وضو، تیمم، غسل وغیرہ جتنی عبادات اور شریعت کے احکام ہیں، ان کی اصل حکمت تو اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے۔ البتہ کچھ عبادات اور شرعی احکام کی حکمتیں اور مقاصد شرعی نصوص میں بیان ہوئے ہیں، ان میں سے ایک تیمم بھی ہے۔
تیمم کی مشروعیت شریعتِ اسلامیہ کی سہولت اور وسعت کو نمایاں کرتی ہے، کیونکہ شریعت نے لوگوں کے احوال کا لحاظ رکھا ہے اور ان کی زندگی کے کسی بھی پہلو سے غفلت نہیں برتی، انکے مختلف شرعی احکام میں تخفیف کی ہے۔
اسلامی شریعت میں سہولت کے مظاہر میں سے ایک تیمم بھی ہے، اللہ نے مکلف پر آسانی کرتے ہوئے اور اس سے حرج دور کرتے ہوئے تیمم مشروع کیا اور قرآن کریم میں تییم کی حکمت بیان کرتے ہوئےفرمایا:

“مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ”
[المائدة: 6]

«اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو»
تو اس آیت میں وضاحت سے تیمم کی حکمتیں بیاں ہوئی ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1: حرج و مشقت دور کرنا :

“مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَج”

«اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے»
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:

“أي فلهذا سهَّل عليكم ويسَّر ولم يعسِّر، بل أباح التيمم عند المرض، وعند فقد الماء توسعة عليكم، ورحمة بكم، وجعله في حق من شرع له يقوم مقام الماء”

اللہ نے اس لیے تمہارے لئے سہولت و آسانی کی اور تنگی نہیں رکھی ہے ، بلکہ تم پر وسعت و رحمت کرتے ہوئے حالت مرض اور پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کو مباح اور پانی کے قائم قام کیا ہے ۔
2 : پاک کرنے کا ارادہ:

“وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ”

«اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے»
ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے حدث کے وقت وضو فرض کیا ہے، جنابت کی صورت میں غسل اور پانی کی عدم دستیابی میں تیمم عطا کردیا تاکہ اس کے ذریعے تم اپنے جسموں کو گناہوں سے پاک صاف کرلو ۔
3 : اتمام نعمت ۔

“وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ”

“اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، اور تاکہ تم شکر کرو”
ابن جریر فرماتے ہیں:
“یعنی وہ تمہارے لئے تیمم مباح کرکے، صاف مٹی کو پاک کرنے والا بنا کر اپنی نعمت تم پر پوری کر دے، اے مومنو! یہ اسکی تم پر عطا کردہ تمام نعمتوں کے ساتھ اس مسئلہ میں بھی ایک رخصت ہے تاکہ تم اسکی اطاعت بجا لاکر شکریہ ادا کرو”۔
یہ اللہ تعالیٰ کی بندوں پر رحمت ہے کہ ان پر محض فضل کرتے ہوئے اور حرج و مشقت دور کرتے ہوئے تیمم کو مشروع کیا ہے، اگر وہ چاہتا تو ہم پر تنگی بھی کر سکتا تھا لیکن رب لوگوں سے پیار کرنے والا اور بہت مہربان ہے۔
تیمم کی مشروعیت سے نمایاں ہونے والی اہم حکمتوں میں سے مزید یہ ہیں:
4 : جب اللہ نے انسانی نفس میں سستی اور نافرمانی کی طرف میلان دیکھا تو پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کو مشروع کردیا تاکہ یہ نفس ترک عبادت کا عادی نہ ہو جائے اور پانی ملنے کے بعد عبادت کرنا نفس پر دشوار نہ ہو جائے۔
5 : تاکہ پانی نہ ملنے پر اسے اپنی موت کا احساس ہو اور مٹی کے استعمال سے قبر یاد آئے تو اس سے سستی دور ہو اور مشکل اعمال آسان لگنے لگیں۔
6 : اللہ کا حکم بجا لا کر اسکے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری کے معنی کو دل میں بٹھایا جائے۔
7: ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مٹی کے ہر جگہ وافر مقدار میں دستیاب ہونے کے باوجود رب کریم نے صرف مسح کا حکم دیا، لوٹ پوٹ ہونے اور تمام اعضائے وضوء کو خاک آلود کرنے کا حکم نہیں دیا کیونکہ اس میں بندوں پر تنگی و مشقت ہے۔
8: مٹی سے تیمم کرنے میں اللہ کے لئے عاجزی’ تواضع اور محتاجی کا احساس ہے۔
6 : تیمم کی غرض تخفیف و تیسیر ہے اور اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ شارع حکیم نے تیمم کا حکم بعض اعضاء پر ہی منحصر رکھا، تمام اعضاء کا حکم دے کر لوگوں کو حرج و مشقت میں نہیں ڈالا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“وأما كونه في عضوين ففي غاية الموافقة للقياس والحكمة، فإن وضع التراب على الرؤوس مكروه في العادات، وإنما يفعل عند المصائب والنوائب، والرِّجْلان محل ملابسة التراب في أغلب الأحوال، وفي تتريب الوجه من الخضوع والتعظيم لله، والذل له، والإنكسار لله ما هو من أحب العبادات إليه وأنفعها للعبد، ولذلك يستحب للساجد أن يُتَرِّب وجهه لله، وأن لا يقصد وقاية وجهه من التراب كما قال بعض الصحابة لمن رآه قد سجد وجعل بينه وبين التراب وقاية فقال: «تَرِّب وجهك» وهذا المعنى لا يوجد في تتريب الرجلين وأيضًا فموافقة القياس من وجه آخر، وهو أن التيمم جُعل في العضوين المغسولين وسقط عن العضوين الممسوحين، فإن الرجلين تُمسحان في الخف، والرأس في العمامة، فلما خفف عن المغسولين بالمسح، خفف عن الممسوحين بالعفو؛ إذ لو مسحا بالتراب لم يكن فيه تخفيف عنهما، بل كان فيه انتقال من مسحهما بالماء إلى مسحهما بالتراب، فظهر أن الذي جاءت به الشريعة هو أعدل الأمور وأكملها، وهو الميزان الصحيح”

