① علماء کرام سے سوال پوچھنے کو اللہ تعالی کا حکم سمجھیں کہ وہ ایک اہم دینی ذمہ داری سے عہدہ برا ہورہا ہے، لہذا دل میں عمل کا جذبہ اور تقویٰ الہی موجزن ہو۔
② بلاضرورت کثرت سوال دین میں معیوب چیز ہے، مثلاً ایسے مسائل جو اب تک وقوع پذیر نہیں ہوئے ان کے لئے پرتکلف مفروضے بناکر سوالات کرنا۔
③ خود سائل کو اپنے مسئلے کی مکمل تفاصیل کا بخوبی علم ہو اور اسے بروقت پیش کرسکے،تاکہ عالم کو جواب دینے میں وضوح حاصل ہو۔
④ سوال واضح اور ملخص ہو تاکہ جواب بھی واضح ہو، اگر سوال میں کسی قسم کا ابہام  ہوگا تو یقیناً جواب بھی غیر واضح ہی رہے گا۔
⑤ سائل کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اکیلا نہیں جو مفتی حضرات سے سوال کررہا ہے بلکہ روزانہ بیسیوں اور اس سے بھی زائد لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں لہذا سوال کو دوٹوک، واضح اور مختصر الفاظ میں ہونا چاہیے۔
⑥ سائل کو جس بات کا علم نہ ہو صرف اس کا سوال کرنا چاہیے ناکہ جواب ملنے پر اپنے یا کسی اور کے دلائل لاکر مناظرہ کرنا چاہیے، ہاں اگر کسی مسئلہ میں تحقیق مزید کرنا چاہیے تو اہل علم کی کتب ودروس کی طرف رجوع کریں۔ کیونکہ کتنی ہی ایسی دینی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں کہ جو مفتی صاحب اور سائل کو ادا کرنے کے لئے وقت کی تنگی رہتی ہے، پس بجائے ان مفید کاموں میں وقت صرف کرنے کے پہلے سے معلوم شدہ مسئلہ کو باربار پوچھناغیرمناسب ہے۔
⑦ کسی ثقہ عالم سے جواب ملنے کے بعد دوسرے عالم کے پاس جاکر پھر وہی سوال کرنا مناسب نہیں، جیسا کہ کسی عالم کو خوامخواہ دوسرے عالم کے دئے گئے فتویٰ کا حوالہ دینا۔ ایک تو علماء کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے دوسرا اپنے آپ کو پریشان کرنے کا سبب ہے کہ فلاں عالم تو یہ کہتا ہے اور فلاں یہ! اور آپ حیران وپریشان ہوجاتے ہیں کہ کس کی بات پر عمل کریں۔ جبکہ اللہ کا حکم تو ہے کسی بھی راسخ فی العلم ثقہ عالم سے پوچھیں اور برئ الذمہ ہوجائیں، نہ یہ کہ خواہش پرستی میں سب سے پوچھتے رہیں اور جو سہل ترین نفسانی بات ہو اسے لے لیں۔ تاہم اگر دلیل سمجھ نہ آئے تو ایک سے زائد مرتبہ سے پوچھا جاسکتا ہے۔
⑧ سوال مبہم نہ ہو کہ ایسا ایسا کسی کے ساتھ ہوا وغیرہ بلکہ واضح ہو کس سے متعلق ہے اور کیا تفصیلات ہیں کیونکہ اہل علم سے سوال کرنا کوئی عیب نہیں کہ اسے شرم کرتے ہوئے چھپایا جائے، بلکہ صحابہ وصحابیات واضح ودین کے تعلق سے کھل کر سوال کیا کرتے تھے، وہ حیاء معیوب ہے جو دینی مسئلہ کو معلوم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے جو مبہم سا سوال آپ نے کیا ہے اگر اسے مخصوص شخص یا حالت سے متعلق آپ دریافت کرتے تو شاید جواب یکسر اس دئے گئے جواب سے مختلف ہوتا۔
