کسی بھی اصطلاح یا لفظ کے معنوی بگاڑ کے اسباب میں سے ایک سبب اس پر تکلفاً ایسی بحوث و نقود کا ہونا ہوتا ہے جو طرفین کے باہمی مجادلہ کے سبب چلتی ہیں اور اس پر اتنے دلائل و قرائن کی بھرمار کردی جاتی ہے کہ ایک لفظ کی سادگی،پچیدگی میں بدل جاتی ہے.
اس وقت لوگ اس سادہ سے لفظ اور اسکے استعمال کی بجائے اس پر دئیے گئے دلائل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ کونسے دلائل یا مؤقف انکے مزاج سے ملتے ہیں یا سہولت دہ ہوتے ہیں اور اسی اعتبار سے وہ اس اصطلاح پر قیود و خصوصیات کی شرط رکھ دیتے ہیں..!
لفظ”عالم” اتنا سادہ ہے کہ اسکی تعبیر میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں اور جب بھی اللّٰہ کے نبی علیہ السلام نے صحابہ کو علماء کی فضیلت بتائی تو صحابہ رضی اللّٰہ عنھم نے وہی تعبیر لی جو ایک عام انسان اس لفظ کو پہلی بار سننے سے لیتا ہے.
اسکی تعبیر اور تعریف میں ان خصوصیات یا امتیازات کو شامل کرنا جو حقیقتاً ان لوگوں کے درجات اور فضائل کے باب سے متعلق ہیں، تکلف اور من پسند مطلب برآوری کے سوا کچھ نہیں…!
مثلاً عالم زھد و ورع کا پیکر ہوگا معرفت الٰہی کا سپوت ہوگا یا دیگر وہ خصوصیات و فضائل جو صحابہ یا محدثین سادات میں تھیں انکو “علماء” کی تعبیر میں ضروری سمجھنا بعید از قیاس ہے.
ایک دین کا عالم اپنی حیثیت میں ویسے ہی ایک پروفیشنل ہے جس طرح دیگر فیلڈز کے ماہرین یا علماء ہیں کوئی فزکس کا عالم ہے تو کوئی میڈیکل کا..!
وہ بذات خود تو دین کا عالم ہے دین کی الف ب سے واقف ہے جیسا کہ کوئی شخص دیگر فیلڈز میں پروفیشنل ہوتا ہے اب یہ علم کے ان فوائد و لوازمات جو علم کے ثمرات و لوازمات ہوتے ہیں، انکا بھی حامل ہے یا نہیں؟ یہ سوال پرسنلی ہے اسکا تعلق خدا اور انسان کے درمیان سے ہے نہ کہ لوگوں سے!
لوگوں کا تعلق کسی بھی فیلڈ میں اسکے پروفیشنل ہونے سے ہوتا ہے کہ دین،جان اور مال کی حفاظت کیلئے وہ کس پر اعتبار کریں یا نہ کریں لوگوں کا تعلق صرف اس سے ہوتا ہے..!
جس طرح ہر فیلڈ میں کچھ ممنوعہ چیزیں ہوتی ہیں مثلاً سموکنگ کرنا تمام ڈاکٹرز کے ہاں مضر صحت ہے اسکے باوجود بھی ڈاکٹروں کی اکثریت سموکنگ کرتی ہے لیکن کوئی بھی کامن سینس رکھنے والا انسان کسی ڈاکٹر کو اس وجہ سے ڈاکٹر کہنے سے نہیں انکاری ہوگا کہ وہ سموکنگ کرتا ہے یا وہ تمام پرہیز جو مریضوں کو بتاتا ہے وہ خود نہیں بجا لیتا..!
کیونکہ یہ اسکے پرسنل معاملات ہیں آپ اسکو تب روکیں گے جب وہ اپنی سروس میں کوئی کمی کریگا یا نقصان پہنچائے گا،کئی لوگ ہیں جو نہ ڈاکٹر ہیں نہ کسی یونیورسٹی کے طالبِ علم رہے ہیں اور ہزاروں لوگوں کا کامیاب علاج کر رہے ہیں.
دنیا کے ممالک میں اس طرح کے کاموں پر پابندیاں بھی نہیں، اجازت ہی ہے۔ اجازت صرف اور صرف تب ختم کی جاتی ہے جب ایسا کوئی شخص علاج میں لوگوں کا نقصان کرنا شروع کردے اور اس کا ثبوت بھی موجود ہو.!
