تحصیلِ علم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تکبر ہے. رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کی جو تعریف فرمائی ہے، وہ سب سے جامع اور واضح ہے. فرمایا: تکبر یہ ہے کہ تم حق کا انکار کرو اور لوگوں کو حقیر سمجھو. چنانچہ استاد کی بات کا فوراً رد کرنا، اس سے اونچا ہونے کی کوشش کرنا اور اس سے بد تمیزی کرنا، یہ سب تکبر کی نشانیاں ہیں. جونیئر سے استفادہ کرنے سے محض اس لیے گریز کرنا کہ وہ جونیئر ہے، یہ بھی تکبر ہے. علم پر عمل میں کوتاہی بھی محرومی کی علامت ہے.
مسلک و مذہب اور رائے کا تعصب بھی تحصیلِ علم کی راہ میں رکاوٹ ہے. طالبعلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلکی، گروہی اور جماعتی تعصب سے دور رہے.
اہلیت حاصل کرنے سے پہلے حلقۂ درس میں استاد بن کر بیٹھ جانا بھی تحصیلِ علم کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے. اگر طالبعلم ایسا کرے گا تو یہ ثبوت ہوگا چند باتوں کا.
ا) وہ خود پسند ہے جو ابھی سے حلقۂ درس کے درمیان استاد بن کر بیٹھ گیا ہے اور خود کو بڑا علامہ سمجھ رہا ہے.
ب) وہ فقیہ و عارف نہیں ہوا کیونکہ اگر وہ استاد بن کر حلقۂ درس کے درمیان بیٹھ گیا ہے تو ممکن ہے، کوئی ایسا مسئلہ اس کے سامنے آئے جس کا حل اس کے پاس نہ ہو. ظاہر ہے لوگ اس کے پاس مسائل لائیں گے جو اس کی اوقات سامنے لے آئیں گے.
ج) اہلیت حاصل کرنے سے پہلے اگر وہ استاد بن کر حلقۂ درس کے درمیان بیٹھ جائے گا تو لازم ہے کہ وہ کسی دینی امر کے بارے میں ایسی بات کرے گا جس کا اسے علم نہیں. ایسے حضرات عام طور پر یہی کرتے ہیں. انھیں علم ہو نہ ہو، وہ ہر سوال کا جواب دیں گے.
د) انسان عام طور پر جب جائے صدارت پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ حق کو قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنی بیوقوفی کےسبب یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ دوسرے شخص کے آگے جھک گیا جبکہ حق اسی کے پاس ہو تو یہ اس امر کا ثبوت ہوگا کہ وہ عالم نہیں.
بدگمانی بھی تحصیل علم کی راہ میں رکاوٹ ہے. طالبعلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے متعلق ایسی بدگمانیوں سے بچے کہ فلاں نے ریا کاری سے صدقہ کیا ہے. فلاں طالبعلم نے جو سوال کیا ہے وہ بھی ریا کاری سے کیا ہے، تاکہ معلوم ہو کہ وہ بڑا سمجھ دار طالبعلم ہے. یہ منافقین کا وتیرہ تھا (التوبة 79.)
پس جو شخص بظاہر راست رَو ہو، اس کے بارے میں بدگمانی سے بچنا ضروری ہے. البتہ جو شخص بظاہر راست رَو نہ ہو، اس کے متعلق بدگمان ہونے میں کچھ حرج نہیں، تاہم تحقیق کر لینی چاہیے کہ اگر اس کے بارے میں کوئی وہم تم نے پال رکھا ہے تو وہ دور ہو جائے کیونکہ بعض لوگ جھوٹے اور بے حقیقت خیالات و اوہام کی بنا پر دوسروں سے بدگمان رہتے ہیں. پس اگر تم کسی شخص سے بدگمان ہو تو دیکھ لو کہ آیا تمھارے پاس اس بدگمانی کے کھلے قرائن ہیں. اگر کھلے قرائن ہیں تو بدگمانی میں کچھ حرج نہیں، تاہم اگر وہ صرف خیالات و اوہام ہیں تو جو مسلمان بظاہر راست رَو ہو، اس کے بارے میں بدگمان ہونا جائز نہیں.

(افاداتِ عثیمین، ماخذ: کتاب العلم، تلخیص و ترجمہ: ح ق ح۔)

حافظ قمر حسن