ٹوپی اور اصلاح نفس
ٹوپی کی کئی قسمیں ہیں مثلا ً بنگالی ٹوپی، ترکی ٹوپی، افریقی ٹوپی، سندھی ٹوپی، جالی دار ٹوپی، جناح کیپ وغیرہ۔ شاید ٹوپی کی جتنی قسمیں ہیں، اتنی ہی باتیں اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے بھی کی جا سکتی ہیں۔ ٹوپی پہننا اس لیے درست ہے کہ دین دار لوگوں کا عرف ہے اور نہ پہننا اس لیے مفید کہ اصلاح نفس میں اس کا بڑا کردار ہے۔ ٹوپی پہننا تو شاید مذہبی لوگوں کی سمجھ میں آسانی سے آ جائے لیکن ٹوپی نہ پہننا انسان کی اصلاح کا کیسے ذریعہ بن سکتا ہے؟ یہ مذہبی طبقے کو سمجھانا واقعتاً مشکل کام ہے۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے جسے بھی زبان وبیان کی کچھ صلاحیت دی ہو اور وہ کہیں درس قرآن کا حلقہ قائم کریں یا اصلاحی مجلس لگائیں یا کوئی عربی کلاس لینا شروع کریں تو ان کے ارد گرد آہستہ آہستہ ایک حلقہ بننا شروع ہو جاتا ہے۔ ان میں سے چند ایک تو مدرس اور خطیب کے مرید بھی بن جاتے ہیں اور کسی مدرس، مصلح یا خطیب کو بگاڑنے کے لیے ایک مرید بھی کافی ہوتا ہے۔ ان مریدوں میں سے کوئی آپ کی جوتیاں سیدھی کرنا شروع کر دیتا ہے اور کوئی آپ کے وعظ وتدریس کی تعریف وتوصیف میں مبالغہ آمیز باتیں کہنا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی آپ کو نمونہ بنانا (idealize) شروع کر دیتا ہے اور کوئی آپ کے افکار کا مبلغ بلکہ ”جیالا “ بننے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔
ایسے حالات میں کسی کو بطور مدرس یا مبلغ یہ احساس ہوسکتا ہے کہ اب وہ صاحب اپنی غیر معمولی صلاحیت سے کوئی علیحدہ مخلوق لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ اور لوگوں کی نظر میں شیخ اور مرشد بن گئے ہیں۔ پس ایسے میں ہمیں اپنا حلیہ مذہبی نظر آنے والے لوگوں کی بجائے عام مسلمانوں جیسا اختیار کرنا چاہیے تا کہ لوگ ہمیں وہی سمجھیں جو ہم حقیقت میں ہوں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم عام لوگوں کے جیسے انھی میں سے ایک ہیں۔ ہم نے یہ عجب محسوس کیا ہے کہ اگر استاذ یا شیخ، واعظ یا خطیب اپنے مریدین کے حلقے میں ٹوپی اتار دے تو یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ اس نے اپنے نفس پر پڑی تقدس کی چادر اتار دی ہے اور اگر آپ شلوار قمیص کی بجائے سوٹ پہن لیں تو پھر تو لوگ شاید آپ کے نیک ہونے میں بھی شبہ کرنا شروع کر دیں۔
ڈاڑھی رکھنا ایک دینی حکم ہے اور اس حلیے کو دینی حلیہ کہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایک حلیہ ایسا ہے کہ جو دینی تو نہیں لیکن مذہبی لوگوں نے اسے اختیار کیا ہوا ہے مثلا ً پاکستان میں اہل حدیث سر پر سرخ رومال رکھتےہیں یا چوغہ اوڑھتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اور تصوف کے حلقوں میں عمامہ باندھتے ہیں یا سفید کرتا پہنتے ہیں وغیرہ۔ اس قسم کے مذہبی حلیے کے بارے ہمارے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ لوگوں کے نزدیک تقوی کا معیار یہی ظاہری حلیہ بن چکا ہے جبکہ تقوی کا اصل مقام انسان کا دل ہے۔
اب اسی پر غور کر لیں کہ ایک شخص شلوار کرتا پہن کر، سفید عمامہ باندھ کر، موزے پہن کر اور جیب میں مسواک رکھ کر اچھا خاصا عالم دین یا ولی اللہ معلوم ہوتا ہے جبکہ واسطہ پڑنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ تو عالم دین ہے اور نہ ہی اللہ کا ولی۔ کیا یہ دھوکہ نہیں ہے کہ آپ اپنے ظاہر سے اتنے نیک معلوم ہوں جو آپ حقیقت میں نہ ہوں؟ اس لیے بعض لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ وہ عمامہ باندھ کر عام لوگوں میں اللہ کا ولی دکھائی دیں۔
اور اہم تر بات یہ ہے کہ کسی معاشرے میں کئِ قسم کے لباس اور حلیے مروج ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک شرفاء کا لباس ہوتا ہے جبکہ دوسرا صلحاء کا۔ ہمیں شرفاء کا لباس ضرور اختیار کرنا چاہیے کہ یہ دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے لیکن صلحاء کا لباس اختیار کرتے وقت پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کیا میں اس لباس کے اہل بھی ہوں یا نہیں؟ کیا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ میں صلحاء کا لباس اختیار کر کے زیادہ صالح نظر آنے کی لاشعوری کوشش کر رہا ہوں؟
ان سب باتوں پر غور کرنا ایک دینی ذمہ داری ہے کہ روایات میں شہرت کا لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “جس نے شہرت کا لباس پہنا تو اللہ تعالی قیامت والے دن اسے ذلت کا لباس پہنائیں گے۔“ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ ذہین ہیں تو ٹوپی اتارنے کو بھی اپنے اصلاح نفس کی بنیاد بنا کر دکھا دیں گے اور اگر ذہانت نہیں ہے تو پھر چھ چھ گھنٹوں کے مراقبے، پاس انفاس، وجد اور سماع بھی کچھ کام نہ آئیں گے۔ تزکیہ نفس بہت سادہ طریقے سے بھی ہو سکتا ہے، اسے پیچیدہ بنانا خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ [ماخوذ از کتاب صالح اور مصلح]
ڈاکٹرحافظ محمد زبیر