انجینرنگ کا بھی یہی معاملہ ہے,انڈسٹریوں میں جو انجینئر کا کام ہے اور اس کو بہت زیادہ اس کے لیے پڑھنا پڑتا ہے، حالانکہ بالکل ان پڑھ شخص اپنے اندازے اور تجربے سےوہ بڑی آسانی سے کر رہا ہے۔ اس ملک میں تو پوری پوری کنسٹرکشن کے کام تقریباََ وہ لوگ کر رہے ہوتے جن کے پاس کوئی ڈگری ہی نہیں اور بس اعتراض نہ ہو، اس کے لیے کوئی انجینئر رکھ لیتے ہیں جس کا کوئی عملی کردار نہیں ہوتا۔ ڈگری سے کچھ نہیں ہوتا، قابلیت اصل چیز ہوتی ہے۔ کتنے ہی لوگ میڈیکل پڑھ کر بھی علاج نہیں کرسکتے اور کتنے اس کے بغیر کامیاب ہیں۔
یعنی اس کا تعلق ڈگری سے نہیں بلکہ لوگوں کے اعتماد سے ہے اور یہ وقتی ضرورت ہے
حدیث مشھور ہے کہ جو شخص طب کا ماہر نہیں تھا خود سے طبیب بننے کی کوشش کی تو غلطی کہ صورت میں یہ ضامن ہوگا.’
اب مسئلہ یہ ہے کہ اب یہ کیسے معلوم ہوگا کہ وہ واقعی ڈاکٹر تھا یا نہیں؟ کیونکہ اس وقت تو یہ ڈگریز اور سرٹیفیکیٹس کا سلسلہ نہیں تھا تو یہ فطری سوال ہی ہمیں اس مسئلہ کیطرف لیکر جاسکتا ہے جو فی الوقت پیش ہے.
سادہ سی بات ہے کہ یا تو اسکا کوئی استاد ہوگا جسکی گواہی ہی کافی ہے یا تو لوگ اس سے واقف ہونگے اسکی مھارت اور تجربہ سے، کہ لوگ گواہی دیں, اسکے علاوہ وہ بھلے جتنا مرضی کہے کہ مجھے فلاں چیز آتی ہے یا میں نے یہ پڑھا ہے وہ پڑھا ہے اسکی بات کا اعتبار ہی نہیں ہوگا کیونکہ اب غلطی ہوگئی ہے اسکا ضامن تو بننا پڑے گا ہی اسے..!
ویسے ہی دین کا فتویٰ دینا یا قاضی بننا کوئی چھوٹی بات نہیں ایک مذہب ماننے والا انسان اسکی اہمیت کسی بھی ڈاکٹر سے زیادہ جانتا ہے تو کیا اسکی کسی غلطی کی صورت میں وہ ضامن نہیں ہو گا؟ کیونکہ یہ مسئلہ صرف شوقیہ کام یا دینی خدمت کا نہیں بلکہ انسانوں کی ضروریات زندگی سے ڈائریکٹ منسلک ہے.
اگرچہ ہمارے ہاں جو بھی اسکی صورت بن گئی ہے یا سیکولر ذہن نے مذہب کو ریاست کے تمام مسائل سے الگ سمجھ رکھا ہے.
آپ اندازہ کریں کہ کوئی جج بغیر ڈگری کے کوئی فیصلہ کر کے دکھائے کیوں؟ کیونکہ اسے ریاست نے ذمہ دار بنایا ہے پہلے دین کے مطابق فیصلہ دینے والے قاضی کیلئے بھی یہی شرائط تھیں چونکہ اب دین پر کسی ریاست کے قانون کو فوقیت حاصل ہے تو لوگوں نے اسے واقعتاً ذاتی مسئلہ ہی سمجھ لیا ہے اور اسے شوقیہ طور پر بھی بجا لاتے ہیں بغیر کسی کا لحاظ کیے حالانکہ ہر فیلڈ میں چھوٹے بڑے لوگ ہوتے ہیں اور انکے اپنے مراتب بھی ہوتے ہیں اور انکا انہی مراتب سے لحاظ کرنا بھی ضروری اور اخلاقی ضرورت ہے جو کسی بھی صورت میں پاپائیت نہیں ہے،
پھر اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہر مسئلہ میں رائے زنی کرنے کا شوق ہے بلکہ ایک داعی اور مصلح بننے کی بجائے خود کو ایسا محقق ڈکلیئر کرنا کہ اختلاف کرنے والے بڑے سے بڑے محقق اور عالم کو ایسے پیش آنا کہ میں ہی بڑا عالم ہوں اور دین کی ٹھیکیداری کے طعنے دینا یا پاپائیت سے تشبیھ دینا انتہائی جذباتی اور بے تکی بات ہے..!
