سوال (3293)

تقریب نکاح میں دلہا اور دلہن آمنے سامنے موجود ہوں۔ (درمیان میں چادر برائے نام ہو تو ) تو ان سے ایجاب و قبول کس طرح کروایا جائے، نیز خطبہ نکاح کب پڑھا جائے گا۔

جواب

تقریب نکاح میں اور بھی بہت سے احباب ہوتے ہیں، ناچاہتے ہوئے بھی بدمزگی ہوجاتی ہے، ایجاب و قبول کے لیے اسپیکر کا بھی استعمال ہوجائے تو ٹھیک ہے، ورنہ تھوڑی سی بلند کرکے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ آپ کا حق مہر ہے، اس کے عوض فلاں سے آپ کا نکاح کیا جاتا ہے، آپ کو قبول ہے، آپ راضی ہیں، لڑکی بھی اقرار کر لیتی ہے، اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے، باقی خطبہ استحباب کے درجے میں ہے، پہلے یا بعد میں صحیح ہے، اب تو ایجاب و قبول بھی استحباب کے درجے میں ہے، کیونکہ نکاح فارم میں دستخط ہوجاتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
السلام علیکم اس حوالے سے پچھلے دنوں ایک بندے نے سوال پوچھا تھا کہ کیا یہ جو طریقہ ایجاب و قبول کا شادیوں پہ اپنایا جاتا ہے، لڑکی لڑکے سے پوچھنا اس کی کوئی مثال بھی موجود ہے، شریعت میں اس میں ظاہر ہے، تب بھی ایسے ہوتا ہوگا، مثلاً: کسی حدیث میں اس کا ذکر ہو کے فلاں سے پوچھا گیا کہ بھائی تمہیں یہ قبول ہے تو اس نے کہا یعنی میں قبول کرتا ہوں یا “قبلت” اس طرح کے کوئی الفاظ حدیث میں آئے ہوں؟
جواب:
سوال کا تعلق معاملات سے ہے، معاملات میں اصول یہ ہے کہ ہر چیز اس وقت حلال ہے، جب تک شریعت اس کو حرام نہ کردے، شریعت کس چیز کو حرام قرار دیتی ہے تو اس کے لیے کچھ اصول و ضوابط ہیں، مثلاً: قرآن و حدیث میں حرام یا اجتناب کا لفظ آجائے یا کفار کی تہذیب و تمدن، کلچر یا دین کا حصہ ہو، یا پھر معاشرے میں مزید فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
یہ جو ایجاب و قبول ہے، اس کے ہر معاشرے میں مختلف طریقے رائج ہیں، بعض جگہوں پر لڑکے سے ایجاب و قبول کروایا جاتا ہے، لڑکی سے صرف دستخط لیا جاتا ہے، بعض جگہوں پر باقاعدہ لڑکی سے پوچھا جاتا ہے۔
بس نکاح کی چار شرطیں پوری ہوں۔
(1) لڑکا اور لڑکی کی رضامندی
(2) حق مہر
(3) دو گواہ
(4) لڑکی کی طرف سے ولی
اب نکاح کیسے کروایا جائے، ہر معاشرے میں الگ طریقے رائج ہیں، بس وہ شریعت کسی بھی اصول سے متصادم نہ ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