اجڑا ہوا غزہ اور میری خواہش

جیسے کسی سرد اور یخ بستہ طوفان کی ہَوا کے بے رحم جھونکے نیم سوختہ جان زرد پتّوں کو اُڑا لے جائیں، غزہ کے نحیف و نزار لوگ ویسے ہی روند دیے گئے۔عہدِ جدید کے فرعونوں، درندوں اور جلّادوں نے پوری فرعونیت اور جنونیت کے ساتھ وحشت ناک موت کے تمام خونیں کھیل کھیلے، امریکی گماشتے اسرائیل کی بھوکی چِیلوں اور گِدھوں نے بوٹیاں نوچ لیں وجودِ مسلم کی۔ بے گناہ لوگوں کے وجود بھون دیے گئے، آبادیوں کو تاخت و تاراج کر دیا گیا، عورتوں اور بچوں پر جدید ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کر کے انسانی وجود سے گوشت نوچ لیا گیا۔وقت کے ابلیسوں کی سنگلاخ سماعتوں پر کسی آہ، کسی سسکی، کسی بَین اور کسی گریہ و زاری کا کوئی اثر نہ ہُوا۔گذشتہ چند ماہ کے دوران عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں مسلمان، بموں کی آگ میں بھون دیے گئے۔ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کے وجود کو بھسم کر دیا گیا۔مسجدیں خون میں نہلا دی گئیں۔خون آشام اسرائیل نے شقی القلبی کی انتہا کر دی۔57 اسلامی کے سامنے بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے جسموں کو جلا دیا گیا۔سنسان اور اجڑا پجڑا غزہ قبرستان بن چکا ہے۔ آج غزہ کے مسلمان گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہیں۔منوّر رانا نے ایسا کرب ناک منظر یوں کھینچا ہے۔
کئی گھروں کو نگلنے کے بعد آتی ہے
مدد بھی شہر کے جلنے کے بعد آتی ہے
مگر غزہ میں تو سب کچھ جل مٹ جانے کے باوجود بھی اقوامِ عالَم اور اقوامِ متحدّہ سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔یہ لوگ صرف چپ ہی نہیں بلکہ آگ اور خون کے اس کھیل پر بغلیں بجا کر کھلم کھلا اسرائیل کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدّہ بالکل گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے۔اس نے آج تک اسرائیلی بدمعاشوں سے یہ سوال تک نہ پوچھا کہ ہسپتالوں پر بم باری کیوں کی جا رہی ہے؟ کیوں ڈاکٹروں، مریضوں اور طبی عملے پر بم برسائے جا رہے ہیں؟ کیا درجنوں ننّھے نومولود بچے جن کے نازک اندام وجود کو بوٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا، کیا، وہ ننھے پھول بھی اسرائیل کے خلاف جنگ کر رہے تھے؟ کیا گِڑگِڑاتی اور بَین کرتی عورتیں بھی جنگی مجرم تھیں کہ جن کو سفاکیت کے ساتھ جنگ کا ایندھن بنانا ضروری تھا؟ کیا جنگ جُو عورتیں ایسی ہُوا کرتی ہیں؟ غزہ کے دَر و بام سے اٹھتی فریادیں اور مناجاتیں آج تک عالمی ضمیر پر ذرا بھی خراشیں تک نہیں ڈال سکیں۔غزہ کے مظلوموں کی آہیں اور سسکیاں ہی اُن کے اپنے لبوں پر چسپاں ہوکر رہ گئی ہیں۔
غزہ میں کوئی ایک ایسی عمارت نہیں جو تباہی سے بچی ہو، گھروں اور مکانوں کی حالت اس قدر ابتر اور خستہ ہے تو مکینوں کا کیا بنا ہو گا؟ تباہ حال گھروں کو دیکھ کر سینے میں ہوک اٹھتی ہے۔ان کے جسم و جاں پر کتنے عذاب بیتے ہوں گے، یہ تصوّر ہی بڑا روح فرسا ہے۔منوّر رانا ایسے درد کو یوں بیان کرتا ہے۔
خامشی کب چیخ بن جائے کسے معلوم ہے؟
ظلم کر لو جب تلک یہ بے زبانی اور ہے​
