تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے؟
” تمھیں ایک دوسرے سے زیادہ (مال) حاصل کرنے کی حرص نے غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں“ (سورۃ التکاثر)
عناصرِ اربعہ ہوں یا حواسِ خمسہ، مال و منال کا لوبھ انسان میں مکمل طور پر سرایت کر چکا ہے۔حرص و ہوس کی حدّ اعتدال کو روند کر ہم کہیں دُور نکل گئے ہیں۔کسی ایسے ریگ زار میں جہاں انسانیت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔کسی ایسے دشتِ بے اماں میں جہاں صلہء رحمی اور رحم دلی کا گزر تک نہیں۔زیست کے گراں مایہ اور اَن مول لمحات میں مال و دولت ہمیشہ ” بہت کچھ “ ہوتا ہے مگر ” سب کچھ “ تو نہیں ہوتا۔لاریب روپے پیسے کی بانہوں میں آسایشات اور تعیّشات کے سامان سمائے ہوتے ہیں مگر کتنے ہی اہلِ ثروت نیند کی گولی لے کر سوتے ہیں اور اُن کے برعکس کتنے ہی مفلوک الحال لوگ خس وخاشاک کے ڈھیر پر بھی گھوڑے بیچ کر سکون کی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔سونے چاندی سے خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں نہ دل میں سمائے دردوالم کو کم کیا جا سکتا ہے۔ہیرے جواہرات کے عوض صحت کا حصول ممکن ہے نہ رنجیدگی کو دُور کیا جا سکتا ہے۔با ایں ہمہ یہ حضرت انسان، دولت کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے۔اس کے پاس کروڑوں روپے جمع ہو جائیں تب بھی بوالہوسی مٹتی ہی نہیں۔
معلوم نہیں ڈاکٹرز کے دلوں میں حرص کی نوکیلی اور خاردار جھاڑیاں اتنی کثرت کے ساتھ کیوں اگ آئی ہیں؟ بہاول پور میں ہم ایک ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئے تو میں نے گھڑی میں ٹائم دیکھ لیا۔اُس نے ہمیں ایک منٹ اور بیس سیکنڈ دیے اور آٹھ سو روپے فیس وصول کر لی۔اُس نے مریض کی بات تک سننا گوارا نہ کی۔الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دیکھی اور جلدی جلدی دوائیں لکھ کر نسخہ تھما دیا۔میرے دوست نے کہا ڈاکٹر صاحب یہ دوائیں میں استعمال کر چکا ہوں مگر کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ڈاکٹر نے جان چھڑاتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتہ یہ دوائی استعمال کرنے کے بعد پھر آنا۔زاہدہ کمال نے کیا باکمال شعر کہا ہے!
کہنا پڑا انھِیں کو مسیحائے وقت بھی
جن سے ہمارے درد کا درماں نہ ہو سکا
بہاول پور میں ایک ڈاکٹر کے پاس میں نے ایک مریض کو مِنتیں کرتے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب! میرے پاس پورے پیسے نہیں ہیں، میرا الٹرا ساؤنڈ کر دیں مگر ڈاکٹر فیس کے بغیر الٹراساؤنڈ کرنے کے لیے کسی طور تیار نہ تھا۔ایک شخص نے اُس مریض کی فیس دی تب ڈاکٹر نے اُس کا الٹراساؤنڈ کیا۔میں نے اپنے شہر کہروڑ پکا میں ایک بزرگ خاتون کو ڈاکٹر کے سامنے گِڑگِڑاتے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب! میں غریب ہوں، فیس پوری نہیں ہے۔مگر ڈاکٹر اُس کی بات کو اہمیت دینے کی بجائے دوسرے مریض کی طرف متوجہ تھا۔انعام الحق جاوید کا قطعہ ہے۔
اک ڈاکٹر مریض کو سمجھا رہا تھا یوں
کرتا ہے میرے کام کو دشوار کس لیے؟
پیسے نہ تھے علاج کے گر تیری جیب میں
پھر یہ بتا ہُوا ہے تُو بیمار کس لیے؟
یقیناً رحم دل اور خدا ترس ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں۔میں نے بہاول پور میں ہی گردوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ممتاز رسول کو غریب مریضوں کا مفت معائنہ کرتے بھی دیکھا ہے۔ایسے ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہیے مگر اپنے گردوپیش پر نظر دوڑا لیجیے ایسے ڈاکٹر آٹے میں نمک سے بھی کم ہی دکھائی دیں گے۔اکثر ڈاکٹر فیس کے بغیر مریض چیک کرتے ہی نہیں اور کچھ ڈاکٹرز کے مزاج پر تو فیس لے کر بھی مریض کی بات غور سے سننا گراں گزرتا ہے۔مریض اپنے دکھ کو بیان کرنا چاہتا ہے مگر ڈاکٹر کے پاس مریض کے دکھ کو محسوس کرنا تو کجا، سننے کے لیے بھی وقت نہیں۔ڈاکٹرز کے پاس ڈلیوری کی مریضہ آ جائے تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے۔کیوں کہ آپریشن کے بغیر ڈلیوری کرنا اب ڈاکٹرز نے ناممکن بنا دیا ہے۔آپ کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال میں چلے جائیں، ڈاکٹر کوئی نہ کوئی کہانی گھڑ کر مریضہ کا آپریشن ہی تجویز کرے گا۔