⑨ سائل کو چاہیے اپنے لئے سوال پوچھے ناکہ کسی غیر کے لئے کیونکہ لازم ہے کہ عالم کو دیگر تفصیلات کی ضرورت ہوگی جس کا جواب آپ بروقت نہیں دے سکتے اور اکثر غیر تسلی بخش جوابات سائل کے کمزوربیانی وعدم وضاحت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
⑩ سائل کے لئے جائز نہیں کہ عالم کی اجازت کے بغیر اس سے کی گئی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کرے، یا لکھ کر نشر کرے الا یہ کہ عالم سے پیشگی اجازت لے لی جائے، کیونکہ شرعی حکمت وقواعد کے اعتبار سے بہت سے ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کچھ لوگوں سے کی جاتی ہیں ان کے حال کو جانتے ہوئے لیکن عوام الناس میں نشر کرنا مناسب نہیں ہوتا اور ایک عالم اس بات کو بخوبی جانتا ہے لہذا اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی چیز اس سے متعلق نشر کرنا ناجائز ہے۔
⑪ عام لوگوں کی مجلس میں ایسے دقیق وعلمی واختلافی مسائل نہیں پوچھنے چاہیے کہ جسے اکثریت سمجھنے تک سے قاصر ہوں یا کسی کے لئے فتنے کا ہی باعث بن جائے۔
سائل کو اگر جواب صحیح طور پر سمجھ نہ آیا ہو تو اسے دوبارہ پوچھنا چاہیے یا جو مفہوم وہ سمجھا ہے اسے بیان کرکے پوچھنا چاہیے کیا میں صحیح سمجھا ہوں؟، ناکہ اسی غیر واضح سمجھ و فہم کو لیکر عمل شروع کردے۔
⑫ عالم سے انتہائی مناسب وقت کی اجازت لے کر سوال کرنا علماء کرام سے پیش آنے کے آداب میں سے ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہیں اور ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں ہوتے کبھی جلدی میں ہوتے ہیں کبھی کوئی ذاتی کام یا علمی تحقیق وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں تو جواب بھی ممکن ہے آپ کو تسلی بخش تفصیل کے ساتھ نہ مل پائے۔
⑬ عالم کی وقار و منزلت کو ہرحال میں ملحوظ خاصر رکھنا چاہیے کچھ علماء طبیعتاً نرم مزاج ہوتے ہیں اور کچھ تھوڑے سخت، کچھ کے جوابات آسان الفہم ہوتے ہیں تو کچھ کہ قدرے مشکل، ہمیں چاہیے کہ انہیں اس سلسلے میں معذور سمجھا جائے اور حسن ظن کو باقی رکھا جائے ناکہ ان کے بارے میں عوام میں بدگمانی کی ترویج شروع کردی جائے۔
⑭ یہ بات علماء کرام کے ساتھ بے ادبی میں شمار کی جائے گی کہ خوامخواہ کسی عالم کو عوامی مجمع میں اپنے خاص سوال کے لئے یا کسی بھی موقع پر اللہ کی قسمیں دیکر پابند کیا جائے کہ اس کاجواب دیجئے وغیرہ اس لیے کہ یہ عالم کے لیے حرج و اذیت کا سبب ہے، کیونکہ حدیث میں حکم ہے جو اللہ تعالی کی قسم دے کر سوال کرے تو اسے جواب دینا ضروری ہے دوسری طرف ہوسکتاہے کسی جائز شرعی مصلحت کے تحت وہ عوام میں جواب نہ دینا چاہتا ہو تو اسے ان دو مفاسد میں کسی ایک کو اختیار کرنے کے سلسلے میں آپ پریشانی کا  سبب بنے۔

(شیخ صالح آل الشیخ حفظه الله کے درس “علماء کرام سے سوال پوچھنے کے آداب” سے ماخوذ)