علماء کے اقوال کا علی الاطلاق نقل کرنا
سوشل میڈیا پر مختلف جوانب سے بسا اوقات اقوال علماء پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں سے اکثر اقوال کسی مخصوص ماحول و کیفیت کی مناسبت سے کہے لگتے ہیں لیکن ہم انہیں علی الاطلاق نقل کر کے اپنے من پسند فتاوی صادر کرنے کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تعامل مع اھل بدعات کے حوالے سے بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا کہ دھڑا دھڑ متقدمین و اسلاف رحمھم اللہ کے اھل بدعات کے رد و عدم مجالست و مصاحبت پر اقوال نشر کیے جا رہے تھے ضرورت اس امر کی تھی کہ ان اقوال کے مالہ وما علیہ پر نظر ڈالی جاتی پھر اس سے استشھاد کیا جاتا لیکن ہر شخص اپنے پسند کے عالم دین کے اقوال نقل کرنا دین کی بہت بڑی خدمت سمجھ بیٹھا ہے مزید حیرانی اس وقت ہوتی ہے جبکہ آیات و احادیث کے موجود ہوتے ہوئے صرف کسی کا قول علی الاطلاق نقل کیا جانا یا کسی مخصوص علاقے کے محدث کے شاگرد ہر مسئلہ پر صرف اپنے استاد کے فتویٰ کو نقل کرتے ہیں اور دیگر علماء کے فتاوی سے صرف نظر کرتے ہیں۔
بہرحال علماء کے اقوال کو بغیر کسی تنقیح و تحقیق اور سمجھ بوجھ کے نقل کرنا علمی، دینی اور سماجی لحاظ سے کئی مثبت اور منفی نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو تفصیل سے سمجھنا ضروری ہے تاکہ ایک متوازن علمی رویہ اختیار کیا جا سکے۔
مثبت پہلو
1. علماء کے اقوال کی تدوین اور نقل سے علمی سرمایہ محفوظ رہتا ہے۔ اگر اقوال نقل نہ کیے جائیں تو بہت سے قیمتی علمی نکات ضائع ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر اسلامی تاریخ، فقہ، تفسیر اور حدیث میں مختلف آراء کا محفوظ رہنا امت کے لیے فائدہ مند ہے۔
2. اسلامی تاریخ میں فقہ، تفسیر، عقائد، اور دیگر علوم میں اختلافی مسائل پر مختلف علماء نے آراء دی ہیں۔ اگر ان اقوال کو محفوظ نہ رکھا جائے تو ایک محدود علمی دائرہ وجود میں آ سکتا ہے، جو کہ تحقیق اور اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے کے مترادف ہو گا۔
3. متعدد اقوال کی موجودگی محققین کے لیے ایک بنیادی ذریعہ ہے، جس سے وہ استدلال کر سکتے ہیں۔ اگر کسی معاملے میں کوئی نیا اجتہاد درکار ہو تو پرانے اقوال کا مطالعہ کرنا انتہائی مفید ہوتا ہے۔
4. جب مختلف اقوال کو نقل کیا جاتا ہے تو اس سے امت میں اختلاف رائے کو سمجھنے اور برداشت کرنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اس سے علمی مکالمے کو فروغ ملتا ہے اور علمی تنازعات کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
منفی پہلو
1. اگر اقوال کو ان کے اصل سیاق و سباق کے بغیر نقل کیا جائے تو ان کے معنی بگاڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ کسی عالم کے کلام کا ایک جملہ نقل کر کے اس کا ایسا مطلب نکالتے ہیں جو کہ اصل مفہوم کے خلاف ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان فیس بکی محککین جب کسی کی ایسی تیسی پھیرنا چاہتے ہیں تو یہی کرتے ہیں۔
2. اگر ہر قول کو تحقیق کے بغیر نقل کیا جائے تو بہت سے ضعیف، موضوع (من گھڑت) اور شاذ اقوال بھی علمی حلقوں میں گردش کرنے لگتے ہیں، جس سے علمی معیار متاثر ہوتا ہے اور عوام میں غلط فہمیاں پھیلتی ہیں۔
3. بعض اوقات علماء کے اقوال کو غلط طریقے سے نقل کر کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے۔ خاص طور پر اگر کسی مسئلے پر متضاد آراء کو بغیر وضاحت کے پیش کیا جائے تو یہ علمی تنازع کو فرقہ واریت میں بدل سکتا ہے۔
4. کسی عالم کے کسی مخصوص قول کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کر کے انہیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ قول مخصوص حالات یا مخصوص سوال کے جواب میں دیا گیا ہوتا ہے۔ اس سے علماء کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور علمی بددیانتی پیدا ہوتی ہے۔
کیا کرنا چاہیے؟
علماء کے اقوال کو نقل کرنے کا ایک معتدل اور متوازن طریقہ ہونا چاہیے تاکہ فوائد حاصل ہوں اور نقصانات سے بچا جا سکے۔ اس کے لیے درج ذیل اصول اپنانے ضروری ہیں:
قول کا مستند ماخذ معلوم ہونا چاہیے۔
اگر کوئی قول ضعیف یا موضوع ہے تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔
عالم نے یہ بات کس زمانے، کس مقام، اور کس مسئلے کے تحت کہی ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے۔
اگر قول کسی خاص فہم یا عقیدے پر مبنی ہے تو اس کی بھی وضاحت کی جائے۔
اقوال کو علمی انداز میں نقل کیا جائے، نہ کہ کسی خاص نقطہ نظر کو زبردستی ثابت کرنے کے لیے۔
کسی قول کو دوسرے علماء کے اقوال کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھنا ضروری ہے تاکہ مکمل تصویر واضح ہو۔
فقہی اور دینی مسائل میں عمومی طور پر کتاب و سنت کے دلائل کو بنیاد بناتے ہوئے جمہور علماء کے موقف کو ترجیح دینا
اگر کسی قول کو نقل کیا جا رہا ہے، تو یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ یہ اکثریتی علماء کا موقف ہے یا ایک شاذ (نادر) رائے ہے۔
اگر ایک قول کسی مخصوص فقہی مکتب فکر سے متعلق ہے، تو اس کا ذکر ضروری ہے تاکہ غلط فہمی نہ ہو۔
شاہ فیض الابرار صدیقی