مشاہیر اہلِ حدیث (جموں کشمیر)
صبح سویرے سرینگر کا سفر شروع کیا کہ اسپتال میں۔ جاکر اپنے دوست کے بچے کی مزاج پرسی ہو اسی سادہ سا لباس زیب تن کیا پاؤں میں چپل پہن کر چل پڑا اکثر اسفار میں بھول جاتا ہوں کہ پہننا ہے اور کیا نہیں اسپتال پہنچ کر تھوڑی دیر تک رکا پھر سیدھا ایک مخلص بھائی جو کہ حج سے واپس آئے تھے کہ خدمت ۔میں حاضری دی جنہوں۔ نے کمال اپنائیت کے ساتھ استقبال کیا زم زم پلایا سفر حج کے دوران پیش آئے واقعات و احساسات بتائے مدینہ میں اقامت کے دوران کی کیفیتیں بیان کرتے ہوئے گلوگیر ہوگئے سفر کی مختلف باتیں سنانے بعد طعام کرایا اور ہم نے کھانا کھانے کے فوری بعد ان سے رخصت لی اور جمیعت کے دفتر کی اور چل پڑے جہاں معلومات کے بعد جناب بشارت بشیر صاحب سے ملے ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں۔ نے اپنی تصنیف کی ایک کاپی مرحمت فرمائی مجھے شدت سے اس کی تلاش تھی اور آج مذکورہ کتاب مشاہیر اھل الحدیث نامی کتاب جناب مکرم بشارت بشیر صاحب نے عنایت کر ہی دی جمیعت کے دفتر پر جہاں آج ان کی خدمت میں حاضری لگائی کتاب ان گمنام اور معروف اھل علم و بزرگوں پر لکھی گئی ہے جنہوں نے اپنی خدمات انجام دے کر جمیعت کی خدمت کی ہے نام سے ہی اچھی لگا موضوعات کی فہرست میں مختلف اھل قلم نے اپنی یادداشتوں کے سہارے مختلف شخصیات کا خاکہ پیش کیا ہے جن میں سب سے زیادہ بشارت بشیر صاحب نے ہی لکھے ہیں بشارت بشیر صاحب کے قلم کی وسعت اور مطالعہ کتب کو دیکھنا ہو تو مسلم کے کسی شمارے میں ان کی کوئی تحریر مطالعہ کرلیں علوم و معارف کے ساتھ ساتھ ادب کا ذائقہ بھی ان کی تحریر میں نظر آئے گا ہنس مکھ خوش مزاج شخصیت کے مالک ہیں اسی لئے مجھ جیسے طالب علم سے بھی بہتر انداز سے پیش آئے جس پر مجھے خوشی ہوئی ورنہ یہاں تو چھوٹی چھوٹی شخصیات بھی اب منکسر المزاجی سے کورے ہی ہوتے جارہے ہیں بڑوں کا کیا ان کے حضور جانے کی ہماری حیثیت ہی نہیں ،،،،
ہم باتوں میں مصروف تھے اور علم ادب اور موجود دور میں مختلف اہل قلم پر ہم باتیں کرتے رہے اور خوب بیٹھک سنورتی جارہی تھی کہ ،،
کہ اچانک مولانا مشتاق احمد ویری صاحب تشریف لے آئے۔ ان کے آتے ہی پہلے تو خاموشی چھائی رہی پھر محترم نے اپنے بڑے ہونے کا حق ادائی کے ساتھ ہی گفتگو پھر سے شروع کی موضوع تھا موجودہ زمانے کے مختلف خطیب حضرات،، باتوں ہی باتوں میں پھر بات چلی احیاء توحید اور حب نبوی علیہ السلام میں توازن پر عجیب سماں تھا کہ نگاہِیں نم اور ہونٹ لرزیدہ محفل میں خوبصورت کا غالب رنگ جناب بشارت بشیر صاحب کی طرف سے خوب بھرا جارہا تھا پھر بات چلی چونہ لگانے کی تو
مولانا مشتاق صاحب نے کہا ایک بار اسپتال میں تھا کہ ایک صاحب میری بستی کے پاس ہی کہیں پر رہتے تھے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں تو میں نے اپنے گاؤں کا نام بتایا اس نے بتایا کہ وہاں ایک سلفی عالم مولانا مشتاق احمد ویری بھی رہتے ہیں میں نے مسکرا کر کہا کیا آپ انہیں جانتے ہیں بولے بالکل وہ میرے قریبی دوست ہیں دن میں ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں سماں تب بندھا جب کسی نے مجھے نام کے ساتھ سلام کیا تو وہ بندہ مبہوت ہوکر مجھے تکنے لگا میں مسکرا کر اٹھا اور چل دیا
ہم مسکراتے ہوئے اٹھے مصافحہ کیا اور رخصت طلب کی کیوں کہ میرے بھائی جیسے جگر کا ٹکڑا بیمار تھا وہ اسپتال میں ایڈمٹ ہے اسے دیکھنے کے لئے جلدی تھی ورنہ ممکن ہے کہ محفل مزید بنی رہتی خیر میں دونوں عزیزان گرامی کا مشکور ہوں کہ انہوں۔ نے علمی و ادبی مکالمہ بھی کیا اور اک خوبصورت تحفہ بھی دیا دیر گئے گھر پہنچا پر لذت و چاشنی کا اثر جیسے اب بھی تھا اس گفتگو کا جو حب نبوی علیہ السلام پر کی گئی
سلامت رہیں
✍🏻الطاف جمیل شاہ سوپور کشمیر
یہ بھی پڑھیں: نبی اکرم ﷺ اور صحابہ ؓ کا حسنین کریمینؓ سے محبت