سوال

کیا والدہ کے بلانے پر فرض نماز توڑی جاسکتی ہے؟ جیسا کہ کچھ لوگ رسول ﷺ کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور میری والدہ مجھے بلائیں تو میں نماز توڑ کر اپنی ماں کی بات سنوں گا۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہاں صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ دو متضاد چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔ یعنی ایک طرف ماں کی آواز ہے جس کا جواب دینا بھی ضروری ہےاور دوسری طرف نماز کا سکون اور اطمینان سے ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ تو دونوں میں سے کس کو مقدم کیا جائے؟
سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کا تو دور دور تک احادیث مبارکہ میں نام نشان نہیں ملتا، لہذا اس طرح کی باتیں آگے شیئر بھی نہیں کرنی چاہییں۔
البتہ اہلِ علم نے دیگر نصوصِ شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ میں کلام کیا ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:

“إذا دعت الأم ولدها في الصلاة”.[صحیح البخاری، قبل حدیث:1148]

’جب نماز پڑھتے ہوئے ماں اولاد کو آواز دے‘۔
اس کے بعد انہوں نے معروف زاہد جریج کا واقعہ ذکر فرمایا ہے جو نماز پڑھتے ہوئے اپنی ماں کو جواب نہ دے سکے تو ماں نے بددعا کی اور اس بددعا کے نتیجے میں وہ آزمائش سے دوچار ہوئے۔[صحیح البخاری:3436]
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے اگر ماں آواز دے تو نماز کو چھوڑ کر ماں کی طرف جانا چاہیے۔
لیکن ہمارے مطابق اس میں تفصیل ہے کہ اگر نفل نماز ادا کر رہا ہو تو نماز چھوڑ کر ماں کو جواب دینا چاہیے اور اگر فرض نماز پڑھ رہا ہو تو پھر اپنی نماز کو مکمل کرنا چاہیے اور قراءت یا تسبیح وغیرہ کرتے ہوئے آواز اونچی کرلے تاکہ ماں کو پتہ چل جائے کہ میرا بیٹا نماز میں ہے۔اور نماز کو ہلکا کرتے ہوئے، جلدی سے ادا کرکے ماں کی طرف جائے اور اس کا حکم بجا لائے۔
جیسا کہ نبی مکرم ﷺ دورانِ نماز جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز کوہلکا کر دیتے ۔ سیدنا ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:

“إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ”.[صحیح البخاری:707]

’میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں، کیونکہ اس کی ماں کو(جو نماز میں شریک ہو گی) تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھتا ‘۔
جریج کے واقعہ پر امام نووی رحمہ اللہ نے درج ذیل عنوان قائم کیا ہے:
«باب تقديم الوالدين على التطوع بالصلاة وغيرها».
’نفل نماز وغیرہ عبادات پر والدین کی بات کو مقدم رکھنے کا باب‘۔
پھر فرماتے ہیں:

«قَالَ الْعُلَمَاءُ هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ كَانَ الصَّوَابُ فِي حَقِّهِ إِجَابَتَهَا لِأَنَّهُ كَانَ فِي صَلَاةِ نَفْلٍ وَالِاسْتِمْرَارُ فِيهَا تَطَوُّعٌ لَا وَاجِبٌ وَإِجَابَةُ الْأُمِّ وَبِرُّهَا وَاجِبٌ وَعُقُوقُهَا حَرَامٌ ». [شرح النووي على مسلم 16/ 105]

’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جریج کے حق میں والدہ کی پکار پر لبیک کہنا ضروری تھا، کیونکہ وہ نفلی نماز میں تھا، جس کو جاری رکھنا بھی نفل ہی تھا، جبکہ والدہ کی بات کا جواب اور اس سے حسنِ سلوک واجب ہے اور اس کی نافرمانی حرام‘۔
امام نووی رحمہ اللہ کے اقتباس سے جہاں فرض اور نفل کے فرق کی وضاحت ہوتی ہے، وہیں یہ بات بھی نمایاں ہوتی ہے کہ اس سلسلے میں والدہ اور والد دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
لہذا نفلی نماز ہو تو اسے چھوڑ کر والدین کی پکار پر لبیک کہے اور فرض نماز ہو تو اسے جلدی مکمل کرکے پھر والدین کی بات سنے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