سحری کے مسائل

عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً»
[صحيح البخاري،رقم 1923]

صحابی رسول انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کیا کرو کیونکہ سحری میں‌ برکت ہے ۔

سحری کی برکت:

اس حدیث‌ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کو برکت قرار دیا ہے ، ایک دوسری حدیث‌ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ’’الغداء المبارك‘‘ بابرکت کھانا کہا ہے۔
[أبو داود2344 حسن]

ایک اور حدیث‌ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

”إِنَّهَا بَرَكَةٌ أَعْطَاكُمُ اللَّهُ إِيَّاهَا فَلَا تَدَعُوهُ”.

یہ سحری برکت ہے ،تمارے رب کی طرف سے عطیہ ہے اس لئے اسے نہ چھوڑو
[النسائي 2162اسنادہ صحیح]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس برکت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

1: اس میں سنت کی پیروی ہے۔

2:اہل کتاب کی مخالفت ہے۔

3: اس سے عبادت پر قوت حاصل ہوتی ہے۔

4: چستی میں اضافہ ہوتا ہے۔

5: بھوک کی وجہ سے متوقع بدخلقی سے نجات مل جاتی ہے۔

6:اگر سحری کے وقت کوئی سائل آجائے تو صدقہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔

7:قبولت دعاء کے اوقات میں ذکرودعاء کا موقع مل جاتاہے،

8: شام کو کوئی روزہ کی نیت کرنا بھول گیا تو اسے نیت کرنے کا موقع مل جاتاہے۔
[فتح الباري لابن حجر 4/ 140]

سحری کی فضیلت:

سحری یہ امت محمدیہ کی خصوصیت ہے ، پہلی امتوں پر روزے توفرض تھے مگر انہیں سحری کی سہولت میسر نہیں تھی ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ، أَكْلَةُ السَّحَرِ[مسلم 1096]۔
یعنی ہمارے روزوں اوراہل کتاب کے روزوں میں فرق سہری کھا نا ہے۔

بعض روایت میں آتا ہے کہ سحری کرنے والےپر اللہ اپنی رحمتیں نازل کرتاہے اورفرشتے دعائیں کرتے ہیں ، لیکن یہ روایت ضیعف ہے (مسنداحمد وغیرہ‌)۔

سحری کا حکم :

سحری کھانا مستحب ہے ، واجب نہیں ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے ’’باب بركة السحور من غير إيجاب؛ لأنّ النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه واصلوا، ولم يذكروا السحور‘‘[البخاري، قبل الرقم 1922]۔
یعنی سحری کھانا باعث برکت اورمستحب ہے واجب نہیں کیونکہ نبی کریم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے پے درپے روزے رکھے اور ان میں سحری کا ذکر نہیں ہے۔
صحابی رسول قيس بن صرمة(!)الأنصاري رضی اللہ عنہ نے رمضان میں بغیرافطارو سحری کے دوسرے دن کا روزہ رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ ہوا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء کا حکم نہیں دیا[البخاري،رقم 1915]۔

امام نووی فرماتے ہیں:

وَأَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِهِ وَأَنَّهُ لَيْسَ بِوَاجِبٍ[شرح النووي على مسلم 7/ 206]

یعنی اس بات پر اجماع ہے کہ سحری واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ۔

سحری کا مستحب وقت:

سحری تاخیر سے کرنی چاہئے ،زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

«تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ» ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَ الأَذَانِ وَالسَّحُورِ؟ ” قَالَ: «قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً»[البخاري1921]۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں‌:

فِيهِ الْحَثُّ عَلَى تَأْخِيرِ السُّحُورِ إِلَى قُبَيْلِ الْفَجْرِ [شرح النووي على مسلم 7/ 208]

اس حدیث‌ میں‌ تاکید ہے کہ سحری کو مؤخر کرکے فجرسے کچھ دیرقبل کھانا چاہئے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں‌ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “إِنَّا مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُؤَخِّرَ سُحُورَنَا، وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَا، وَأَنْ نُمْسِكَ بِأَيْمَانِنَا عَلَى شَمَائِلِنَا فِي صَلَاتِنَا»[صحيح ابن حبان 5/ 67]۔
یعنی ہم انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم سحری دیر سے کریں‌ اورافطار میں جلدی کریں اورنماز میں دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑیں رہیں۔

تنبیہ:
اگردیر سے سحری کرتے ہوئے کبھی کبھار اذان شروع ہوجائے تو کھانا فورا چھوڑنے کے بجائے اسے ختم کرکے اٹھنا چاہئے۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ»[سنن أبي داود 2350 اسنادہ‌ صحیح]

یعنی تم میں سے جب کوئی (فجر) کی اذان سنے اوربرتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے رکھے نہیں بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کے احتیاط کے نام پر تما م لوگوں کو پانچ دس منٹ پہلے ہی سحری سے روکنا غلط ہے ۔

سحری میں کھانے کی چیزیں:

سحری میں کھجور کھانا مستحب ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«نِعْمَ سَحُورُ الْمُؤْمِنِ التَّمْرُ»[أبو داود، رقم 2345 واسنادہ صحیح]۔
اس کے علاوہ جوبھی حلال رزق میسرہوکھاسکتے ہیں ، اگر کچھ بھی مہیا نہ ہوسکے تو ایک گھونٹ پانی ہی لینا چاہے، صحابی عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَسَحَّرُوا وَلَوْ بِجَرْعَةٍ من ماء[صحيح ابن حبان 3476]۔
سحری کرو خواہ ایک گھونٹ پانی ہی سے کیوں نہ ہو۔

تنبیہ:
اگرباجماعت نماز پڑھنے والے حضرات سحری تاخیر سے کریں تو اس میں کچی پیاز اور کچا لہسن استعمال نہ کریں کیونکہ جماعت کے لئے مسجد جانا ہوگا اورمسجد میں یہ چیزیں کھا کرآنا منع ہے ۔

کچھ لوگ تمباکو نوشی کے عادی ہوتے ہیں ، یہ چیز توتمام اوقات میں ناجائز ہے لیکن سحری میں اس کے استعمال سے اس کی قباحت اوربڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدبو پیاز اورلہسن کی بدبو سے بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے۔

تحریر:
کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

یہ بھی پڑھیں: اپنے روزے کی حفاظت کریں