بہ صورتِ دیگر مریضہ یا بچّے کی جان کو شدید خطرات بتائے جائیں گے۔دنیا بھر میں 70 فی صد بچّے قدرتی طور پر نصف شب کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔اب ایسی کیفیت اور ایسی حالت میں مریضہ کو کسی دوسرے ہسپتال منتقل کرنا بھی دشوار ہوتا ہے، سو مریضہ کے عزیزواقارب آپریشن کروانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔وہ کوئی خوش نصیب ہی خاتون ہو گی جس کی کسی پرائیویٹ ہسپتال میں نارمل ڈلیوری کر دی گئی ہو۔ڈلیوری کے لیے آنے والی ہر خاتون کا آپریشن کر دینے کا المیہ اب اس قدر الم ناک ہو چکا ہے کہ اسے جرم تو کجا، غلط بھی نہیں سمجھا جاتا۔
عالمی ادارہ ء صحت بھی پاکستان میں اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں آپریشن کے ذریعے بچّوں کی پیدایش کی شرح 25 تا 28 فی صد ہے۔بھارت اور چین میں 33 فی صد جب کہ پاکستان میں یہی شرح 60 فی صد سے تجاوز کر چکی ہے۔آپریشن کی اس 60 فی صد شرح میں سے اگر سرکاری یسپتال نکال کر صرف پرائیویٹ ہسپتالوں کو شامل کیا جائے تو آپریشن کی شرح 95 فی صد سے بھی بڑھ جائے گی۔سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز، مریضہ کے آپریشن کے جھنجھٹ سے گریز کرتے ہیں اور انتہائی ناگزیر حالات میں ہی آپریشن کرتے ہیں۔اسی لیے سرکاری ہسپتالوں میں زچّہ کے آپریشن کم سے کم تر ہوتے ہیں۔
مال کی حرص نے کچھ ڈاکٹرز کو اتنا شقی القلب بنا دیا ہے کہ کچھ سال قبل دنیا پور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں بچّے کی نارمل پیدایش کے بعد فوری طور بے ہوش کر کے آپریشن کر دیا گیا۔مریضہ کو ہوش آیا تو وہ چیخنے چِلّانے لگی کہ میرا بچّہ تو نارمل پیدا ہوا تھا پھر آپریشن کیوں کیا گیا؟ عالمی ادارہ ء صحت نے آپریشن سے پیدایش کی شرح 15 فی صد تجویز کر رکھی ہے۔آپ شاید حیران ہو جائیں کہ افغانستان میں اس آپریشن کی شرح ایک فی صد سے بھی کم ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپریشن کروا لینے میں آخر کیا قباحت ہے؟آپریشن ایک ایسا انتہائی قدم ہے جو کہ انتہائی ضروری حالات میں ہی سرانجام دینا چاہیے، کیوں کہ آپریشن کے ذیلی اثرات تمام عمر خواتین کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔بعض اوقات آپریشن کا زخم مکمل طور پر ٹھیک ہی نہیں ہوتا اور وقفے وقفے سے اس میں ٹیس اٹھتی رہتی ہے۔خون نہیں رکتا، آپریشن کے بعد اکثر عورتیں گھر کا کام کاج ٹھیک طرح نہیں کر سکتیں۔خواتین کی کمر میں درد رہنے لگتا ہے۔اور ان سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عورت کا جسم بدنما اور بھدّا ہو جاتا ہے۔
میری ایسے تمام ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر کو تو انتہائی رحم دل، شفیق، ملن سار، نرم خُو اور نرم دل ہونا چاہیے۔ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر تو مریض کو احساسِ تحفظ ملنا چاہیے، اُسے چَین اور سکون نصیب ہونا چاہیے۔مگر حالت یہ ہے کہ مریض ایک طرف تو مرض سے عاجز، دوسری جانب ڈاکٹرز سے بھی تنگ کہ اسے صحت ملے نہ ملے، جیب ضرور خالی کر دی جائے گی۔جمیل ملک کی بے بسی ملاحظہ کیجیے!
ختم ہو جائیں جنھیں دیکھ کے بیماریِ دل
ڈھونڈ کر لائیں کہاں سے وہ مسیحا چہرے؟
مَیں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وہ نوجوان جو میڈیکل میں داخلے کے وقت اِس عزمِ عالی شان کا اعلان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر بن کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے مگر ڈاکٹر بننے کے بعد ملک وقوم کواپنی خدمت پر مامور کیوں کر لیتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ خرابی کہاں پر ہے؟ ان کے تاب ناک عزائم کو کون اتنا گدلا کر دیتا ہے کہ اُن کی نظر بیماری کی بجائے بیمار کی جیب پر ٹک کر رہ جاتی ہے اور سرکار بھی گونگے کا گُڑ کھا کر چپ کیوں سادھ لیتی ہے؟ پرائیویٹ ہسپتالوں میں آپریشنز کے اعدادوشمار جمع کیوں نہیں کیے جاتے؟ کہ کتنی خواتین کے آپریشنز کیے گئے اور کیوں کیے گئے؟ ڈاکٹرز کو چاہیے کہ وہ روزانہ سورۃ التکاثر کا ترجمہ ضرور پڑھا کریں کہ شاید مال وزر کی طلب میں کچھ کمی آ جائے۔فیض احمد فیض بھی یوں شکوہ کناں ہے۔
بے دم ہوئے بیمار، دوا کیوں نہیں دیتے؟
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے؟
( انگارے ۔۔۔حیات عبداللہ )