مار نہیں، پیار سے پہلے کی باتیں ہیں کہ طلبہ، اساتذہ کے برابر بیٹھنا، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے۔ اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں نوازتا بھی تھا۔
الغرض والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی
اور اس کا تسلسل دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے چلا آرہا تھا۔اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی:
“کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ کرےوہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔
اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔”
سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے :

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔
الرحمن : 60

باادب با نصیب، جو ادب کرے گا وہ ادب کروائے گا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا

اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانوں کے لیے بھلائی کی اور اگر برائی کی تو انھی کے لیے
بنی اسرائیل : 7

سنن ترمذی میں ایک روایت ہے جو معنًی صحیح ہے۔

مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ

ترمذی 2022

جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے ،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقررفرمادے گا جو اس عمرمیں(یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں۔ ایک بوڑھے کی تعظیم میں تاخیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھا آدمی نبی کریم ﷺ سے ملاقات کیلئے آیا

تو لوگوں نے اسے رستہ دینے یا بیٹھنے کی جگہ دینے میں دیر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا “

سنن الترمذي، 1919، صحيح
”جو ہمارے چھوٹے پر رحم اور شفقت نہ کرے ،اور ہمارے بڑے کی عزت نہ کرے، تو وہ ہم میں سے نہیں“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بزرگوں کی وجہ سے نماز ہلکی کردیتے تھے۔آپ نے فرمایا:

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ مِنْهُمْ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ

بخاري: 671
جب تم میں سے کوئی، لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ لوگوں میں کمزور، بیمار اور بوڑھے سبھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔

بوڑھے کی عزت کرنا اللہ تعالیٰ کی عزت کرنے سے ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ

(ابو داؤد كِتَابُ الْأَدَبِ، بَابٌ فِي تَنْزِيلِ النَّاسِ مَنَازِلَهُمْ4843)
دیکھئے صحیح الجامع ، حدیث 2095

” بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو اور تقصیر سے بچتا ہو اور ( اسی طرح ) حاکم عادل کی عزت کرنا ‘ اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے ۔ “

بزرگوں میں برکت

عبداللہ بن عباس ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ:برکت تمہارے بزرگوں (عمر رسیدہ لوگوں)کے ساتھ ہے.
سلسلہ صحیحہ 322

اساتذہ، بزرگ اور بڑے ہوتے ہیں

اساتذہ، بزرگ اور بڑے ہوتے ہیں، اساتذہ، اُن سبھی حقوق اور آداب کے مستحق ہیں جو بزرگوں اور بڑوں کے لیے ہیں۔

رہبربھی یہ ہمدم بھی یہ غمخوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

عباس رضی اللہ عنہ کا حسنِ ادب

عباس چچا تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھتیجے تھے،عباس  عمر میں بڑے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے تھے۔ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استاد اور معلم تھے۔ تو سیدنا عباس رضى الله عنه سے پوچھا گیا :

أيُّما أكبر، أنت أم النَّبيُ صلى الله عليه وسلم؟

”آپ بڑے ہیں یا نبی صلى الله عليه وسلم؟“
فرمایا :

هو أكبر منِّي، وأنا وُلدت قبله

”بڑے تو وہی ہیں، اگرچہ پیدا پہلے میں ہوا تھا۔“

رواه الطبراني، كما قال الهيثمي في ((مجمع الزوائد)) (9/273)، والحاكم (3/362)، قال الهيثمي: رجاله رجال الصَّحيح.
(سير أعلام النبلاء للذهبي : 80/2)

استاد،عمر میں چھوٹا بھی ہوتو پھر بھی اپنی انا قربان کرکے علم حاصل کریں۔ صحابیِ رسول حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ساداتِ قریش میں سے تھے اور آپ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس علم حاصل کیا کرتے تھے۔ باوجود اس بات کے کہ وہ معاذ سے پچاس سال بڑے تھے
ان سے کہا گیا:

أنت تتعلم على يد هذا الغلام ؟

کہ آپ اس لڑکے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا:

إنما أهلكنا التكبر

(اس میں حرج ہی کیا ہے) ہمیں تکبر نے ہلاک کردیا ہے
الآداب الشرعية لابن مفلح ٢/٢١٥

استاد کی عزت کیے بغیر علم حاصل نہیں کیا جاسکتا

ایک عربی شاعر کہتا ہے:

اِنَّ المُعلمَ والطبيبَ کلاھما
لاینصَحان إذا ھما لم یُکرَما
فاصبِر لِدائکَ اِن اھنتَ طبیبَہ
واصبر لِجھلکَ اِنْ جَفَوتَ مُعلما

استاد اور طبیب، دونوں کی حالت یہ ہے کہ جب تک ان کی عزت نہ کی جائے ان سے خیر حاصل نہیں ہوسکتی لھذا اگر آپ، طبیب کی بےعزتی کرتے ہو تو پھر اپنی بیماری کو برداشت کرو اور اگر استاد سے بے وفائی کرتے ہو تو پھر اپنی جہالت پہ راضی رہو۔

استاد کو اس کے نام سے نہ پکارا جائے

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے “الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع” میں لکھا ہے کہ استاد کو اپنے نام سے نہ پکارا جائے بلکہ اس کے لئے احترام جیسے کلمات استعمال کریں جیسے ” أيها العالم، أيها الحافظ “ایسے کلمات استعمال کرو جن میں تعظیم پنہاں ہو۔

موسی علیہ السلام نے اپنے استاد سے کہا :میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا

موسی و خضر علیہما السلام کا واقعہ مشہور ہے جب موسی علیہ السلام کو پتہ چلا کہ خضر علیہ السلام کے پاس علم ہے تو سیکھنے کے لیے خضر کے پاس تشریف لے گئے اور جا کر کہنے لگے :

