ابو یحییٰ نور پوری حفظہ اللہ کون ؟

میری جن لوگوں سے کچھ خاص شناسائی نہیں اور نہ کوئی طویل ملاقات ہے بلکہ سرراہ بس سلام دعا ہے مگر مجھے ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے محبت ہے…ان میں سے ایک قابل ذکر ہستی ” ابو یحییٰ نور پوری حفظہ اللہ بھی ہیں…عرصہ ہوا ان کی محبت میں دل کو زبان دی اور الفاظ و حروف کو کلمات کا جامہ پہنا کر فیس بک کے حوالے ایک مضمون کیا گیا تھا جو ضرورت کے پیش نظر پھر سے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے.
نوٹ : آخری جملوں میں کی گئی فقیر کی پیش گوئی پہ مکرر غور و فکر کیا جائے.
حالِ دل :
(ابو یحییٰ نور پوری حفظہ اللہ کون ؟)
کل شب ایک کلپ دیکھا جس میں ساحل عدیم جیسا فتنہ گر تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے غرور و تکبر سے بھرپور لہجے میں طنزاً کہتا ہے : کون ابو یحییٰ؟
خدائے سخن میر تقی میر ایسے ناہنجاروں کے لیے کہا خوب کہہ گئے کہ :
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
جہاں تک میں سمجھا ہوں امام الفتن کا اصل مسئلہ برادر محترم، عزیز مکرم ابو یحییٰ نور پوری حفظہ اللہ نہیں بلکہ علماء کرام سے نفرت ہے جو ان جیسے بد طینت حضرات کے رگ و پے میں یوں سما چکی ہے :

(تَجارى بِهم تلكَ الأهواءُ كما يَتَجارى الكَلبُ لصاحِبِه ، لا يَبقى منه عِرْقٌ ولا مِفصلٌ إلَّا دخلَه).

یعنی جن میں گمراہیاں اسی طرح سمائی ہوں گی، جس طرح کتے کا اثر اس شخص پر چھا جاتا ہے جسے اس نے کاٹ لیا ہو.
جی ہاں خوانندگان محترم! دین کی من مانی تشریح کرنے کے شوقین ان ” دانشوڑوں ” کا مجموعی مزاج یہی ہے کہ جہاں کوئی ان کے خبیث عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنا کسی” پھپھے کٹنی ” کی طرح اس کے لتّے لینے شروع کر دیے…اس قماش کے حضرات چونکہ اپنی خود ساختہ تشریحات اور” دانشوڑی “کی بدولت منکرین حدیث، اہل بدعت، ملحدین، دین دشمن اور علمائے دین کے بغض میں مبتلا کور چشم لوگوں کے ہاں سندِ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں تو یہ حضرات ایسی اوچھی اور اخلاق سے گری حرکتوں پر بغلیں بجاتے اور ” چھک چوہدری” ذہنیت کی تسکین کے لیے ایک دوسرے کو مبارک سلامت کے پیغامات ارسال کرتے ہوئے اچھلتے اور کودتے ہیں.
اور ہاں :
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سُن لے
حیرت ان نابغوں پہ بھی ہے جو سستی شہرت کے لیے گمراہ گر لوگوں کو نہ صرف پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں بلکہ ان آگے بچھے جاتے ہیں اور اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ کہیں ان کی لگائی ہوئی آگ کو ہوا دینے والوں میں خود بھی شامل نہ ہو جائیں.
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے

نثر نگار : حافظ عبد العزيز آزاد

یہ بھی پڑھیں: انکارِ حدیث کے لیے مزعومہ معتدل طریقہ