“تیمم کا جسم کے صرف دو حصوں پر ہی منحصر ہونا عین حکمت و عقل کے مطابق ہے، کیونکہ سر پر مٹی لگانا عرف میں معیوب ہے، اور ایسا فقط مصائب میں کیا جاتا ہے، اور دونوں پاؤں تو ویسے ہی عام طور پر مٹی سے اٹے ہوتے ہیں، «اسی لیے تیمم میں سر اور پیر کا مسح شریعت نے نہیں رکھا ہے» جبکہ چہرے پر مٹی لگانے میں اللہ کے لئے خضوع، تعظیم و عاجزی ہے، جو کہ اللہ کی محبوب ترین اور بندے کے لئے انتہائی مفید عبادات میں سے ہیں، اسی لئے سجدے کی حالت میں چہرہ خاک آلود کرنا مستحب ہے، اور تیمم میں چہرے کو مٹی سے بچانے کا ارادہ نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ ایک صحابی نے کسی کو دیکھا جو سجدے کی حالت میں چہرا مٹی سے بچا رہا تھا تو اسے فرمایا کہ “اپنا چہرہ خاک آلود کرو” جبکہ یہ حکمت اور مقصد پاؤں کو خاک آلود کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔
اسی طرح تیمم کے اعضاء کا دو عضو پر منحصر ہونا ایک اور اعتبار سے قیاس کے موافق ہے اور وہ یہ ہے کہ تیمم وضوء میں دھوئے جانے والے دو عضو (چہرہ و ہاتھ) میں کیا جاتا ہے اور مسح کئے جانے والے دو عضو (دونوں قدم اور سر) میں تیمم نہیں کیا جاتا یعنی دونوں پاؤں پر جرابوں کا اور عمامہ پر سر کا مسح کیا جاتا ہے تو جب وضوء میں دھوئے جانے والے دو عضو میں مسح کے ساتھ تخفیف کی گئی تو جن اعضاء پر پہلے ہی وضوء میں مسح تھا وہ تیمم میں معاف کر دئیے گئے کیونکہ اگر انکا بھی مٹی سے مسح ہوتا تو یہ تخفیف نہ ہوتی بلکہ پانی کے مسح سے مٹی کے مسح تک حکم کا منتقل ہونا ہوتا۔ تو پتہ چلا کہ شرعی احکام عدل و انصاف اور عقل و خرد کے اعلی معیار پر مبنی ہیں”۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ تیمم کی مشروعیت میں اللہ کی بندوں پر رحمت کا نمایاں اظہار ہے تاکہ کسی بھی حالت میں انسان کا اپنے رب کی عبادت میں انقطاع نہ آئے بلکہ یہ ہر وقت ، ہر جگہ رب کی عبادت و قرب میں مشغول رہے۔ اور مخلوق سے متعلق اللہ رب العالمین کی یہی حکمت و قدرت ہے کہ جہاں جس قدر تنگی و مشقت اضافہ ہوتا ہے، اللہ رب العالمین اسی قدر کشادگی کرتے ہوئے راستے کھول دیتا ہے۔

[أحكام التيمم دراسة فقهية مقارنة، الحكمة من مشروعية التيمم، ص: 45-49 بتصرف واختصار]

 فہد انصاری