آج کا غزہ، غیرتِ مسلم کا اجتماعی قبرستان بنا ہوا ہے۔صرف چند مہینوں میں لاکھوں لوگ بے گھر کر دیے گئے۔غزہ کے مسلمان اب بھی اپنے سَروں پر ہمہ وقت موت کے سائے میں زندہ ہیں۔وہ اتنی سُونی پلکوں اور اُجڑی آنکھوں میں ابھی تک یہ خواب سجائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے تو خوشیوں سے لدی زندگی کا مُژدہ آئے گا۔کہیں سے ضرور بہار کے امکان جاگیں گے۔غزہ سے متعلّق امریکا اور اقوامِ متحدّہ کی پالیسیاں اب کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں رہِیں۔وہ اسرائیل کو نکیل ڈالنے کی بجائے، اس کی حمایت کرتے ہیں۔آج ساری عالمی طاقتیں ظالموں کی ہم نوا اور مظلوموں کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔
غزہ کو اُجڑا دیکھ کر، لٹے پٹے اہلِ فلسطین کے متعلق سوچ کر میرے قلب میں پیہم ایک ہی خواہش ٹکریں مار رہی ہے کہ اے کاش! کہ میری یہ مراد بَر آئے کہ مَیں 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی 114جیتی جاگتی آنکھوں میں جھانک کر دیکھوں، مَیں ان آنکھوں کی سطح سے لے کر گہرائی تک کو کھنگال ڈالوں کہ کہیں حمیت اور غیرت موجود ہے بھی یا نہیں؟ مَیں ان مطلبی آنکھوں کے کونے کونے میں پھروں، ان کے ایک ایک حصّے کو ٹٹولوں شاید کہیں آخری سانسیں لیتا ضمیر دِکھائی دے جائے۔چلیں! غیرت وحمیت کی رمق نہ سہی ان کی آنکھوں کے لق و دق صحرا میں کوئی ایک آنسو ہی کہیں نظر آ جائے۔مَیں ان کی آنکھوں میں سو سو بار جھانکوں اور یہ سوال جا بہ جا چسپاں کر دوں، کہ حرمین کے بعد بیت المقدس سب سے مقدس سر زمین ہے، جسے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟ کیا اس مقدس سر زمین کی ہماری نظروں میں کوئی اَہمّیت اور وقعت ہے؟ 57 طاقت وَر لوگوں کی آنکھیں اتنی بے بس اور بے مروّت کیوں ہو گئی ہیں؟میرا دل کرتا ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی آنکھوں کی دہلیز پر غزہ کے گھاس کھاتے بچوں کی بے یارومددگار آنکھیں رکھ دوں، شاید درد کا کوئی احساس ان کے جسم و جاں میں سما جائے، ممکن ہے ان کی پتھر نما آنکھوں میں کوئی ایک آنسو کہیں سے امڈ آئے۔اے کاش! میں اپنی اس جستجو میں کامیاب ہو پاتا۔اے کاش! میری یہ حسرت تمام ہو پاتی۔منوّر رانا ہی کا شعر ہے۔
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کس شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دِیا ہو نہیں سکتا​
اگرچہ اجڑے نگر آباد ہو جایا کرتے ہیں، کھنڈر بنا دی جانے والی بستیوں اور سنسان شہروں میں بھی پھر بہاریں جلوہ فگن ہو جایا کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنسوؤں اور سسکیوں کی جگہ دل نواز تبسم اور دل بہار مسکراہٹوں کے شگوفے بھی کِھل جایا کرتے ہیں مگر تاریخِ انسانی اب کے عجیب ہی ماتم کرے گی، فرعونوں اور ابلیسوں کے رچائے گئے رقصِ بسمل پر تو ہمیشہ ہی تاریخ نوحے کرتی رہی ہے مگر اس بار جدید تہذیب کے 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی پر ماتم کرے گی کہ امّتِ مسلمہ لٹ گئی، بہیمیت، ظلم اور درندگی نے غزہ کے مسلمان ہی نہیں بلکہ نباتات و حیوانات تک چھید ڈالے، فلسطین کے درودیوار سے ایک خوف اور وحشت ٹپکتی رہی مگر اس کے باوجود اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی آنکھوں میں کوئی کرب اور ملال کے آثار تک نہیں، ان کے لبوں پر اظہارِ تاَسّف کے لیے خفیف سی لکیر میں جنبش تک نہ ہوئی…. تاریخ نوحے کرے گی، مؤرخ سینہ کوبی کرے گا، ان پتھر سے بنی 57 مورتیوں کی اس مجرمانہ غفلت پر۔فیض احمد فیض کا شعر ہے:-
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

( انگارے ۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: کیا مدارس میں دنیاوی علوم ہونے چاہیئیں ؟