میں نہ تو ڈگریوں کو ہی اصل دلیل سمجھتا ہوں اور نہ ہی فکری طور پر آوارہ گردی کو علم سمجھتا ہوں کچھ بھائی محدثین کی وہ شرائط جو انہوں نے حدیث لینے میں استاد کے ہونے کی لگائی تھیں، انکو اس مسئلہ میں پیش کردیتے ہیں یہ بھی تکلف ہے اس وقت صورتحال کچھ ایسی تھی کہ حدیث کے مصادر اتنے معروف نہیں تھے سینہ بسینہ سیکھنے کا رواج زیادہ تھا اور اسنادی پیچیدگیاں بھی تھیں یعنی اس وقت راوی حدیث کیلئے پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ عادل اور زاہد ہونا بھی ضروری تھا کیا اب یہ شرط لگائی جاسکتی ہے؟
آج ہر بات موجود ہے اور اسکا مصدر بھی معروف ہے، اساتذہ بھی وہیں موجود ہیں جہاں نیٹ پر کتابیں موجود ہیں.
رہی بات نظر ثانی کی تو وہ بھی ہوجاتی ہے اسکو اس سے کمپئیر کرنا درست نہیں ہے نہ تو دین میں سرمایہ دارانہ مزاج ہے یہ ڈگریز وغیرہ سرمایہ دارانہ مزاج کا ہی شاخسانہ ہیں رہی بات لوگوں کے اعتماد کی تو وہ خود سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کونسا شخص کتنے پانی میں ہے؟
جو آوارہ لوگ خود کو اپنی بساط سے بڑے مسائل کیلئے پیش کرتے ہیں انکو ڈر جانا چاہیے اور علم کی قدر کرنی چاہیے اس طرح تو کسی بھی پروفیشن کی بے قدری ہی ہوتی ہے کہ ہر بندہ ہی خود کا ماہر سمجھنے لگ جائے اور خود سے ان مسائل کو تکلفا بے سروپا ڈیل کرنے لگ جائے گوی کہ علمی عمارت کی بنیادوں سے ہی لا تعلق ہے عموماً ایسا ہوتا نہیں ہر فیلڈ میں لوگ اپنے اساتذہ اور درسگاہوں کا حوالہ دیتے ہیں اور شوق سے دیتے ہیں.!
تخصص اور خصوصیات بھی کوئی معنی رکھتی ہیں انکی قدر کرنی چاہیے ہر انسان کو، نبی علیہ السلام کے دور میں صحابہ کرام میں سے بعض کو”سرٹیفائیڈ” بھی کیا گیا کہ یہ حدیث کے ماہر، یہ فقہ کے ماہر، یہ فرائض کے ماہر، یہ تفسیر کے ماہر، یہ عدل و قضا کے ماہر، یہ فن سپہ گری کے ماہر اور یہ شعر و شاعری کے ماہر ہیں فلھذا ان سے پوچھا کرو اور خود صحابہ بھی اسی کی بدولت پوچھنے والوں کو ریفر کرتے تھے.
اسکا تعلق روحانیت اور اخلاقیات سے ہے نہ اسکا کوئی باقاعدہ نصاب تھا مطلب ادب کا بھی کیا کوئی نصاب ہوتا ہے؟ اسکو تو محسوس کیا جاتا ہے سمجھا جاتا ہے،ادب کے قرائن ہوتے ہیں اسکے دلائل نہیں ہوتے اور نہ اس پر مناظرے ہوتے ہیں، بے ادب اور ںے قدرا انسان ہمیشہ غیر فطری کام کریگا اور پھر اسکو ثابت کرنے کیلئے بھی غیر فطری طریقہ آزمائیگا.!
امام عبدان بن محمد الجنوجردی رحمہ اللہ (٢٩٣ھ) کی جب نیشاپور آمد ہوئی تو ان کے شاگرد امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فتوی کی چِٹھیاں اپنے استاد کی طرف بھیجنا شروع کر دیں اور فرمایا : ”جس شہر میں میرے استاد ہوں، وہاں میں فتوی نہیں دوں گا۔“
(الأنساب للسمعاني : ١٨١/٩)
اسی طرح تدریس کا طریقہ بھی عہد صحابہ سے شروع ہوچکا تھا، کوفہ میں ابن مسعود، مکہ میں ابن عباس، مدینہ میں ابن عمر رضی اللّٰہ عنھم وغیرہ سے تابعین نے باقاعدہ علم حاصل کیا اور فتویٰ لینے میں بھی بڑے اہل علم کو ہمیشہ آگے کیا..!

عمیر رمضان