سوال : خاوند اور بیوی نے اپنا ٹیسٹ ٹیوب بےبی کروایا تھا، پھر دونوں میاں بیوی کا مخلوط نطفہ فریز کرلیا گیا، اب خاوند فوت ہوچکا ہے. عورت کا کہنا ہے کہ وہ خاوند کی وفات کے بعد عقد ثانی نہیں کرے گی بلکہ اس فریز شدہ نطفے سے بچے پیدا کرتی رہے گی. کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے؟ ياد رہے کہ میاں بیوی نے اس عمل کو شروع کرنے سے پہلے ہسپتال سے معاہدہ کیا. اس معاہدے کی رو سے طے تھا کہ طلاق، قانونی جدائی اور کسی ایک فریق یا دونوں کے وفات کی صورت میں تولیدی جراثیم ضائع کردیئے جائیں گے اور میاں بیوی میں سے کوئی اسے استعمال نہیں کرسکے گا۔

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين و على آله وصحبه أجمعين، اما بعد:الجواب بعون الوهاب وهو الموفق للحق والصواب
ٹیسٹ بےبی ٹیوب کے ذریعے بچے کی پیدائش میڈیکل سائنس سے متعلقہ ایک اہم مسئلہ ہے. سنہ 1978 میں دنیا کا پہلا ٹیسٹ ٹیوب بچہ برطانیہ میں ہوا تو علماء کرام نے اس بابت گفتگو کرتے ہوئے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی اور نہایت غور و فکر سے جائزہ لیتے ہوئے اس کی جائز اور ناجائز تمام صورتوں کی وضاحت کرتے ہوئے صرف ایک شکل کو جائز قرار دیا کہ جس میں میاں بیوی دونوں کا نطفہ لے کر لیبارٹری میں اس نطفے کی نشو و نما کی جائے اور پھر اسی نطفے کو اسی شوہر کی بیوی کے رحم میں رکھ دیا جائے. یہ کام نہایت رازداری سے امانت و دیانت کی صفات سے متصف با اعتماد ڈاکٹر حضرات کی نگرانی میں سرانجام دیا جائے نیز اگر ممکن ہو تو یہ سارا عمل لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے کیا جائے.
اس عمل کے ذریعے سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے کبار
اہل علم نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔
پاکستانی شرعی عدالت کے سنائے گئے ایک فیصلے کے مطابق ’’اگر بچے کی پیدائش کی وجہ بننے والا سپرم اس کے قانونی والد ہی کا ہو اور بیضہ اس کی والدہ کا، جو متعلقہ مرد کی بیوی ہو، تو ایسی صورت میں طبی طریقہء کار سے مصنوعی حمل ٹھہرانے کے بعد اگر ایمبریو دوبارہ اس بچے کی حقیقی والدہ ہی کے رحم میں رکھا جائے، تو یہ طبی عمل مذہبی حوالے سے بھی قانون کے مطابق اور جائز ہو گا۔
وفاقی شرعی عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر ٹیسٹ ٹیوب بےبی کی پیدائش کے لیے بیضہ اور سپرم میں سے دونوں یا کوئی ایک بھی متعلقہ جوڑے کے علاوہ کسی دوسرے مرد یا عورت کا ہو، تو ایسی صورت میں کسی ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش اخلاقی طور پرغلط، ناجائز اور غیر اسلامی ہوگی۔
صورت مسئولہ میں بشرطِ صحت سوال میاں بیوی نے یہ عمل شروع کروایا ہی تھا کہ شوہر فوت ہوگیا. اب بیوی اس عمل کو جاری رکھنا چاہتی ہے. ہمارے نزدیک یہ عمل جائز نہیں ہے کیونکہ بچے کی نسبت باب کی طرف تب ہوتی ہے جب بیوی بچے کے باپ کی وفات کے وقت حاملہ ہو. صورتِ مسئولہ میں چونکہ بیوی شوہر کی وفات کے وقت حاملہ نہیں تھی لہٰذا اس عمل کو مزید آگے نہیں بڑھایا جا سکتا کیونکہ اس سے شرعی طور پر بہت سی قباحتیں لازم آئیں گی. جیسا کہ بچے کی نسبت کا معاملہ اور خاتون کا بغیر نکاح کے حاملہ ہونا جو کہ شرعاً درست نہیں ہے مزید برآں اس سے وراثت کے مسائل بھی پیچیدہ ہو جائیں گے کہ ابھی بچہ حمل ہے ہی نہیں تو اس کو وارث مانا جائے یا نہ مانا جائے۔ نیز اس کے ساتھ اس کی تائید اور تاکید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ میاں بیوی نے ہسپتال والوں سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر ہم دونوں میں سے کوئی ایک فوت ہو جاتا ہے یا شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو یہ عمل وہیں روک دیا جائے گا اور اسے مکمل نہیں کیا جائے گا. لہٰذا مسئلہ بھی غلط ہے اور اس کی تائید عہد سے بھی ہوتی ہے۔ اور شریعت مطہرۃ کی روشنی میں جو عہد کیا جائے اس کو پورا کرنا لازم و ضروری ہے جیسا کہ فرمان نبوی صلی الله علیه و سلم ہے: (( المسلمون على شروطهم)) یعنی مسلمان اپنی شرائط پوری کرنے کے پابند ہیں۔
لہٰذا ان قباحتوں کی بنا پر ایسا کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
نوٹ : اس مسئلے میں ” الموسوعة الفقهية الكويتية ” کے جامعين اور ” مجمع عالم اسلامی ” کے معزز اراکین (1990ء) بھی موافقت کرچکے ہیں. مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں :
http://fiqh.islammessage.com/NewsDetails.aspx?id=3151
هذا ما عندنا والله تعالى اعلم بالصواب