکہ وہ حدیث کے اصول سمجھ سکیں، پھر تدریجاً ان کو مزید علم حاصل کرنے کے مراحل میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مبتدیوں کے لیے مفید قواعد اور مسائل:
1) جماعت اور فرقہ کے بارے میں ایک قاعدہ۔
2) اللہ کی توحید اور اخلاص کے بارے میں ایک اہم قاعدہ۔
3) عبادات کا اصول یہ ہے کہ وہ شریعت اور اتباع پر مبنی ہوں، نہ کہ خواہشات اور بدعت پر۔
4) اللہ کے ولی اور شیطان کے ولی میں فرق۔
5) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں رسالہ۔
یہ تو شیخ الاسلام کے علم کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے، اور ان کی کتابوں کا مطالعہ مبتدیوں، متوسط اور فاضل طلبہ کے لیے یکساں فائدہ مند ہے۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ نہ صرف علماء کے لیے، بلکہ مجتہدین کے لیے بھی مفید ہے۔ یہ دعویٰ کہ شیخ الاسلام کی کتابیں مبتدیوں کے لیے مفید نہیں ہیں، بے دلیل ہے اور ان کی کتابوں کی اہمیت اور فوائد کو سمجھنا ضروری ہے۔ شیخ الاسلام کی کتب کا بیشتر حصہ مخالفین کے رد میں ہے، لیکن یہ ان کی علمیت اور فکری گہرائی کا واضح نشان ہے۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو اپنی بے پایاں رحمت سے نوازے اور ان کی کتابوں کو ہم سب کے لیے مفید بنائے
شاہ فیض الابرار صدیقی
یہ بھی پڑھیں: کیا اھل حدیث ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں؟