#کتاب_الرقاق_آنسوؤں_سے_لبریز_تین_روزہ_روحانی_سفر

از قلم: بشارت حسین مدنی

کئی مجالسِ علم دیکھیں، بے شمار دروس و محاضرات میں شرکت کی، بڑے بڑے اجتماعات دیکھے… مگر صحیح البخاری کی کتاب الرقاق کے اس تین روزہ دورہ حدیث نے دل و جان پر ایسے اثرات چھوڑے کہ شاید پوری زندگی ان کی لذت اور ہیبت مٹنے نہ پائے گی۔

یہ پروگرام اپنی نوعیت میں یکتا، ہر جہت سے ممتاز اور ہر پہلو سے دلوں کو جھنجھوڑ دینے والا تھا۔
انتظامات کی خوشبو ہو یا ضیافت کی لطافت، اساتذہ کا احترام ہو یا طلباء کی حاضری… سب کچھ ایسا حسین امتزاج تھا جیسے اہلِ علم کی صدیوں پرانی روحانی مجالسِ رِقاق پھر سے زندہ ہو گئی ہو۔

اس اجتماع کا پہلا منظر ہی روح کو گرما دینے والا تھا، علم کی پیاس ایسے موجزن تھی
شوقِ علم اس قدر بلند تھا جیسے زمانۂ سلف میں مجالس حدیث آباد ہوتی تھیں۔کوئی حیدرآباد سے چلا آیا، تو کوئی پشاور، ملتان، راجووال اور منڈی بہاوالدین سے حاضر ہوا۔
جہاں مدارس کے طلباء کا ہجوم تھا، وہیں مشائخ کرام باوقار سنجیدگی سےشریک تھے۔
یونیورسٹیوں کے نوجوان ہوں، ڈاکٹرز، پروفیشنلز یا عام خواتین۔ سب نے پورے جذبے، پورے شوق اور پورے استقلال سے تین دن مسلسل حاضری دی۔

گویا علم، زہد، تواضع، سادگی، تربیت اور رقت نے ایک ہی چھت کے نیچے سب کو جمع کر لیا ہو۔

لیکن اس ماحول میں اصل زندگی، روح اور تاثیر تب آئی جب فضیلۃ الشیخ حافظ ندیم شیخ حفظہ اللہ نے بیان شروع کیا۔ انکے الفاظ میں عجیب جلال بھی تھا اور غیر معمولی جمال بھی۔ جب وہ حدیث کی وضاحت کے دوران، ائمہ محدّثین کی زندگیاں کھول کر رکھتے، سلف کے زہد و ورع کی مثالیں سناتے۔ تو ایسا محسوس ہوتا جیسے ابن باز کا زمانہ پھر لوٹ آیا ہو، ابن عثیمین کی مجالس آنکھوں کے سامنے جی اُٹھیں ہوں، نزیر حسین محدث دہلوی اور عبدالمنان نورپوری رحمہم اللہ جیسے اکابر کی سادگی و تقویٰ مکمل کرنوں کی صورت چمک رہی ہو۔

کبھی شیخ کی آواز رقت سے لرز اٹھتی…
کبھی طلباء کی سسکیاں بلند ہوتیں…
کبھی کسی نوجوان کی ہچکی بندھ جاتی…
اور کبھی فضیلۃ الشیخ محمد زیدی حفظہ اللہ حدیث کی قراءت کرتے ہوئے خود پر قابو نہ رکھ پاتے۔

یہ صرف درس نہیں تھا…
یہ کتاب الرقاق کا عملی منظر تھا…
زہد کی خوشبو، آخرت کی ہیبت، نرمیٔ قلب اور رقتِ ایمانی، ہر سو بکھری ہوئی تھی۔

مگر سب سے درد ناک اور دل کو چیر کر رکھ دینے والا وہ لمحہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکی آل مبارک کی سادگی، بھوک اور دنیا سے بے رغبتی کا ذکر آیا
اس وقت میں نے گردو پیش میں چند ہی آنکھیں ایسی دیکھی ہوں گی جن میں طوفان نہ اٹھا ہو۔
ایسا لگا جیسے دلوں کے دروازے ٹوٹ گئے ہوں، دنیا کی چمک ماند پڑ گئی ہو، روح جیسے بوجھل ہو گئی ہو اور آخرت کی صدائیں کانوں میں گونجنے لگی ہوں۔

اس بیان نے سمجھا دیا کہ اصل دولت اللہ کی رضا ہے۔۔۔۔اور اصل راحت دنیا کی کمی میں ہے زیادتی میں نہیں۔

استادِ محترم نے صرف علم نہیں دیا۔ بلکہ تربیت کے ہر پہلو کو کھول کر رکھ دیا۔
خواتین کے فتنوں سے لے کر مدارس کے طلباء کے باطنی امراض تک…
انتظامیہ کے معاملات سے لے کر معاشرے کی بے حیائی تک…
کوئی گوشہ ایسا نہ چھوڑا جس پر خلوص اور جرأت کے ساتھ بات نہ کی ہو۔

جب شیخ نے بار بار اسلام آباد کی پھیلتی بے حیائی پر افسوس کیا اور کہا:
“پتہ نہیں لوگ یہاں کیسے رہ لیتے ہیں؟”
تو یہ الفاظ صرف نصیحت نہیں تھے۔
یہ قلبِ سلیم رکھنے والے عالم کی حقیقی غیرت و تقویٰ کی دلیل تھے۔

علماء کا مقام ہو، طلباء کی تعظیم ہو یا انتظامیہ کی اصلاح، شیخ نے “لا يخافون لومة لائم” کی عملی تصویر بنتے ہوئے ہر مقام پر وہی کہا جو ایک ربانی عالم کہتا ہے…

آخر میں من لم يشكر الناس لم يشكر الله کو سامنے رکھتے ہوئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں فضیلۃ الشیخ سید طیب الرحمن زیدی اور ان کے فرزندِ گرامی فضیلۃ الشیخ محمد زیدی حفظہما اللہ کا،
جنہوں نے اس مجلس کو ایسی محبت، اخلاص اور حسنِ انتظام کے ساتھ سجایا کہ اہلِ علم کی قدیم صحبتوں کا سماں باندھ دیا۔

اختتامی لمحہ

تین دن بیت گئے…
مجلس ختم ہو گئی…
مگر دلوں پر اس کے نشان مٹنے والے نہیں۔

سینے پر اب بھی وہ لرزش ہے،
آنکھوں میں وہ نمی برقرار ہے،
اور دل پر وہ نور اب تک قائم ہے جو کتاب الرقاق کی برکت سے ملا۔

یہ دورہ حدیث صرف تین دن کا نہیں تھا۔
یہ زندگی کے بہت سے سالوں کا حاصل تھا۔
یہ وہ لمحے تھے جو انسان کی روح کی دنیا بدل دیتے ہیں۔

یہ مجلس تو ختم ہوچکی، مگر اس کے اثرات دلوں میں نقش ہو چکے ہیں۔
شاید ساری زندگی یہ آنسو، یہ لرزہ، یہ حلاوت اور یہ روحانی کپکپی کبھی ماند نہ پڑے۔

اللہ کرے کہ ان آثار کو ہم اپنی زندگی میں قائم رکھ سکیں…
اور اللہ ہمیں اس نور کو سینوں میں سنبھال کر چلنے کی توفیق دے۔

آمین یا رب العالمین۔

یہ بھی پڑھیں:میاں نزیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے نواب صدیق خان محدث بھوپالوی رحمہ اللہ کے ساتھ تعلقات