کیا مدارس میں دنیاوی علوم ہونے چاہیئیں ؟

بعض لوگ مدارس والوں کو مخاطب کر کے یہ افسوس ظاہر کرتے ہیں کہ دنیاوی تعلیم اور دینی تعلیم کو انگریز نے الگ الگ کر کے امت کو ایک عظیم خسارے میں ڈال دیا ہے، پرانے علماء دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے، لھذا مدارس کے طلباء کو دینی علوم کے ساتھ ستھ دنیاوی علوم بھی پڑھنے چاہییں، اور دنیاوی علوم مدارس کے نصاب میں داخل ہونے چاہیئں
1 – گزارش ہے کہ پہلے تو یہ تصحیح کر لیں کہ سابقہ علماء کی بھی اکثریت ایسی ہی ہوتی تھی جو دنیاوی علوم سے ناواقف ہوتے تھے، سوائے ان بنیادی چیزوں کے جو تمہیدی کلاسوں میں پڑھایا جاتا ہے، امت مسلمہ میں ہزاروں علماء گزرے ہیں، ان میں سے دنیاوی علوم کے ماہر علماء کی تعداد نہایت کم ہے، عربی زبان میں اس موضوع پر مستقل کتاب ہے: الجامعون بین العلوم الشرعیہ و العلوم التجریبیہ اس کتاب میں وہ علماء ذکر کیے گئے ہیں جو سائنسی علوم اور شرعی علوم دونوں میں ماہر تھے، چھان پھٹک کے باوجود مؤلف نے جتنے علماء جمع کیے ہیں وہ امت کے مجموعی علماء میں سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں، لھذا یہ بات بہت بڑا دھوکہ اور تلبیس ہے
امت کے سنہری دور ہی میں دیکھ لیں، اکثر کبار علماء کے تراجم اس بات سے خالی ہیں کہ وہ دنیاوی یا سائنسی علوم میں مہارت رکھتے تھے، اس کے بر خلاف تجارت کرنے والے علماء کی تعداد دنیاوی علوم میں مہارت رکھنے والے علماء سے کہیں زیادہ ہے
لھذا یہ ایک غلط بات ہے کہ سابقہ علماء دنیاوی علوم میں ماہر تھے
2 – دینی علوم کے لیے مستقل مدارس سے نہ تو امت میں کوئی خرابی آئی ہے نہ بگاڑ، بلکہ یہ عین درست طریقہ اور عظیم خیر کا سبب ہے، امت میں تخصص قدیم طریقہ ہے، ہاں اس کا انداز اس سے مختلف تھا، علماء کے حلقہ جات اور علماء کے ساتھ مستقل تعلق اختیار کیا جاتا اور ان سے متعلقہ تخصص سیکھا جاتا
نوی صدی ہجری میں لکھی گئی نعیمی رحمہ اللہ کی کتاب “الدارس فی تاریخ المدارس” جو شخص دیکھے گا وہ اس کا اقرار کیے بنا نہیں رہے گا کہ دینی علوم کے بہت سے مدارس میں دنیاوی تعلیم کا ایک مضمون تک نہیں ہوتا تھا، مستقل دنیاوی تعلیم ساتھ لے کر چلنا تو دور کی بات!!
3 – ایسا کہنے والوں کے ہاں دنیاوی علوم سے محبت اور ان کی تعظیم اس قدر دل و جان میں سرایت کر چکی ہے کہ وہ طلباء علوم شرعیہ کو اس مادی تعلیم کے بغیر حقیر خیال کرتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ دنیاوی علوم کے بغیر دنیا کے ساتھ چلنا بہت مشکل ہے، نہ کھانے کو اچھا ملے گا نہ پہننے کو، یہ ایک الگ قسم کا مرض ہے جس میں یہ لوگ مبتلاء ہو چکے ہیں، کتنے لوگ ایسے ہیں جو نہ دنیا پڑھے ہیں نہ دین، اور لاکھوں کا کاروبار کرتے ہیں!!! تو کیا دین پڑھنے سے ان میں کاروبار کی صلاحیت مٹ جائے گی!! کچھ لوگ کہتے ہیں اگر دنیاوی علوم نہیں پڑھیں گے تو چندہ کھائیں گے، یہ لوگ احمق خیر خواہ ہیں، اور زمینی حقائق سے باہر کی باتیں کرتے ہیں، شرعی مسائل سے بھی ناواقف ہیں، شریعت نے عاملین زکات اور والئ وقف کو متعلقہ مال معروف طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، لھذا ان لوگوں کو چاہیے کہ بلا علم بات نہ کریں
4 – اصل بات جو توجہ دلانے کی ہے، وہ یہ ہے کہ اصل میں یہ دنیاوی اور دینی علوم کی تقسیم کا نقصان دنیاوی علوم والوں کو ہوا ہے، سکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں الحاد، لبرلزم، سیکولرزم، بے حیائی اور دین بیزاری پھیلنے لگی ہے، اس لیے کہ انھیں دینی تعلیم سے محروم کر کے شعور و تہذیب اور تزکیہ نفس کے اسباب سے دور کر دیا گیا ہے، مدارس کی خرابی دنیاوی علوم سے دوری نہیں، بلکہ اپنے اصل نصاب کے تقاضے پورے نہ کرنا ہے، جب کہ دنیاوی تعلیم کے اداروں کی خرابی مدارس کے ضروری نصاب کو اپنے اداروں میں جگہ نہ دینا ہے، انجینئر اور ڈاکٹر پر لازم ہے کہ ضروری شرعی مسائل سے واقف ہو اور اپنے فرائض کا شرعی علم حاصل کرے، عالم پر لازمی نہیں کہ وہ انجیکشن لگانے کا طریقہ جانتا ہو!! لھذا جو کوئی دینی اور دنیاوی تعلیم کے الگ الگ اداروں کا دکھ درد بیان کرنا چاہتا ہے وہ دنیاوی تعلیم کے اداروں کو احساس دلائے!! شرعی علوم کے مدارس تو اس کا مصداق ہیں: ﴿فما آتانی اللہ خیر مما آتاکم﴾ مدارس دینیہ کا کمال انھیں دنیاوی تعلیم سے دور رکھنے میں ہے، جب کہ دنیاوی اداروں کا کمال مدارس کے ضروری نصاب کو اپنے اداروں میں داخل نصاب کرنے میں ہے
*کوئی سادہ لوح اس تحریر سے یہ اخذ نہ کرے کہ ہم علماء کے لیے دنیاوی تعلیم پڑھنے کو حرام سمجھتے ہیں یا انگلش سیکھنے کی اہمیت کے منکر ہیں یا اس قسم کی دیگر الٹی سیدھی باتیں کشید نہ کرے،

موھب الرحیم

یہ بھی پڑھیں: اے اللہ! ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے محفوظ فرما!