قَالَ لَهُ مُوسَى هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا

موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں تیرے پیچھے چلوں؟ اس (شرط) پر کہ تجھے جو کچھ سکھایا گیا ہے اس میں سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دے۔
الكهف : 66

خضر علیہ السلام نے کہا:

قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا

اس نے کہا بے شک تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔
الكهف : 67

وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا

اور تو اس پر کیسے صبر کرے گا جسے تو نے پوری طرح علم میں نہیں لیا۔
الكهف : 68

موسی علیہ السلام نے کہا:

قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا

اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو توُ مجھے ضرور صبر کرنے والا پائے گا اور میں تیرے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
الكهف : 69

دیکھیے کتنا عظیم شاگرد ہے، وقت کا پیغمبر ہے، اولوالعزم رسولوں میں سے ہے، اس سے باری تعالیٰ نے کلام کی ہے، کلیم اللہ کے لقب سے مُلَقَّبْ ہے، ان پر تورات نازل ہوئی ہے
مگر
ادب کا انداز کیسا ہے کہ استاد محترم کو کہہ رہے ہیں۔

وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا

استاد محترم! میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔

مگر افسوس کہ آج چھوٹے چھوٹے شاگرد، جن کی کوئی اوقات نہیں ہوتی، بس یہ کہ کسی چوہدری کا بیٹا ہوں یا میرا باپ گورنمنٹ کا افسر ہے تو اساتذہ کو پریشرائزڈ کرتے ہیں، بے عزت کرتے ہیں، اور نہ جانے کیا کچھ

 

علم حاصل کرنے کے لیے چھ بنیادی شرائط

ایک عربی شاعر کہتا ہے :

اخی لن تنال العلم إلا بستۃ
سانبیک عن تفصیلہا ببيان
ذکاءوحرص و اجتہاد وغربۃ
وصحبۃ استاذ وطول زمان

اے میرے بھائی چھ کام کیے بغیر آپ علم حاصل نہیں کر سکتے اور میں تجھے ان چھ چیزوں کی تفصیل بیان کرتا ہوں۔
1 ذہانت
2 علم کی حرص
3 محنت و کوشش
4 علاقے اور وطن سے دوری
5 استاد محترم کی صحبت و رفاقت میں بیٹھنا
6 اور علم کے لیے لمبا وقت صرف کرنا

حصولِ علم کے لیے استاد سے چمٹے رہنے کا حیران کن واقعہ

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بَقِی بن مخلد رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کے لئے پیدل اندلس سے بغداد کا سفر طے کیا۔
امام بقی خود اپنی روداد سفر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب میں بغداد کے قریب پہنچا تو مجھے امام احمد بن حنبل کے آزمائش کی اطلاع ملی اور مجھے معلوم ہوا کہ انہیں لوگوں سے ملنے اور تعلیم و تدریس پر پابندی لگی ہوئی ہے۔
چنانچہ آزمائش کی خبر سن کر مجھے کافی تکلیف پہنچی۔ بغداد پہنچ کر میں نے اپنا سازو سامان ایک کمرے میں رکھا۔ اور امام احمد بن حنبل کے گھر کی تلاش میں نکل پڑا۔ پوچھتے ہوئے ان کے گھر پہنچا اور دروازہ پر دستک دی تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے از خود میرے لئے اپنے گھر کا دروازہ کھولا۔

میں نے عرض کیا: ابو عبداللہ! میں ایک اجنبی آدمی ہوں، حدیث کا طالب علم ہوں، سنت رسول کو لکھنے کا مجھے شوق ہے، آپ کے پاس میرے آنے کا اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے۔

امام احمد نے کہا: آپ اندر آجاؤ اور دیکھو کسی  کو تمھارے آنے کی کی خبر نہ لگے۔ پھر مجھ سے حال و احوال دریافت کرتے ہوئے کہنے لگے: فی الحال میں ایک آزمائش میں مبتلا ہوں اور مجھ پر تعلیم و تدریس کی پابندی لگی ہوئی ہے۔

میں نے امام احمد سے دوبارہ عرض کیا: میں ایک اجنبی آدمی ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں روزانہ فقیروں کے بھیس میں آپ کے گھر آیا کروں، آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر صدقہ اور مدد کا سوال کروں۔ پھر آپ گھر سے نکل کر مجھے حدیث بیان کریں اگرچہ ایک ہی حدیث سہی۔
امام بقی کہتے ہیں: پھر میں روزانہ ان کے گھر آیا کرتا اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز لگاتا: “آپ پر اللہ کی رحمت ہو صدقہ دو اجر پاؤ”
یہ آواز سن کر امام احمد نکلتے اور مجھے اپنے گھر میں لے جاتے اور مجھ سے کبھی دو کبھی تین اور کبھی اس سے زیادہ حدیثیں بیان کرتے یہاں تک کہ میرے پاس اس طرح 300 حدیثیں جمع ہوگئیں۔

پھر ایک دن آیا کہ اللہ تعالی نے امام احمد کو اس آزمائش سے چھٹکارا دلایا اور ہر طرف ان کے چرچے ہونے لگے۔ اس کے بعد جب میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس آتا ( جب وہ اپنے وسیع حلقے میں اپنے طلبہ کے ساتھ ہوتے ) تو مجلس میں میرے لئے جگہ بناتے اور مجھے اپنے قریب بٹھاتے اور حدیث کے طلبہ سے مخاطب ہوکر فرماتے: دیکھو! “طالب علم اسے کہتے ہیں”۔

(سير أعلام النبلاء 13/292)

عمران محمدی